میرا نام م – ر – ش – ہے۔ میں ہیموفیلیا کا مریض ہوں۔ اس بیماری کی وجہ سے جو جسمانی طور پر تکلیف ہوئی وہ تو میں نے کسی نہ کسی طرح برداشت کرلی کیوں کہ مجھے ہمیشہ سے یہ معلوم تھا کہ یہ درد تھوڑی دیر کے لیے ہے آج یا کل یہ ختم ہوجائے گا اور میں پھر سے ایک نارمل زندگی گزار سکوں گا۔ لیکن اس بیماری کی وجہ سے لوگوں کے رویوں نے جو تکالیف دیں، وہ مجھ سے برداشت نہ ہو پائیں یہ مجھے اند ر ہی اندر کھا جاتیں ہیں۔ یہ رویے اور باتیں میرے ذہن میں سوار رہتے ہیں۔ اور میں اپنے رب سے یہ پوچھنے پر مجبور ہوجاتا ہوں کہ میں ہی کیوں؟
یہ بات ہے سال 2013ء کی، میرے والد صاحب نے کسی نہ کسی طرح ڈانٹ کر یا مار کر میری تعلیم انٹرمیڈیٹ تک مکمل کروا دی۔ اب آگے کیا کرنا ہے، مجھے کچھ معلوم نہیں تھا۔ لیکن میرے رب کو سب معلوم تھا۔ تو میں نے مختلف لوگوں سے مشورہ لیا تو مجھے میرے بڑے بھائی نے کہا کہ پنجاب یونیورسٹی جاؤ جس شعبہ میں تم فارم جمع کروانے کے اہل ہو اس میں داخلہ فارم جمع کروا دو تو میں نکل پڑا پنجاب یونیورسٹی اور معلومات حاصل کی اور ڈیپارٹمنٹ میں فارم جمع کروانا شروع کردیے۔ ایک ہفتے کے اندر اندر میں نے کافی ڈیپارٹمنٹ میں فارم جمع کروادیے۔ روز یونیورسٹی آنے جانے اور وہاں چلنے پھرنے سے میری ٹانگ بری طرح سے سوجھ چکی تھی۔ اور میرے گھٹنے میں شدید قسم کا درد تھا۔ مگر ابھی دو ایسے ڈیپارٹمنٹ باقی تھے جن میں فارم جمع کروانے تھے اور میں ان میں تعلیم حاصل کرنا چاہتا تھا لیکن اب تو مجھ سے چلا نہیں جا رہا تھا۔ یونیورسٹی کیسے جاؤں گا اور فارم کیسے جمع کرواؤں گا۔
پھر ہمت کی اپنی لاٹھی لی اور والدہ کو کہا مجھے تیار کر دیں کیوں کہ مجھ سے تو کھڑا بھی نہیں ہوا جا رہا تھا۔ خیر والدہ نے مجھے تیار کیا اور میں ان کا سہارا لیتا ہوا اپنی بائیک تک پہنجا۔ اب میں کیا کروں کک تو میں مار نہیں سکتا بائیک سٹارٹ کیسے کروں۔ والد صاحب جو آفس جانے کے لیے تیار ہورہے تھے ۔ میرے پاس آئے اور کہا رہنے دو کل چلے جانا اپنی طبعیت دیکھو میں نے جواب میں کہا کہ آج آخری تاریخ ہے فارم جمع کروانے کی۔ تو انہوں نے کہا میں لے چلتا ہوں جس پر میں نے نفی میں سر ہلا دیا۔ پھر میرے والد صاحب نے بائیک کی کک ماری بائیک سٹارٹ کرکے مجھے دی۔ میں بائیک پر بیٹھا۔ ایک ہاتھ میں سٹک اور دوسرے ہاتھ میں بائیک کا ہینڈل پکڑا اور یونیورسٹی نکل پڑا یونیورسٹی پہنچ کر جس ڈیپارٹمنٹ میں فارم جمع کروانا تھا وہاں گیا۔ فارم جمع کروانے بہت لوگ آئے ہوئے تھے اور سامنے ایک لڑکا سب کا فارم جمع کر رہا تھا۔ میں بھی اس لڑکے کے ڈیسک کے پاس کھڑا ہوگیا۔ اس امید سے کہ یہ شحص میری حالت دیکھے گا اور فوراً میرا فارم جمع کرے گا۔ لیکن ایک کے بعد دوسرا آتا گیا اور اپنافارم جمع کرواتا گیا اور میں اسی انتظار میں کھڑا رہا کہ اب وہ میری طرف دیکھے گا۔ اور میرے سے فارم لے گا لیکن شاید وہ مجھے دیکھ چکا تھا اور میری حالت بھی اور اب مجھ سے نظر نہیں ملا رہا تھا۔
اب میری حالت بگڑ چکی تھی اور درد کی شدت بھی بڑھ چکی تھی ۔ میں رونے والا تھا درد سے نہیں اس فارم جمع کرنے والے کے رویہ کی وجہ سے آخر آدھے گھنٹے سے انتظار کر کے میری بس ہو چکی تھی۔ آنسو آنکھوں میں آنے ہی والے تھے کہ میں نے غصے میں اس شخص سے بولا: تمہیں میری حالت نظر آرہی ہے میرے سے کھڑا نہیں ہوا جارہا پھر بھی تم دوسروں کا فارم جمع کرے جا رہے ہو۔ اس کے جواب نے جیسے میری ساری امید ختم کردی۔ اس نے کہا کہ اگر داخلہ ہوگیا تو چار سال یہاں اس حالت میں تم نے دھکے کھانے ہیں۔ چپ ہو کر کھڑے رہو۔ میں حیرانگی سے اس کی شکل دیکھ رہا تھا۔ اور وہاں سے جانے لگا تھا کہ اس کے ساتھ والے لڑکے نے مجھے آواز دے کر بلا لیا۔ اور میرے سے فارم لے کر جمع کر لیا اور میں وہاں سے اپنی خراب ٹانگ لے کر جتنی تیز ہو سکا وہاں سے نکل گیا۔
باہر جا کر اپنی بائیک سیدھی کی اور اب آنکھیں کسی مدد کی تلاش کررہی تھی کیونکہ کک تو میں مار نہیں سکتا۔ ایک لڑکے کو کہا بھائی کک لگا دو۔ بائیک سٹارٹ ہوئی۔ اب میں مزید تعلیم حاصل نہیں کرنا چاہتا بھاڑ میں گیا سب کچھ میں گھر جاؤں گا اپنے بیڈ پر لیٹوں گا تو شاید ٹانگ کا درد کم ہو جائے اور یہ دل و دماغ پر جو چوٹ لگی ہے شاید اس کا درد بھی کم ہوجائے۔ یہ سوچتا ہوا میں یونیورسٹی سے باہر جانے کی طرف نکل پڑا ۔ جس دوسرے ڈیپارٹمنٹ میں فارم جمع کرونا چاہتا تھا وہ یونیورسٹی کے مین گیٹ کے بالکل ساتھ تھا۔ اچانک بائیک روکی اور اس ڈیپارٹمنٹ میں لنگڑاتا ہوا چل پڑا کہ یار آیا ہوں تو تھوڑی سی ہمت اور کرلوں اور یہاں بھی فارم جمع کروا دوں پھر گھر ہی جانا ہے۔ ڈیپارٹمنٹ جا کر دیکھا کہ یہاں ایک کھڑکی میں فارم جمع ہو رہے ہیں اور کھڑکی پر رش لگا ہوا ہے بہت لمبی لائن ہے۔ جو تھوڑی سی ہمت آئی تھی وہ ختم ہوگئی میں کھڑکی سے تھوڑی دور جار کھڑا ہوگیا۔ ایک ہاتھ میں اسٹک جس کے سہارے میں کھڑا تھا اور دوسرے ہاتھ میں فارم، میں سوچ رہا تھا کیا کروں اور اندر اندر دھاڑیں مار مار کر رو رہا تھا۔ جو میری شکل سے عیاں تھا۔ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ دو لڑکے میرے پاس آئے سادہ لوح سے، دیسی سے، انہوں نے پوچھا کیا ہوا اور میں نےصرف انکو اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا فارم دیکھا دیا۔ اور بولا کچھ نہیں کیونکہ مجھے ڈر تھا کہ میں بولنے کے لیے منہ کھولوں گا تو صرف اور صرف میرے درد کا رونا نکلے گا اور کچھ نہیں۔ ان دو لڑکوں کو سمجھ آگئی کہ کیا بات ہے ان میں سے ایک نے میرا فارم لیا اور چلا گیا۔ دوسرے نے مجھے سہارا دیا اور ساتھ ہی ایک جگہ پر بیٹھا دیا اور خود میرے ساتھ بیٹھ گیا۔ لیکن ہم نے کوئی بات نہیں کی شاید اس بھائی کو میرے درد کی جھلک میرے چہرے پر نظر آئی تھی۔ اس لیے و ہ بس میرے پاس بیٹھا رہا۔
کچھ دیر بعد دوسرا لڑکا میرا فارم جمع کرواکر آ گیا اور رسید مجھے دی۔ اب کیا کرنا ہے ان میں سے ایک نے پوچھا گھر جاؤں گا۔ میں نے جواب دیا کیسے؟ پھر سوال آیا بائیک پہ۔ میں نے جواب دیا اور ساتھ اپنی بائیک کی جانب اشارہ کیا انہوں نے مجھے سہارا دے کر کھڑا کیا اور بائیک کی طرف لے گئے۔ بائیک سیدھی کی کک لگا کر سٹارٹ کرکے مجھے دی کیونکہ کک تو میں مار نہیں سکتا۔ میں جیسے تیسے گھر آگیا۔ ان دونوں کا شکریہ بھی ادا نہیں کیا۔ گھر آکر میں نے اللہ سے بس ایک سوال کیا کیوں؟ میں کیوں؟ میرے ساتھ کیوں؟
ان سوالوں کا جواب مجھے کچھ دن بعد مل گیا۔ جن دونوں ڈیپارٹمنٹ میں میں نے فارم جمع کروایا ان دونوں سے کچھ دن بعد مجھے کال آئی کہ آپ کا داخلہ ہوگیا ہے۔ ماسٹرز کے لیے آپ آجائیں۔ جس ڈیپارٹمنٹ میں میں پہلے فارم جمع کروانے گیا تھا ان کو میں کہنا چاہتا تھا کہ آپ کے ڈیپارٹمنٹ میں میں اس حالت میں چار سال دھکے نہیں کھا سکتا۔ لیکن میں نے ایسا نہیں بولا اور دوسرے ڈیپارٹمنٹ جس میں ان دو لڑکوں نے فارم جمع کروایا تھا اس میں ایڈمیشن لے لیا۔ اس کیوں کا جواب جو میں نے اللہ سے پوچھا تھا وہ مل گیا۔ کہ ماسٹرز کے لیے دو ڈیپارٹمنٹ نے کہا آپ ہمارے پاس پڑھیں۔ اس کے بعد ایم فل کرنے کے لیے مجھے دو یونیورسٹیز نے کہا کہ آپ ہمارے پاس ایم فل کریں۔ میں دو سرکاری نوکریاں چھوڑ کر اب تیسری سرکاری نوکری کر رہا ہوں۔ لوگوں کو ایک نہیں ملتی۔ آج میں نے ڈبل ماسٹرز کر رکھا ہے اور ایم فل بھی۔ آج میں فخر کے ساتھ کہ سکتا ہوں کہ میں ایک استاد ہوں۔ یہ انعامات دینے کے لیے اللہ نے اس مشکل سے گزارا اور میں اللہ کا شکر گزار ہوں اس سب کے لیے۔ ان دو لڑکوں کا میں نے تب شکریہ ادا نہیں کیا لیکن میں ان کا مشکور ہوں انہوں نے صرف میرا فارم جمع نہیں کروایا بلکہ اللہ کا جو پلان تھا مجھے یہاں لانے کا وہ اس کا حصہ بنے۔