حصہ اول، حصہ دوم، حصہ سوم یہاں پڑھیں۔

انیسویں صدی کے اختتام تک جہاں جان سنو، لوئی پاسچر اور رابرٹ کوخ ودیگر کی تحقیقات کی مدد سے  ایک جانب بیماریوں کے پھیلاؤ کے متعلق قدیم یونانی نظریات  (میازمہ وغیرہ ) کے خلاف حتمی ثبوت و شواہد اکھٹے ہو چکے تھے، وہیں اس بات کا شدت سے احساس پیدا ہورہا تھا کہ ان ننھے منے نادیدہ قاتلوں کے خلاف کوئی مؤثر دوا یا علاج دستیاب نہیں ہے۔   یہ وہ وقت تھا کے متعدی بیماریوں سے بچنے کا ایک ہی طریقہ تھا اور وہ صحت و صفائی کے بنیادی اصولوں پر عمل کرنا، ایسے میں خواہ کوئی بادشاہ ہو یا صدر، وزیر ہو یا تاجر یا پھر مزدور، یہ اندیکھے  قاتل کسی کے لئے بھی رعایت کرنے کو تیار نہ تھے۔ ایسے میں ہمارے سفر کی اگلی منزل  جراثیم کش ادویات کے تصور کی ابتداء ہی ہے۔  آنے والی اقساط میں ہم دیکھیں گے کہ جراثیم کش ادویات کا ادراک کیسے شروع ہوا اور کس کس نے اس سلسلے میں اپنا حصہ ڈالا۔

آج کل ہمارے لئے اینٹی بائیوٹک دوا ایک معمول کی بات ہے ، ہم جانتے ہیں کہ یہ جراثیم کش اثرات کی حامل  ہوتی ہیں ۔ لیکن ایک وقت ایسا بھی تھا کہ اینٹی بائیوٹک  تو دور کی بات کوئی اس چیز کا تصور بھی نہیں کرسکتا تھا کہ انسان کبھی بیماریاں پھیلاتے جرثوموں کو قابو بھی کر سکے گا۔  

جادوئی گولی کی تلاش 1

انگلستان اور یورپ میں صنعتی انقلاب کے بعد جس چیز کی ضرورت سب سے زیادہ محسوس کی گئی وہ  کپڑوں کی تیاری میں استعمال ہونے والے رنگ تھے، اس وقت تک رنگ سازی کی صنعت  قدرتی ذرائع (یعنی پودوں، معدنیات اور دھاتوں وغیرہ) پہ منحصر تھی اوران رنگوں کی فراوانی یا کمیابی ان کی قیمت کا تعین کرتی۔ اگر آپ نے کبھی غور کیا ہو تو آپ کو سرخ، سبز،  نیلا، زرد اور سفید وہ رنگ ہیں جو کہ دنیا بھر کے جھنڈوں میں نظر آئینگے، لیکن اگر کوئی رنگ نہیں ملے گا تو وہ ہے جامنی (پرپل)۔ اس کی ایک بڑی واضح وجہ ہے اور وہ یہ کہ انیسویں صدی کے درمیان تک یہ رنگ نہایت مہنگا اور کمیاب رنگ تھا، اسی مہنگی قیمت اور عدم دستیابی کے باعث اس رنگ کو اس وقت تک دنیا میں کسی جھنڈے میں شامل نہیں کیا گیا تھا۔  بعض ممالک میں تو یہ رنگ شاہی خاندان نے جاہ و حشمت اور اسٹیٹس سمبل کے طور پر صرف اپنے لئے مخصوص کر رکھا  تھا ۔ لیکن یہ سب تبدیل ہونے کو تھا۔

