نظم و ضبط سے مراد امور کا انتظام و انصرام اور حسن ترتیب ہے ۔نظم و ضبط زندگی میں کامیابی کی علامت ہے۔ نظم و ضبط کے بغیر انسان کی زندگی میں کامیابی ناممکن ہے۔ ہماری اس کائنات کا پورا نظام نظم و ضبط پر پابند ہے۔ اگر ہم اچھے طالب علم کی بات کرتے ہیں تو ہم اس میں بھی یہ چیز دیکھیں گے کہ اس کی زندگی میں نظم و ضبط کہاں کہاں پر استعمال کیا جا رہا ہےکہا اگر میں دیکھتا ہوں ایک شاعر ادیب یا مصنف ہونے ہونے کی حیثیت سے کہ ہمارا تمام جو کائنات کا نظام ہے وہ نظم و ضبط کے اصولوں پر چل رہا ہے ۔جیسے سورج اپنے وقت پر نکلتا ہے اور غروب ہوتا ہے،ہمارا سونا جاگنا ہمارا کام کرنا ہر کام اپنے نظم و ضبط پر چل رہا ہے اگر میں اس کائنات کو غور سے دیکھتا ہوں تو مجھے معلوم ہوتا ہے کہ سورج اپنے مقررہ وقت پر طلوع ہوتا ہے مقررہ وقت پر غروب ہوتا ہے چاند اور ستارے اپنے مقررہ وقت پر دکھائی دیتے ہیں موسم ایک خاص ترتیب کے ساتھ بدل کر آتے ہیں پہلے اسی طرح قدرت کی دیگر چھوٹی مخلوقات جیسے میں مثال دیتا ہوں کہ چونٹی کی وہ بھی ایک قطار میں اپنی خوراک حاصل کرنے کے لیے گروہ بنا کر چلتی ہیں شہد کی مکھیاں دیمک اور پرندے سب ایک قانون کے پابند تو اگر میں دیکھو تو یہ بھی تمام مثالیں نظم و ضبط کی ہے۔نظم و ضبط کے حوالے سے میں قرآن پاک میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے اس کا ترجمہ بیان کرتی ہو سورج اپنے مقررہ راستے پر چلتا ہے یہ اس کا غالب وہ جاننے والے کا مقرر کیا ہوا اندازہ ہے۔ اور چاند کی بھی ہم نے منزلیں مقرر کر دی۔ یہاں تک کہ وہ گھنٹوں گھنٹے گھنٹے کھجور کی پرانی شاخ کی طرح ہو جاتا ہے۔ نہ تو سورج ہی سے ہوسکتا ہے کہ چاند کو جا پکڑے اور نہ ہی رات دن سے پہلے آ سکتی ہے۔ سب اپنے اپنے مدار میں تیر رہے ہیں۔
اگر ہم اپنے آس پاس کی چیزوں کو دیکھیں تو تمام چیزیں نظم و ضبط کے قانون کے تحت چلیں ہیں۔ اگر ہم ٹریفک کے قوانین کو دیکھیں ان میں بھی نظم و ضبط پایا جاتا ہے۔ اسے ہماری زندگیوں میں بہت سی آسانیاں پیدا ہوتی ہیں۔ اور ہمارے معاشرے میں امن وامان قائم رہتا ہے۔ نظم و ضبط ہماری زندگی میں ایک بنیادی عناصر ہے۔ اگر ہم آسمان پر ایک قطار میں پرندوں کو اڑتے ہوئے دیکھے تو وہ ہمارے دل کو بہت لبھاتیں ہے ۔ ان کو دیکھ کر اکثر میں یہ سوچتا ہوں کہ اگر ہماری زندگی میں بھی اسی طرح کا نظم و ضبط قائم ہو جائے تو ہماری زندگی کی تمام مشکلات آسان ہوجائے۔ ہ اگر ہم نظم و ضبط کو اپنی زندگی کا اولین مقصد بنا لیں تو ہماری تمام مشکلات آسان ہو جائے اور ہر کام وقت پر ہو جائے آئے۔ لیکن ہمارا ملک اور معاشرہ اسی وجہ سے ترقی یافتہ ممالک میں شمار نہیں ہو پا رہا کیونکہ اس کے افراد میں نظم و ضبط کی پابندی نہیں کی جاتی، ہم اسی کوشش میں لگے رہتے ہیں کہ ہم دوسروں سے آگے نکل سکے کسی نہ کسی طرح ۔
میں اکثر اوقات دیکھتی ہوں کے اگر ہم کسی قطار میں کھڑے ہوتے ہیں تو ہماری بھرپور کوشش یہی ہوتی ہے کہ ہم ایک دوسرے کو دھکے دے کر یا ایک دوسرے سے غلط بیانی کر کر اس سے آگے نکل سکیں۔ اس لیے ہمیں قطار اس لیے نہیں بنانی چاہیے کہ کوئی ہمیں دیکھ رہا ہے یا یہ کسی جگہ کا اصول ہے، بلکہ اس لیے بنانی چاہیے کہ اس سے ہمیں ہی فائدہ ہوگا اور وقت پر کام ہو جائے گا۔ ہمارا دین اسلام بھی ہمیں اسی بات کی تلقین کرتا ہے۔ قانون کا احترام ہم سب پر لازم ہے۔ اگر ہم چھوٹی عمر سے ہی اس پر عمل کرنا شروع کر دیں گے تو ہماری عادت بن جائے گی۔ اور پھر اسی طرح ہم زندگی کے ہر کام میں نظم و ضبط کے قائل ہو جائیں گے۔ کیونکہ اس میں ہماری بہتری اور فائدہ ہے ایک ترقی یافتہ ملک کا اندازہ اس کے نظم و ضبط اور اس کے لوگوں کو دیکھ کر ہی لگایا جاسکتا ہے۔ اس لیے مصنف ہونے کے ناطے اور ایک ادیب ہونے کے ناطے میرا یہ فرض ہے کہ میں اپنے ملک کے لیے اگر کچھ کرسکتا ہو تو وہ یہ ہے کہ میں اپنی تحریروں کے ذریعے اپنی آنے والی نوجوان نسل کو یہ سبق دبے سکو کہ ہمیں نظم و ضبط کا خیال رکھنا چاہیے اسی طرح ہم ترقی یافتہ ملک بن سکتے ہیں ۔ اور اپنے ملک کی تاریخ کو بدل سکتے ہیں۔ اور اپنے وطن سے بے شمار پیار اور محبت کا ثبوت دے سکتے ہیں۔