قدرت کی عجیب ستم ظریفی تھی کہ آج اس کی اپنی بیٹی  اس مرض میں مبتلا تھی جس کی دوا کی تلاش میں وہ برسوں سے سرگرداں تھا۔

پہلا حصہ یہاں پڑھیں

دوسرا حصہ یہاں پڑھیں

یہ کہانی ہےایک  ایسے شخص کی جو کہ ایک ڈاکٹر ،ایک کیمیا دان ، ایک استاد ،ایک محقق ،اورایک سپاہی تو تھا ہی لیکن سب سے بڑھ کر وہ ایک باپ تھا۔ہمارے آج کے ممدوح ڈاکٹر گیر ہارڈ ڈو مارگ ہیں ۔ گیر ہارڈ نےجرمنی کے ایک دور افتادہ گاؤں لاگو میں آنکھ کھولی ۔ گیر ہارڈ نے کافی ابتدا میں ہی اپنی زندگی کی راہ متعین کرلی تھی اور طب کی تعلیم حاصل کرنے کا فیصلہ کیا۔ لیکن پہلی جنگِ عظیم کے دوران جذبہ حب الوطنی سے سرشار، یونیورسٹی آف کیل میں جاری اپنی طب کی تعلیم چھوڑ کر جرمن افواج میں شمولیت اختیار کی  اور جنگ کر خاتمہ تک فوج میں ہی رہے۔ پہلی جنگ عظیم کا خاتمہ جرمنی کی شکست پہ منتہج ہوا اور گیر ہارڈ واپس یونیورسٹی  آگئے اور 1921 میں اپنی میڈیکل کی ڈگری مکمل کی۔  ڈگری حاصل کرنے کے بعد بجائے یہ کہ وہ کلینک وغیرہ کرتے گیر ہارڈ بطور لیکچرر یونیرسٹی آف کیل میں درس و تدریس سے منسلک ہوگئے۔

ایک مجبور باپ 1

1927 میں گیرہارڈ کو بیئر کمپنی میں ملازمت کی آفر ہوئی کہ وہ ان کے دواؤں  والے شعبے کے لیے ایک نئی دوا سازی کی تجربہ گاہ قائم کریں ۔ گیرہارڈ کو یونیورسٹی کے مقابلے میں بیئر میں تحقیقی سرگرمیوں کے حوالے سے  زیادہ وسائل اور آزادی میسر تھی۔ اس وقت تک بیئر کمپنی کا زیادہ کام کیمیائی رنگ سازی تھا ، لیکن وہ دوسرے کیمیکلز  بھی تیار کرتی تھی جن میں ادویات  بھی شامل تھیں۔  بیئر میں کام کرتے ہوئے ہوئے گیرہارڈ کی ذمہ داری ان تیار شدہ رنگوں  کو دیکھنا تھا کہ آیا ان میں کوئی ایسا کیمیکل بھی  ہو سکتا ہے کیا کہ جو کسی نہ کسی قسم کی جراثیم کش صلاحیت رکھتا ہو اپنے تجربات میں منہمک ایک دن ڈاکٹر گیرہارڈ کو یہ معلوم ہوا کہ کہ ایک ایزو -اے 30  نامی رنگ ہے جو کہ صرف اون کو رنگ کرتا ہے اور باقی تمام کپڑوں پر اس کا رنگ کچھ جمتا نہیں۔

ایک مجبور باپ 2

چونکہ پال ارلیش کے تجربات یہ ثابت کر چکے تھے کہ کچھ کیمیائی مادے انسانی اور جراثیمی خلیات میں فرق کرنے کے قابل ہیں، تویہ سوا ل کا  اٹھنا لازمی تھا کہ کیا یہ رنگ بھی ایسی کوئی تمیز کرنے کے قابل ہے یا نہیں ۔ دوسراخیال یہ بھی تھا کہ اون میں پروٹینز  کی تعداد بہت زیادہ ہوتی ہے اور اسی طرح جرثوموں کے خلیات کی بیرونی جھلی میں بھی پروٹین  زیادہ ہوتے ہیں ، اگر یہ استدلال ٹھیک ہے تو پھر اس رنگ کو جراثیمی بیرونی جھلی کو بھی رنگنا چاہیئے، اور اگر ایزو -اے 30  نے جرثوموں کو رنگ سکا تو کیا اس کا کوئی جراثیم کش اثر بھی ہو سکتا ہے یا نہیں۔ انہیں یہ خیالات میں غلطاں ڈاکٹر گیرہارڈ نے بالآخر اپنے تجربات کی شروعات کر ہی دی۔

