• Post author:
  • Post category:Life

نوع انسانی کے لیے قدرت نے بے شمار حسین تحفے پیدا کر رکھے ہیں۔ ان ہی میں سے ایک ایسا تحفہ چاندنی رات کی صورت میں موجود ہے اور یہ قدرت کا ایک ایسا انمول حسین تحفہ ہے جس کی خوبصورتی پر ہر ایک فریفتہ ہوتا ہے۔ چاندنی رات ہمارے لیے قدرت کا ایک حسین تحفہ ہے-جب اماوس کی راتیں تاریک دلوں کو بوجھل کرنے لگ جاتی ہیں تو ایسے میں مصور کائنات کی طرف سے چاندنی راتوں کا تحفہ ہمارے سروں پر سایہ فگن ہو جاتا ہے-کوئی شخص بھی ایسا نہیں ہے جو چاندنی رات کو پسند نہ کرتا ہو-وہ دل ہی مردہ ہے٬ جس کو چاندی رات کی ٹھنڈک اچھی نہ لگتی ہو-چاند ایک پرکشش لفظ ہے اور اسے پیار ومحبت کے خوبصورت محاورات میں بڑے دلچسپ انداز میں استعمال کیا جاتا ہے۔

جیسے ہر ماں کو اپنا بچہ چاند جیسا حسین لگتا ہے یا کوئی دوست دیر بعد ملے تو کہا جاتا ہے کہا “آہا یہ چاند کہاں سے نکل آیا” یا پھر “آپ تو عید کا چاند ہو گئے”-عید اور چاند مسلم تہذیب کا اہم حصہ ہے-چاند تو چاند اس کی دودھیا سفید روشنی بھی انسانی طبیعت کو بہت بھاتی ہے-سورج کی تیز بھڑکیلی روشنی کی نسبت چاند کی نرم پھوہار جیسی چاندنی دن بھر کی تھکن دور کردیتی ہے-ہمارا ملک سارا سال گرم سورج کی لپیٹ میں رہتا ہے-ایسے میں چاند کا ہونا ایک بڑی نعمت ہے-چاندنی رات کا منظر دلوں میں لطیف کیفیت پیدا کرتا ہے اور افسردگی کو دور کرکے طبیعت کو ہشاش بشاش کردیتا ہے-

چاندی رات میں باغ کی سیر بہت بھلی لگتی ہے-پھولوں پر اچانک نکھار آجاتا ہے سبزہ کی خوبصورتی میں اضافہ ہوجاتا ہے-یوں لگتا ہے جیسے زمین پر سیاہی مائل سبز ہ کی چادر بچھ گئی ہو-چنبیلی کے پھولوں میں سے جب چاندنی چھن کر آتی ہے تو یہ منظر اور بھی دلربا ہو جاتا ہے-ایسے پھولوں کو دیکھ کر دن بھر کی تکلیفیں دور ہوجاتی ہیں اور محسوسات میں نغمگی سے جھلکنے لگتی ہے-چاندنی رات میں شاعروں پر شعروں کا نزول ہونے لگ جاتا ہے -حسن کی رعنائیاں تو پتھروں کو بھی زبان دے جاتی ہیں، شاعر تو پھر بھی شاعر ہوتے ہیں-عاشق کے لئے محبوب کا چہرہ اور چاندنی لمس کا درجہ رکھتی ہے-ایسے میں وہ محبوب کی یاد میں مدغم ہو کر غزل پر غزل لکھنے لگ جاتے ہیں – غرض ہر شخص چاندنی رات سے لطف اندوز ہوتا ہے-

جانی رات میں اگر سمندر کی سیر کو نکلیں تو ایسا دلنشیں منظر ہوتا ہے کہ روح تک سرشار ہوتی ہے-سمندر کی موجوں میں طغیانی آجاتی ہے- سمندر کی سفید لہریں شور مچاتی ہیں، عجب سماں باندھتی ہیں-ایسے میں ہر چہرہ شاداب دکھائی دینے لگتا ہے-سمندرکی سیر کے لیے آئے بچوں کی خوشی تو ناقابل بیان ہوتی ہے-اونٹوں کی سیر کی جاتی ہے-ریت کے گھروندے بنائے جاتے ہیں-ہنستے مسکراتے دوسرے کے پیچھے بھاگتے معصوم فرشتے قدرت کے ایک حسین منظر کو اور بھی حسین بنا دیتے ہیں-

