دسمبر دو ہزار انیس میں چینی حکومت نے دنیا کو خبردار کیا کہ ایک وائرس انکے عوام میں پھیل رہا ہے اگلے ماہ یہ وائرس دوسرے ممالک تک پھیل گیا۔ روز تعداد دوگنا ہونے لگی۔ یہ وائرس ایکیوٹ ریسپائریٹری سنڈروم کرونا وائرس 2 ہے جس کی وجہ سے کووڈ 19 نامی بیماری ہوتی ہے۔ سب اس کو کرونا وائرس کہتے ہیں۔ انفیکشن کے دوران جسم میں کیا ہوتا ہے اور ہمیں کرنا کیا چاہیئے؟

Coronavirus - What you should know (Urdu)

کرونا وائرس کیسے پھیلتا ہے؟

ایک وائرس صرف جنیٹک مٹیریل اور اسکے گرد پروٹین کے خول پر مشتمل ہوتا ہے اور اس بات پر بحث کی جا سکتی ہے کہ یہ زندہ بھی ہے یا نہیں۔ کسی زندہ سیل میں داخل ہو کر یہ اپنے جیسے اور وائرس بناتا ہے۔ کرونا وائرس کمرے کی چیزوں سے پھیل سکتا ہے۔ لیکن ابھی یہ ٹھیک طرح معلوم نہیں کہ ان پر یہ کتنی دیر زندہ رہ سکتا ہے۔ پھیلاؤ کا اصل ذریعہ تھوک کے قطرے ہیں جو کھانسی کے وقت منہ سے خارج ہوتے ہیں یا جب آپ کسی بیمار شخص کو ہاتھ لگانے کے بعد اپنے چہرے، آنکھیں یا ناک پر ہاتھ لگاتے ہیں۔ وائرس اپنا سفر یہاں سے شروع کرتا ہے اور پھر جسم کے دوسرے حصوں تک پہنچتا ہے۔

وائرس جسم میں کیا کرتا ہے؟

اسکی اصل منزل آنتیں، تلی، اور پھیپھڑے ہیں جہاں اس کا سب سے زیادہ اثر ہوتا ہے۔ صرف چند وائرس انتہائی ڈرامائی صورتحال پیدا کر سکتے ہیں۔ پھیپھڑوں کی دیوار اربوں ایپی تھیلئل سیلز پر مشتمل ہوتی ہے۔ یہ ہمارے جسم کے بارڈر سیل ہیں جو ہمارے اعضاء اور کھلے حصوں پر دیوار بناتے ہیں۔ کرونا وائرس سیل کی ممبرین پر موجود ایک مخصوص پروٹین کے ذریعے سیل میں اپنا جنیٹک مٹیریل داخل کرتا ہے۔ سیل بے دھیانی میں اس جنیٹک مٹیریل پر لکھی ہدایات پر عمل کرنا شروع کر دیتا ہے جو بہت سادہ ہوتی ہیں “وائرس کی نقل تیار کی جائے”۔ سیل میں وائرس کی کاپیاں بھرتی جاتی ہیں یہاں تک کہ ایک خاص وقت آن پہنچتا ہے اور سیل کو آخری حکم مل جاتا ہے: “خود کشی کر لو”۔

سیل تباہ ہو جاتا ہے، اور وائرس کی تمام کاپیاں باہر پھیل جاتی ہیں اور دوسرے سیلز پر حملہ کرتی ہیں۔ انفیکٹڈ سیلز کی تعداد بے تحاشہ بڑھتی جاتی ہے۔ تقریبا دس دن میں کروڑوں سیل انفیکٹ ہو جکے ہوتے ہیں اور اربوں وائرس پھیپھڑوں میں گھومتے پھرتے ہیں۔ وائرس نے ابھی کوئی زیادہ نقصان نہیں پہنچایا، لیکن اب یہ ایک بڑا مسئلہ کھڑا کرنے والا ہے۔ آپ کا اپنا مدافعتی نظام آپ کے خلاف ہو جاتا ہے۔ مدافعتی نظام گرچہ آپ کی حفاظت کا ذمہ دار ہے لیکن یہ آپ کے جسم کے لئے کافی خطرناک ہو سکتا ہے اور اس کو کنٹرول میں رکھنا ہوتا ہے۔ جب مدافعتی نظام کے سیلز پھیپھڑوں وائرس سے لڑنے کو داخل ہوتے ہیں تو کرونا وائرس ان میں سے کچھ کو انفیکٹ کرتا ہے۔

سیلز کی نہ آنکھیں ہوتی ہیں نہ کان یہ آپس میں سگنل بھیجنے کے لئے مخصوص پروٹینز “سائٹو کائنز” استعمال کرتے ہیں۔ بیماریوں کو کنٹرول کرنے میں ان پروٹینز کا اہم کردار ہوتا ہے۔ کرونا کی وجہ سے امیون سیلز ہیجان کی کیفیت میں آ جاتے ہیں اور بے قابو ہو جاتے ہیں۔ ایک طرح سے مدافعی نظام حالت جنگ میں آ جاتا ہے اور ضرورت سے زیادہ سپاہیوں کو انفیکشن کی جگہ بھیجنے لگتا ہے جس سے وسائل ضائع ہوتے ہیں اور نقصان ہوتا ہے۔