ڈاکٹر گیرہارڈ کے کچھ ساتھیوں کا خیال تھا کہ یہ رنگ جراثیم کو تہس نہس کر کے رکھ دے گا ، جبکہ کچھ یہ سوچ رہے تھے کہ اس رنگ کا فراثیم کی افزائش پہ زرا سا بھی اثر نہیں ہوگا اور جرثومے اپنی عادت کے بموجب اپنی افزائش جاری رکھیں گے۔ جراثیم کی ایک نپی تلی تعداد لیکر ان پہ ایزو-اے30 رنگ ڈالا گیا اور انھیں مخصوص درجہ حرارت پہ انکیوبیٹر میں رکھ دیا گیا۔ گیرہارڈ کے دماغ میں یہ دونوں خیالات اس کی بے چینی میں اضافہ کا باعث  ہی تھے، مگر تجربہ کے مکمل ہونے کا انتظار توکرنا ہی تھا۔

ایک مجبور باپ 3

آخر خدا خدا کر کے وقت گزرا اور نتائج سامنے آئے لیکن اس تجربہ کے  نتائج نے تو سب کو حیران ہی کر کے رکھ دیا تھا۔ ایک لمحے کو تو ڈاکٹر گیرہارڈ سر پکڑ کے بیٹھ گئے کیونکہ یہ نا تو یہ رنگ جراثیم کو مکمل طور پہ ختم کر سکا تھا ،اور نہ ہی جراثیم اپنی عادت کے بموجب بھرپور افزائش کر پائے تھے ۔ دراصل ہوا یہ تھا کہ جتنے جرثوموں پہ اس رنگ کا تجربہ کیاگیا تھا ان کی تعداد ویسے کی ویسے ہی رہی نہ ایک کم نہ ایک زیادہ ۔

اب اس گتھی کو سلجھانے کا ایک ہی طریقہ تھا کہ مزید تجربات کیے جائیں اور یہ جاننے کی کوشش کی جائے کہ معاملہ اصل میں ہے کیا۔ خیر تجربے جاری رہے اور اس پہیلی کو سمجھ ہی لیا گیا۔در حقیقت یہ رنگ جراثیم کو مارنے کی بجائے ان کی افزائش کو روک دیتا ہے ، یعنی اگر مثال کہ طور پہ اگر دس جرثوموں پہ یہ رنگ ڈالا جائے تو  تجربہ ختم ہونے کے بعد ان کی تعداد (24 گھنٹے میں)بھی دس ہی رہے گی نہ کہ کروڑوں اور اربوں۔

اس نتیجہ نے تو جراثیم کش دوا کی جس امید پر یہ تجربات کئے جا رہے تھے اس نے تو گویا دم ہی توڑ دیا تھا، لیکن گیرہارڈ اور اس کی ٹیم نیم دلی کے ساتھ اپنے تجربات میں مصروف رہی۔  کچھ تجربات چوہوں پہ بھی کئے گئے  جن میں پہلے جراثیم داخل کئے گئے اور بعد میں یہ دوا۔ ان چوہوں میں بیمار کی کچھ خاص علامات ظاہر نہیں ملیں، شائد یہ دوا کچھ کام کر رہی تھی مگر اب کی بار سوال تھا کہ کیسے؟

جب بھی کوئی انسان کسی جرثومے کے انفیکشن کا  شکار ہوتا ہے تو اس کے جسم میں محض دس بیس یا سو پچاس جراثیم نہیں ہوتے بلکہ ان کی تعداد لاکھوں کروڑوں  میں ہوتی ہے اور اگر خدانخواستہ یہ انفیکشن بگڑ کر پھیل جائے تو یہ تعداد  بڑھتے بڑھتے اربوں کھربوں تک پہنچ سکتی ہے۔ ایسی صورتحال میں میں محض جراثیم کی تعداد کو بڑھنے سے روک سکنے کی حیثیت  گیرہارڈ کی نظر میں محض  بھاگتے چور کی لنگوٹی سے بڑھ کر اور کچھ نہ تھی۔

اب یہاں ڈاکٹر گیرہارڈ  کی کہانی میں آتا ہے ایک بہت ہی زبردست موڑ۔ اتنا زبردست کہ اگر یہ موڈ نہ آیا ہوتا تو شاید آج ہم گیرہارڈ کا ذکر ہی نہ کر رہے ہوتے۔ تو جناب ہوتا یہ ہے کہ گیرہارڈ کی اپنی بیٹی کو جراثیمی انفیکشن ہو جاتا ہے ۔ گیرہارڈ اپنی پوری کوشش کے باوجود بھی اپنی بیٹی کا علاج ٹھیک سے نہیں کر پا رہا تھا ۔اس نے جتنی بھی دستیاب دوائیں تھیں اس نے تمام کی تمام استعمال کر ڈالیں لیکن مرض بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی ۔۔۔۔

ایک مجبور باپ 4

 اور پھر وہ وقت بھی آیا جب ڈاکٹر گیرہارڈ کے پاس اپنی بیٹی کو دینے کے لیے کوئی موثر دوا باقی نہیں بچی تھی ۔گیرہارڈ کے دل و دماغ میں جنگ جاری تھی جہاں بطور سائنس دان گیرہارڈ کے اپنے خدشات تھے تو وہیں ایک باپ اپنی بیٹی کی زندگی بچانے کی خاطر آخری حد تک جانے کو تیار تھا ۔