دیہات میں چاندی رات کا اور ہی مزہ ہوتا ہے-شام کے بعد دیہاتی میدانوں میں جمع ہونے لگ جاتے ہیں-کوئی گیت گا کر سناتا ہے تو کوٸی ٹپے گاتی ہیں-کسی گبرو جوان کی بانسری میٹھی فضا میں جادو سا بکھیر دیتی ہے-ایسے میں سب دل تھام کر بانسری کی میٹھی لے میں کھو جاتے ہیں اور چاند٬ چاندنی اور بانسری یکجا ہو جاتے ہیں-یوں چاندنی رات سارے ماحول پر چھا جاتی ہے-

چوھدویں کا چاند پورے آسمان پر چھا جاتا ہے اور چاند کی ٹھنڈی ٹھنڈی روشنی ساری کائنات کو اپنی نرم آغوش میں لے لیتی ہے تو ایسے میں منظر اتنا دلنشین ہوجاتا ہے گویا کسی صانع کے ماہر ہاتھوں نے پوری کائنات کو نورانی کرنوں سے آراستہ کردیا ہو-چودھویں کے چاند کے بارے میں بہت ساری روایتیں مشہور ہیں-اس میں سمندر میں مدوجزر کی کیفیت آجاتی ہیں-لہروں میں جوار بھاٹا آجاتا ہے-لہروں میں اس قدر طغیانی آجاتی ہے کہ سمندری جہاز اگر ان کی لپیٹ میں آ جائیں تو تباہ ہو جائیں-

سنا ہے چودھویں رات کو دیوانوں کی دیوانگی میں اضافہ ہوجاتا ہے-اور جھیل سیف الملوک کے بارے میں تو مشہور ہے کہ اس رات میں وہاں کوئی نہیں جاتا جو جاتا ہے زندہ واپس نہیں آتا-وجہ یہ ہے کہ اس رات چاند جب آسمان کے وسط میں آجاتا ہے اور چاروں طرف سے پہاڑوں کے درمیان گھری اس پیالا نما جھیل پر اپنی طلسماتی کرنوں کو پھیلاتا ہے تو ہر ذی شعور کا وہی حال ہوتا ہے،جو حسن یوسف دیکھ کر زنان مصر کا ہوا تھا-انسان جھیل کی سطح کو چاندنی کا فرش جان کر اس پر پاؤں رکھتا ہے اور اس میں ڈوب جاتا ہے-حسن کی رعنائیاں جب یوں بے نقاب ہوتی ہیں تو انسان کو یونہی بے خود کر دیتی ہیں-

جہاں چاندنی راتوں میں رومان پسند دل سرسبزوشاداب ہوتے ہیں وہاں چوروں ڈاکوؤں کے لیے مستقل خطرہ ہوتی ہے-اس دل کو لبھاتی روشنی میں چور ڈاکو پریشان ہوتے ہیں-وہ اپنی تخریب کاریوں کے لیے اندھیری راتوں کو نکلتے ہیں-چاندنی راتوں میں قافلے سفر کرتے ہیں اور اپنی راہوں کو بھی متعین کرتے ہیں-
اس دنیا میں کوئی بھی چیز مستقل فائدہ نہیں دیتی چاندنی راتیں محض چند لمحوں کی سوغات ہماری جھولی میں ڈال کر اندھیری راتوں میں چھپ جاتی ہیں-ایسے میں اداسیاں اور تاریکیاں غالب آجاتی ہیں اور دلوں کی محفلیں سنسان ہو جاتی ہیں-گالوں کے رنگوں کو بھی سیاہی اپنی لپیٹ میں لے لیتی ہے-اسی لئے تو کہتے ہیں کہ چار دن کی چاندنی پھر اندھیری رات ہے-

 

مریم لیاقت بی ایس ایس اردو ( پنجاب یونیورسٹی)