جادوئی گولی کی تلاش 2

1857ء میں جہاں ہم ہندوستانی انگریزوں کے خلاف جنگِ آزادی لڑ رہے تھے وہیں  برطانیہ میں ایک اٹھارہ سالہ ولیم ہنری پرکن نامی نوجوان اپنے والد اور بھائی کے ساتھ مل کر ایک کمپنی قائم کرتا ہے ۔ پرکن نے ایک برس قبل ہی ماؤو نامی دنیا کے پہلے مصنوعی رنگ کی تیاری کا کیمیائی عمل اپنے نام سے پیٹنٹ کروایا ہے  (پیٹنٹ کسی بھی ایجاد، دریافت یا اختراء کے مالکانہ حقوق اپنے نام رجسٹر کروانے  کے عمل کو کہتے ہیں)۔ اس رنگ  کی کہانی کافی دلچسپ ہے، کہا جاتا ہے کہ پرکن اپنی لیباٹری میں تارکول سے ملیریا کی دوا کیونین کی تیاری پر کام کررہا تھا مگر اتفاقیہ طور پر اس  نے دنیا کا پہلا مصنوعی رنگ تخلیق کرڈالا، وہ بھی سب سے مہنگا اور نایاب رنگ (اسے کہتے ہیں قسمت کی دیوی کا مہربان ہونا)۔ اپنی اس تخلیق کو پرکن نے برطانوی ٹیکسٹائیل انڈسٹری کو بیچنا شروع کیا اور چھپڑ پھاڑ کے پیسے کمانے لگا۔

جادوئی گولی کی تلاش 3

پرکن کی دن دگنی رات چوگنی ترقی کو دیکھتے ہوئے دنیا بھر کے کیمیا دان تارکول سے اپنے مطلب کے مرکبات کشید کرنے اور ان کو مختلف صنعتوں میں استعمال کرنے کے پیچھے گویا ہاتھ دھو کے ہی پڑ گئے۔  اسی دوران تارکول سے حاصل شدہ اجزاء ترکیبی  سے کئی اہم ادویات  حاصل کی گئیں، جن میں سے کچھ تو میں اور آپ آج بھی استعمال کرتے ہیں  (لیکن یہ کہانی کسی اور وقت سہی)۔  آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ کہاں جراثیم کش ادویات اور کہاں جھنڈے، کپڑے اور رنگ سازی کی صنعتیں، تو جناب  حوصلے سے کام لیجیئے بات وہیں جا رہی ہے۔ تو جناب پرکن صاحب کے ساتھ پیش آنے والے اس ایک اتفاق نے صنعتی کیمسٹری کا ایک نیا باب کھول دیا جس کے نتیجے میں آنے والے برسوں کے دوران سینکڑوں نہیں  ہزاروں سائنس دانوں اور محقیقین  نے دن رات کی محنت کے بعد کئی مصنوعی رنگ ایجاد کئے۔

جادوئی گولی کی تلاش 4

انہی سائنس دانوں میں ایک نام پاول ارلیش کا بھی تھا۔   ویسے تو پاول ارلیش نےاپنی زندگی میں بہت سارے مختلف امور پہ  تحقیق کی ،لیکن ہم آج صرف پاول ارلیش کی میتھائی لین بلیو (Methylene Blue)  پر کی گئی تحقیق کا ذکر کریں گے۔

جادوئی گولی کی تلاش 5

جیسا کہ پہلے ذکر ہوچکا ہے کہ اس وقت تک سینکڑوں نہیں بلکہ ہزاروں جرثومے دریافت ہوچکے تھے جن میں سے کچھ بیماریاں پھیلاتے تھے تو کچھ ہمارے لئے مفید بھی تھے۔ ان کی دریافت میں خوردبین نے سب سے اہم کردار ادا کیا ۔ آپ نے انٹرنیٹ پر یا خبروں وغیرہ میں  جراثیم کی رنگ برنگی تصاویر تو دیکھی ہوئی ہوں گی ، لیکن حقیقت میں یہ جرثومے اتنے رنگین مزاج  نہیں ہوتے مطلب ان کا اپنا رنگ مٹیالا، گندمی یا براؤن ہوتا ہے۔ یہ گندمی یا مٹیالا رنگ اکثر خلیات کا ہوتا ہے خواہ وہ جراثیمی ہوں یا دیگر جانداروں کے، ایسی صورتحال میں اگر کسی مریض سے کوئی سیمپل لیکر اس کا خوردبین کی مدد سے مشاہدہ کیا جائے تو سرسری طور پر ان دونوں کی الگ الگ شناخت مشکل ہوتی ہے۔  ایک دن جب پاول ارلیش مختلف جرثوموں کو خوردبیں کی مدد سے دیکھ رہا تھا تو اس نے یہ مشاہدہ کیا کے میتھائی لین بلیو انسانی خلیوں کے مقابلے میں جراثیمی خلیات کو زیادہ شدت اور موثر طریقے سے رنگتا ہے۔

