اب تک ہم بات کرچکے ہیں جان سنو اور لوئی پاسچر کے تجربات کی کہ کیسے دونوں نے بیماریوں کے پھیلاؤ اور ممکنہ اسباب کو جاننے کے لئے کوششیں کیں۔ جان نے ثبوتوں کی موجودگی میں بھی دبے دبے الفاظ میں ہیضے کی وبا کا ذمہ دار ایک جرثومہ کو قرار دیا تھا مگر اس بات کو میازمہ تھیوری کے ماننے والوں نے مسترد کردیا تھا، جان کی ناگہانی موت نے اس کو مزید کام کرنے کی مہلت نہ دی لیکن جان کے تجربات نے میازمہ تھیوری کے دنوں کی الٹی گنتی شروع کردی تھی۔ جان کے کام کو نادانستگی میں لوئی پاسچر نے آگے بڑھایا جب شاہِ فرانس نیپولین ثالث نے اسے فرانسیسی سرخ شراب کی برطانیہ میں فروخت میں کمی کی وجہ جاننے اور اس کے معیار کو برقرار رکھنے کی ذمہ داری دی۔
جرثوموں کو شراب کی خرابی کا سبب قرار دے کر لوئی کے خیال میں اس کے پاس ایک شاندار موقع تھا کہ وہ جاندار اجسام (مثلاً انسانوں ،جانوروں یا پودوں وغیرہ ) کی بیماریوں کی وجوہات کو بھی میازمہ نظریہ سے ہٹ کر اپنی تحقیق کی روشنی ایک بالکل ہی الگ اور نئے پیرائے میں بیان کرسکے۔لیکن اس سے پہلے کہ لوئی اپنے اس خیال کو عملی جامہ پہناتا فرانس سے ہزاروں میل دور جرمنی کے ایک دور افتادہ سرحدی قصبے وولشٹائین میں رابرٹ کوخ نامی ایک ڈاکٹر نے وہاں پھیلی ہوئی مویشیوں کی ایک بیماری اینتھراکس کا سبب ایک جرثومہ کو ثابت کرکے دنیا بھر میں اپنا لوہا منوا لیا ۔
آئیں چلتے ہیں وولشٹائین جہاں رابرٹ کو اس کی بیگم صاحبہ سالگرہ کے موقع پر ایک عدد خوردبین کا تحفہ پیش کر رہی ہیں۔ یہ تحفہ رابرٹ کے لئے ایک نئی دنیا کا دریچہ ثابت ہوا، ایک خوردبینی دنیا کا۔ وولشٹائین ایک دیہی قصبہ تھا اور یہاں کے لوگوں کی گزر بسر زیاہ تر کھیتی باڑی کرنے اور مویشی پالنے سے ہوتی تھی۔ ان دِنوں وولشٹائین کے چرواہوں کو ایک سنگین بحران کا سامنا تھا کیونکہ ان کے جانوروں میں اینتھراکس کی بیماری پھیلی ہوئی تھی۔ یہ اس قدر متعدی (انفیکشیس) تھی کہ جانور کے مرنے کے بعد بھی اس کو دفنایا نہیں جاسکتا تھا بلکہ اس کی لاش کو جلانا پڑتا تھا کہ مردہ جسم سے بھی دوسرے صحت مند جانور بیمار ہوجاتے تھے۔ رابرٹ نے جب علاقے والوں کی بپتا سنی تو اس کو حل کرنے کی ٹھان لی۔
اپنے ایک قصاب دوست کی مدد سے، رابرٹ نےاینتھراکس زدہ جانوروں کا گوشت حاصل کیا اور اس کا خوردبین کے ذریعے معائنہ کیا۔ رابرٹ کے اندازے کے مطابق اس کو ڈھیر سارے جرثومے نظر آئے، جن کو اس نے اینتھراکس کا سبب گردانا۔ لیکن اب سوال یہ پیدا ہوا کہ اس بات کو ثابت کیسے کیا جائے کہ یہی جرثومہ ان تمام جانوروں کی ہلاکت کا باعث ہے۔ اس سوال کا حل رابرٹ نے یہ نکالا کہ اس نے متاثرہ گوشت سے تھوڑے سے جراثیم لئے اور ان کو ایک صحت مند ذبح شدہ جانور کی آنکھ میں انجیکٹ کردیا۔ آنکھ کی جیلی جیسی ساخت جراثیم کے لئے غذائیت سے بھر پور ثابت ہوئی اور جراثیم پھلنا پھولنا شروع ہوگئے۔ پھر جب ان کی تعداد کافی بڑھ گئی تو اپنے تجربے کے اگلے مرحلے میں رابرٹ نے ان جرثوموں کو ایک زندہ چوہے کے خون میں شامل کردیا۔