گیرہارڈ کو محض اپنی دریافت کردہ دوا کی افادیت پہ ہی  شک نہیں تھااس کے ذہن میں دوا کی مقدار اس کے ممکنہ مضر اثرات کے حوالے سے کئی جواب طلب سوالات  تھےجن کے جوابات شائد کوئی بھی نہیں جانتا تھا۔ اب سے پہلے تک اس دوا کے تجربات صرف چوہوں میں ہی کئے گئے تھے اور کسی کو  بھی علم نہیں تھا کہ اگر کسی انسان کا علاج کرنا ہو تو دوا کی کتنی مقدار موثر ہوگی اور خدانخواستہ اگر یہ مقدار انسانی جسم کے لیے نقصان دہ ہوئی توپھر کیا ہوگا اور اس کا توڑ کیسے کیا جائے گا؟

ایک طرف یہ خدشے تو دوسری جانب  بیٹی کی روز بروز بگڑتی صورتحال ۔۔۔۔

ایک مجبور باپ 5

میں اور آپ اس کشمکش کا اندازہ ہی نہیں کر سکتے ہمیں تو فارمیسی پہ دوائیں تیار ملتی ہیں ان دواؤں پر ان کی مقدار بھی درج ہوتی ہے اور ساتھ میں ڈاکٹر بھی ہمیں بتا دیتا ہے کہ کس بیماری میں کون سی دوا کتنی مقدار میں استعمال کرنی ہے۔ یہ تمام معلومات برس ہا برس کی تحقیق اور تجربات کے نتیجے میں حاصل ہوتی ہیں ۔ لیکن گیرہارڈ کے پاس نہ تو برس تھے ، نہ مہینے اور نہ ہی ہفتے ،اس کی بیٹی کی طبیعت  لمحہ بہ لمحہ بگڑتی جا رہی تھی ایسی صورت میں سائنسدان کو بالآخرہتھیار ڈالنے ہی پڑے اور جیت شفقت ِ پدری کی ہوئی۔

گیرہارڈ نے نے نے نہایت احتیاط سے اپنی بیٹی کا علاج ایک بار پھر شروع کیا کیا اور اس بار وہ اپنے تجربات کی روشنی میں دوا کی بے حد نپی تلی مقدار بیٹی کو دینا شروع کی۔

دوا کا خاطر خواہ اثر ہوا ہوا اور گیرہارڈ کی بیٹی کی طبیعت سنبھلنے لگی اور چند ہی روز کے اندر وہ مکمل صحتیاب ہوگئی۔ اس دوا کو پرونٹوسل Prontosil  کا نام دیا گیا ، اور مزید  تحقیقات سے معلوم ہواکہ اس دوا کی کیمیائی ساخت میں ایک خاص مرکب سلفونامائڈSulphonamide پایا جاتا ہے اور اسی بنا پر پرونٹوسل اور اس سے ملتی جلتی دیگر ادویات کوسلفا ڈرگز  Sulpha Drugsکہتے ہیں ۔

ایک مجبور باپ 6

پرونٹوسل کو عالمی شہرت اس  وقت ملی جب ایک مریض بچے کا کامیاب علاج اس دوا کی مدد سے ہوا۔ اس بچے کو اسٹریپٹو کوکائی نامی جرثومہ کا انفیکشن ہوا تھا جس کے علاج کی خاطراسے گیرہارڈ کی دریافت کردہ دوا پرونٹوسل دی گئی اور گیرہارڈ کی بیٹی کی طرح اس بچے کی جان بھی بچ گئی ۔اس بچے کا نام تھا فرینکلن ڈی روزویلٹ جونیئر،  یعنی اس وقت کے امریکی صدر فرینکلن ڈی روزویلٹ کا بیٹا ۔اب کیا تھا کہ گیرہارڈ اور پرونٹوسل دونوں کی شہرت تو پوری دنیا میں جنگل میں آگ کی طرح پھیل گئی اور کئی سائنسدان اور محققین پرونٹوسل  کو بنیاد بنا کر بہت ساری سلفاڈرگز کی تیاری میں مشغول ہو گئے۔  1939 میں ڈاکٹر گیرہارڈ کو پرونٹوسل پہ اپنے کام اور اس کے دور رس اثرات کے اعتراف میں نوبل انعام سے نوازا گیا۔

ایک مجبور باپ 7

(جاری ہے)

 

 

 

 

Dr. Muhammad Ibrahim Rashid Sherkoti

Hi, I am a Ph.D. in biotechnology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am interested in biotechnology, infectious diseases and entrepreneurship. You can contact me on my Twitter @MIR_Sherkoti.