جادوئی گولی کی تلاش 6

تاریخی اعتبار سے اس مشاہدے کے دو نہایت ہی دور رس اور دیرپا اثرات پیدا ہوئے۔ پہلا تو  آپ سمجھ ہی گئے ہوں گے کہ اب بیماریاں پھیلاتے جرثوموں کی شناخت کا کام پہلے کی نسبت بہت آسان ہو گیا ۔ اپنے اس مشاہدے کی مدد سے اور مزید تحقیق کے بعد پاول نے جراثیم رنگنے کےجو طریقے اور اصول وضح کے وہ آج بھی کسی نہ کسی شکل میں مستعمل ہیں۔ آج بھی جب کبھی کسی بھی جراثیمی بیماری کا ٹیسٹ کرنا ہو تو سب سے اہم ٹیسٹ کلچر ٹیسٹ ہی ہوتا ہے۔  اس کلچر ٹیسٹ میں مریض سے خون پیشاب یا کوئی بھی نمونہ لیا جاتا ہے  اور اس میں مبینہ طور پر موجود جراثیم  کو افزائش کے لئے مناسب خوراک اور ماحول فراہم کیا جاتا ہے۔ معینہ مدت کے بعد ان افزائش شدہ جرثوموں کی شناخت کا عمل شروع ہوتا ہے جن میں سب سے پہلے میتھائی لین بلیو کی قبیل کے مختلف رنگ استعمال کرتے ہوئے انھیں رنگنے سے ابتداء کی جاتی ہے۔جادوئی گولی کی تلاش 7

یہ تو تھا پہلا اثر جس نے ڈائیگ ناسٹکس  کے میدان میں انقلاب برپا کردیا تھا، مگر اس بھی زیادہ اہم اور دور رس  اثرایک اور  بھی تھا۔ ایک دن اسی مشاہدے کے بارے میں سوچتے ہوئے پاول کو اس امر کا خیال گزرا کہ میتھائی لین بلیو  ایک کیمیکل ہے اور یہ انسانی اور جراثیمی خلیوں کے درمیان تفریق کررہا ہے  تو لازمی اس فرق کی کوئی کیمیائی بنیاد ہوگی، یعنی انسانی اورجراثیمی  خلیے کیمیکل اعتبار سے ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔ اسی خیال کو سوچتے سوچتے ایک دن پاول کو اس امر کا ادراک ہوا  کے کیا کوئی ایسی دوا بھی ہوگی جو میتھائی لین بلیو کی طرح ان دونوں میں فرق کرسکے، صرف بیماری پھیلاتے جرثوموں کو نشانہ بنائے لیکن انسانی خلیوں اور جسم کے لئے محفوظ ہو۔

جادوئی گولی کی تلاش 8

اس استدلال کی بنیاد پر پاول ارلیش نے اپنی تحقیق کا رخ  ایسی جراثیم کش دوا کی دریافت کی طرف موڑ دیا جسے اس نے جادوئی گولی کا نام دیا (اسے آپ اردو محاورہ میں ‘تیر بہ ہدف‘ کہہ سکتے ہیں)۔  پاول نے اپنے ایک جاپانی اسسٹنٹ  ہاتا ساہاچئیرو  کو اس جادوئی گولی کی تلاش کا کام سونپا۔ ہاتا خرگوشوں میں آتشک نامی بیماری کا جرثومہ داخل کر نے کا کامیاب تجربہ کرچکا تھا۔