اگر یہ جرثومہ اینتھراکس کی وجہ نہیں ہوا تو کیا ہو گا اور اگر یہ جرثومہ ہی واقعی اینتھراکس کا باعث تھا تو چوہے پر اس کے کیسے اور کیا اثرات مرتب ہوں گے؟
رابرٹ کے پاس ان سوالوں کے جواب میں انتظار کے سوا کوئی چارہ نہیں تھا۔ اسی کشمکش کے دوران ہی چوہے کی موت واقع ہوگئی، جب رابرٹ نے مردہ چوہے کے خون کا معائنہ کیا اسے چوہے کے جسم میں اینتھراکس کے جرثوموں کی کثیر تعداد نظر آئی اور بالآخر اس چوہے کی موت کے ساتھ ہی صدیوں پرانی میازمہ تھیوری کی بھی موت واقع ہوگئی۔ بعد ازاں رابرٹ کوخ اور لوئی پاسچر دونوں نے اپنی اپنی تحقیقات کے ذریعے کئی بیماریوں کے موجب جرثوموں کو دریافت کیا، جن میں ہیضے کا جرثومہ وائبریو کولرہ بھی شامل ہے یوں جان سنو کی زندگی بھر کی محنت کو منطقی انجام تک پہنچایا اور اس کے ہیضے سے متعلق نظریہ کی حمایت میں حتمی ثبوت پیش کیا۔
اپنے تجربات کی روشنی میں رابرٹ کوخ نے کسی بھی نئے جرثومہ کے کسی بیماری کا موجب ہونے کی تحقیق کے لئے چار رہنما مفروضے متعین کردیئے:
1۔ جرثومہ اس مخصوص بیماری سے متاثرہ ہر مریض کے جسم میں کثیر تعداد میں پایا جانا چاہیئے مگر صحت مند جانداروں میں اس کی موجودگی نہیں ہونی چاہیئے۔
2۔ اس جرثومے کو مریض کے جسم سے ایسی حالت میں نکال کر افزائش کی جائے کہ اس کے ساتھ کسی دوسرے جرثومے کے ایک بھی خلیے کی بھی ملاوٹ نہ ہو۔
3۔ اس افزائش کردہ جرثومے کو اگر ایک صحت مند جاندار کے جسم میں داخل کردیا جائے تو وہی بیماری انہی علامات کے ساتھ پیدا کرسکنے کی صلاحیت کا حامل ہونا چاہیئے۔
4۔ وہ جرثومہ اس (مردہ یا بیمار )جاندار جس کے جسم میں داخل کیا گیا تھا، اس کو بیمار کرنے کے بعد دوبارہ پھر سے آئیسولیٹ کیا جائے اور اس کی شناخت پہلے مرحلے پر حاصل شدہ جرثومہ سے مماثل ہونی چاہیئے۔
ان چاروں مفروضوں پر عمل پیرا ہوکر کسی بھی نئی بیماری کی وجہ کو بآسانی دریافت کیا جا سکتا ہے۔ کورونا کی موجودہ وبا بھی ہمارے لئے بالکل نئی بیماری کی حیثیت سے سامنے آئی کیونکہ اس سے پہلے نہ تو اس وائرس کے وجود سے ہم باخبر تھے اور نہ ہی اس کے متعلق کوئی خاص معلومات ہمارے پاس دستیاب تھیں۔
ایسی صورت میں رابرٹ کوخ کے ان مفروضات کو سامنے رکھتے ہوئے لیکن جدید تکنیکوں کی مدد سے سائنسدانوں نے اسپتال آنے والے بیماروں میں ایک وائرس کی موجودگی کا پتہ لگایا۔ پھر دوسرے مرحلے میں انتہائی احتیاط کے ساتھ اس وائرس کو مریضوں کے جسم سے اربوں دیگر غیر متعلقہ جراثیم اور وائرسوں کے جمگھٹے میں سے بالکل الگ کر کے نکالا۔ تیسرے مرحلے پرکسی صحت مند انسان کے جسم میں یہ وائرس داخل کر کے اس کی زندگی داؤ پر لگانے کی بجائے، اس وائرس کو انسانی جسم سے حاصل کردہ خلیات پر ڈال دیا گیا اور ان خلیات کا بغورمشاہدہ کیا گیا۔ ان خلیات میں وائرس کی افزائش اور نتیجتاً مرتب ہونے والے اثرات سے بیماری پیدا کرنے کی صلاحیت کے ثبوت حاصل کئے گئے اور آخری مرحلے میں ان خلیات سے وائرس کو دوبارہ حاصل کرنے کے بعد اس کے جنیاتی مادے (آر این اے) کا تقابلی جائزہ سب سے پہلے ملنے والے کورونا وائرس کے ساتھ کیا گیا، اور ایک جیسے نتائج کی روشنی میں سارس کووی 2 وائرس کو ہی کورونا کی وبا کا باعث قرار دیا گیا۔