بالخصوص دو طرح کے مدافعتی سیلز شدید نقصان کرتے ہیں۔ پہلے نیوٹرو فائلز ، جن کا کام ہی چیزوں، باشمول اپنے ہی سیلز، کو مارنا ہے۔ یہ ہزاروں کی تعداد میں دھاوا بولتے ہیں اور اینزائمز پیدا کرتے ہیں جو دوست دشمن دونوں کو مار دیتے ہیں۔ دوسری طرح کے سیلز جو اسی طرح قتل عام کرتے ہیں، کلر ٹی سیلز کہلاتے ہیں۔ یہ عام طور پر انفیکٹڈ سیلز کو خود کشی پر آمادہ کرتے ہیں۔ لیکن یہاں چونکہ یہ کنفیوز ہو چکے ہوتے ہیں اسلئے صحت مند سیلز کو بھی مار دیتے ہیں۔ زیادہ سے زیادہ مدافعتی سیلز آتے ہیں اور زیادہ سے زیادہ نقصان کرتے ہیں جس سے پھیپھڑوں کے صحتمند حصے بھی ختم ہو جاتے ہیں۔ یہ صورتحال اتنی خراب ہو سکتی ہے کہ اس کی وجہ سے پھیپھڑوں کو مستقل نقصان ہو جاتا ہے جس سے ساری زندگی کی معذوری ہو سکتی ہے۔

زیادہ تر کیسز میں مدافعتی نظام واپس کنٹرول سنبھال لیتا ہے۔ یہ متاثرہ سیلز کو مار دیتا ہے، پھرتے ہوئے وائرسز کو ختم کرتا ہے اور میدان جنگ کو صاف کرتا ہے۔ صحت کی بحالی کا کام شروع ہو جاتا ہے۔چنانچہ اکثر متاثرہ لوگ معمولی بیماری کے بعد بالکل ٹھیک ہو جاتے ہیں۔ لیکن بہت سے لوگ شدید یا انتہائی حد تک بیمار ہو سکتے ہیں۔ بہت سے لوگوں کا پتہ نہیں لگتا اسلئے اصل شرح جاننا مشکل ہے، لیکن یہ کہنا غلط نہیں کہ فلو کی نسبت بہت زیادہ لوگ شدید متاثر ہوتے ہیں۔

لاکھوں کروڑوں ایپی تھیلئل سیلز مر جاتے ہیں اور ان کے ساتھ ہی پھیپھڑوں کی اندرونی دیوار ختم ہو جاتی ہے۔ اسکا مطلب ہے کہ ایلویولائی، ہوا کے چھوٹے چھوٹے غبارے جو آکسیجن جذب کرتے ہیں، ان پر ایسے بیکٹیریا حملہ آور ہو سکتے ہیں، جو پہلے کوئی خطرہ نہیں تھے۔ مریض کو نمونیا ہو جاتا ہے۔ سانس کا عمل مشکل یا ناممکن ہو سکتا ہے، اور مریض کو زندہ رہنے کے لئے وینٹی لیٹر کی ضرورت پڑ سکتی ہے۔

مدافعتی نظام ہفتوں سے فل کپیسٹی پر لڑ رہا تھا اور وائرس کے خلاف ہتھیار بنا رہا تھا۔ اگر بیکٹیریا بھی اس لرائی میں شامل ہو جائیں تو جسم کی ہار یقینی ہے۔ بیکٹیریا خون میں پھیل جاتے ہیں اور جسم میں تباہی مچا دیتے ہیں۔ اگر ایسا ہو جائے تو نتیجہ موت نکلتا ہے۔ کرونا وائرس کو اکثر فلو سے تشبیہ دی جاتی ہے لیکن یہ کہیں زیادہ خطرناک ہے۔ گرچہ وبا کے دوران اصل شرح کا اندازہ مشکل ہے پھر بھی۔ ہمیں یقین ہے کہ یہ فلو کی نسبت انتہائی متعدی ہے اور تیزی سے پھیل رہا ہے۔

مستقبل میں کیا ہو گا؟

کرونا جیسی وبا کی دو صورتیں ہو سکتی ہیں: تیز یا آہستہ پھیلاؤ۔ آئندہ کون سی صورت ہو سکتی ہے یہ منحصر ہے اس بات پر کہ ہم وبا کے شروعاتی دنوں میں کیا کرتے ہیں۔ تیز پھیلنے والی وبا خوفناک ہو گی اور بہت سی جانیں جائیں گی۔ آہستہ پھیلنے کی صورت میں تاریخ اس کو بھول جائے گی۔ تیز پھیلنے والی وبا میں لوگ تیزی سے انفیکٹ ہوں گے کیونکہ اس کو روکنے والے حفاظتی اقدامات موجود نہیں ہوں گے۔ یہ وبا خوفناک کیوں ہو گی؟