جادوئی گولی کی تلاش 9

لہٰذا  اب پاول نے ان خرگوشوں میں آتشک کے علاج کو ڈھونڈنے کا  فیصلہ کیا۔  ہاتا نے آرسینک زہر  کے سینکڑوں مرکبات لئے اور ان کو آتشک والے خرگوشوں میں ٹیسٹ کرنا شروع ہوگیا۔  اب یہاں سوال پیدا ہوتا ہے کہ آرسینک تو انسانوں کے لئے اس وقت بھی زہریلا اور مضر رساں تھا اور آج بھی ہے تو پھر انھوں  نے آرسینک  کے مرکبات  کا انتخاب کیوں کیا؟ پاول اور ہاتا کا استدلال یہ تھا کے اگر آرسینک کے مختلف مرکبات بنائے جائیں تو ان  کے زہریلے پن میں فرق آجائے گا۔ اس کی آسان مثال یہ سمجھ لیں کے گندم کے آٹے میں نشاستہ  یا سٹارچ ہوتا ہے جو کہ گلوکوز کے مالیکئولز سے  ملکر بنتا ہے، لیکن گلوکوز اور نشاستہ (یا روٹی ) کے ذائقے میں بے انتہا  فرق ہوتا ہے۔ گلوکوز میں مٹھاس ہوتی ہے جبکہ عام آٹے کی روٹی میں آپ کو کوئی مٹھاس محسوس نہیں ہوتی (الا یہ کہ وہ روٹی آپ کے محبوب کے ہاتھوں کی بنی ہوئی ہو) ۔  دونوں نشاستہ اور گلوکوز  کی اصل ایک ہی ہے لیکن ایک معمولی سے فرق کے باعث ذائقہ اور دوسری خصوصیات میں بدلاؤ آگیا۔ اسی سوچ کی بنیاد پہ پاول نے ہاتا کو سینکڑوں آرسینک مرکبات  کو ٹیسٹ کرنے کا کہا۔

جادوئی گولی کی تلاش 10

ہاتا نے باری باری ان مرکبات کو جانچنا شروع کیا ۔ ان مرکبات کے اثرات تین طرح سے دیکھے جا رہے تھے، اول تو یہ دیکھنا ضروری تھا کہ آیا آتشک کا جرثومہ اس مرکب سے مرتا بھی ہے یا نہیں ، دوم صحت مند خرگوش پہ اس مرکب کا کوئی مضر اثر تو نہیں آرہا ہے اور سوم بیمار خرگوش پہ اس کا کیا اثر ہوتا ہے۔  ہاتا کو ایک ایسے مرکب کی تلاش تھی جو صرف جراثیم کو مارے مگر خرگوش اس کے مضر اثرات سے محفوظ رہے۔ تلاش کا یہ سفر کافی مشکل ثابت ہورہا تھا۔ کوئی مرکب نہ خرگوش کو مارتا اور نہ ہی جراثیم کو، تو کوئی دونوں کے لئے یکساں مضر ہوتا یا پھر اس ڈھیٹ ہڈی جرثومے کو تو کچھ نہ ہوتا اور معصوم سا خرگوش زندگی کی بازی ہار جاتا۔  ہاتا نے چھ سو سے اوپر مرکبات کے ٹیسٹ کئے اور ان سب میں ایسے ہی نتائج آئے، یہ چھ سو کے چھ سو مرکبات بے فائدہ ثابت ہوئے تھے۔ اس وقت تک پاول اور ہاتا تقریباً اپنی امید چھوڑ ہی چکے تھے  لیکن پھر بھی انھوں نے کچھ مزید مرکبات ٹیسٹ کرنے اور اپنے تجربات جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ۔  اگلا مرکب نمبر 606 ان کی قسمت کا ستارہ بن کر چمکا۔ اس مرکب کو آج دنیا سال ورسان 606 کے نام سے جانتی ہے ۔ سال ورسان 606 دنیا کی پہلی جراثیم کش دوا تھی  اور اس کی دریافت نے جہاں پاول ارلیش کے استدلال کو صحیح ثابت کیا وہیں جراثیم کش ادویات کی بنیاد بھی رکھ دی۔1908 میں پاول ارلیش کی سائنسی خدمات کے اعتراف میں نوبل انعام سے نوازہ گیا۔

جادوئی گولی کی تلاش 11

 

 

Dr. Muhammad Ibrahim Rashid Sherkoti

Hi, I am a Ph.D. in biotechnology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am interested in biotechnology, infectious diseases and entrepreneurship. You can contact me on my Twitter @MIR_Sherkoti.