تیز وبا میں بہت سے لوگ ایک ہی وقت میں بیمار ہوں گے۔ اگر تعداد بہت بڑھ جائے تو صحت کی سہولیات ان سب کو سہارا نہیں دے سکیں گی۔ اتنے وسائل، میڈیکل کا سٹاف یا وینٹی لیٹر جیسی مشینیں موجود نہیں کہ ہر کسی کی مدد کی جا سکے۔ بہت سے لوگ بغیر علاج کے مرجائیں گے۔ جیسے جیسے زیادہ میڈیکل سٹاف متاثر ہو گا، نظام صحت کی کپیسٹی مزید کم ہو جائے گی۔ اگر ایسا ہوا تو خوفناک فیصلے کرنے ہوں گے کہ کس کو سہولیات ملتی ہیں اور کس کو نہیں گویا کون مرے گا اور کون جیے گا۔ ایسی صورتحال میں تیزی سے اموات ہوں گی۔

اگر ایسے مستقبل سے بچنا ہے تو دنیا کو، با شمول ہم سب کے، اس وبا کی تیزی کم کرنے کے لئے جو ہو سکے کرنا ہو گا۔ ٹھیک رویہ اپنا کے اس کے پھیلنے کی رفتار کو کم کیا جا سکتا ہے۔ خاص طور پر شروعاتی دنوں میں، تاکہ جو بھی بیمار ہے اس کو علاج ملے اور ہسپتالوں میں رش نہ لگے۔ چونکہ ہمارے پاس کوئی ویکسین دستیاب نہیں، ہمیں اپنے رویے کو تبدیل کر کے وائرس کو روکنا ہو گا۔ اس کا مطلب ہے کہ ہمیں دو کام کرنے ہوں گے۔ خود کو انفیکشن سے بچانا اور دوسروں کو انفیکشن سے بچانا۔

وائرس سے بچاؤ کا طریقہ کیا ہے؟

یہ بہت عام سی بات لگے گی لیکن سب سے ضروری ہے کہ ہم اپنے ہاتھ بار بار دھوئیں۔ صابن بہت طاقتور ہتھیار ہے۔ کرونا وائرس اصل میں چکنائی کے ایک بلبلے میں بند ہوتا ہے۔ صابن اس چکنائی کو حل کر لیتا ہے اور وائرس انفیکشن کے قابل نہیں رہتا۔ اس سے آپ کے ہاتھ بھی ملائم ہوتے ہیں، اور جب آپ اپنے ہاتھ رگڑتے ہیں تو وائرس پانی کے ساتھ بہہ جاتا ہے۔ ہاتھ اتنی اچھی طرح دھوئیں جیسے آپ نے ہاتھوں میں مرچیں پکڑی ہوں اور اب ہاتھ دھو کر آنکھوں میں انگلی ڈالنی ہے۔

گھر رہنا کیوں ضروری ہے؟

دوسرا اہم کام دوسروں سے دور رہنا ہے، جو سننے میں یقینا اچھا نہیں لگے گا۔ لیکن یہ کرنا بہت ضرور ہے۔ اس کا مطلب ہے ہاتھ بھی نہیں ملانا اور گلے بھی نہیں ملنا۔ اگر آپ گھر رہ سکتے ہیں تو گھر رہیں تاکہ ان لوگوں کو موقع ملے جن کا باہر جانا سوسائٹی کے لئے ضروری ہے۔ جیسے ڈاکٹر، دکان دار، پولیس والے۔ آپ کا انحصار ان پر ہے اور ان کا انحصار آپ پر، کہ آپ کی وجہ سے وہ بیمار نہ ہوں۔ بڑے پیمانے پر قرنطینہ کیا جا سکتا ہے جس کا مطلب ہے سفری پابندیاں اور گھر پر رہنے کے جبری حکم نامے۔ یہ صورتحال اچھی نہیں ہوتی اور لوگ پسند بھی نہیں کریں گے لیکن۔ اس سے ہمیں اور ریسرچرز کو وقت ملے گا کہ وہ اس کی دوائی اور ویکسین بنائیں – وقت جو انتہائی اہم ہے۔

تو اگر آپ کو گھر رہنے کو کہا جائے تو اس کی اہمیت جانیں اور حکم کو مانیں۔ یہ کوئی خوشگوار تجربہ نہیں ہو گا لیکن تصویر کا دوسرا رخ دیکھیں تو یہ یقینا بہت سستا سودا ہے۔ یہ وبا ختم کیسے ہو گی، منحصر ہے اس پر کہ وبا شروع کیسے ہوتی ہے۔ اگر تیز شروع ہوئی تو اختتام بھی بہت برا ہو گا۔ اگر شروعات آہستہ ہوئی تو اختتام کچھ بہتر ہو سکتا ہے۔ اور آج یہ سب ہمارے ہاتھ میں ہے، واقعی! حقیقی معنوں میں۔

پاکستان میں کرونا وائرس کی صورتحال کے بارے میں جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔ پوری دنیا کے اعداد و شمار یہاں دستیاب ہیں۔ حفاظتی تدابیر اور معلومات کے لئے معتبر ترین ذریعہ عالمی ادارہ صحت ہے۔

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech