ہماری یونیورسٹی میں صوبے کی سب سے بڑی کورونا ٹیسٹنگ لیب ہے جہاں فیکلٹی میمبز (بشمول راقم الحرف) جزوقتی بنیادوں پہ ٹیسٹنگ کے لئے اپنی خدمات فراہم کرتے ہیں۔ بعض اوقات کچھ ایسے عجیب اتفاقات ہوجاتے ہیں کہ سمجھ نہیں آتی ہے یہ ہوا کیا ہے۔ جناب ہوا کچھ یوں کہ 9 اگست کی شب ہماری ٹیم لیڈ کا مجھے ایک میسج موصول ہوا کہ کیا میں نےاپنا کورونا کا ٹیسٹ کروایا ہے؟ میرا جواب نفی میں تھا، رات گئی بات گئی والا معاملہ ہوگیا۔
اب اگلی صبح ہمارے یہاں یکم محرم الحرام کوحضرت عمر الفاروق کے یومِ شہادت کی مناسبت سے چھٹی تھی، صبح اٹھ کر نہادھو کر ناشتہ کیا تو کچھ کچھ بخار کی علامات محسوس ہوئیں، دل میں رات والے میسج کی بابت تھوڑی تشویش پیدا ہوئی کہ کہیں خدانخواستہ لیب میں تو کورونا کا انفیکشن نہیں پھیل گیا ہے کہ جس کے باعث سب کو ٹیسٹ کروانے کو کہا جا رہا ہے، لیکن چونکہ سونگھنے اور چکھنے کی حسیں ٹھیک کام کر رہی تھیں لہٰذا دل کو تسلی دی اور احتیاطاً ایک عدد سوالیہ میسج ٹیم لیڈ کو بھی کردیا یہ جاننے کے لئے کہ انھوں نے کس غرض سے میرے کورونا ٹیسٹ کا پوچھا تھا۔ کچھ دیر میں ان کا جواب آیا جس میں ایک ڈاکٹر ابراہیم نامی کورونا ٹیسٹ کی رپورٹ منسلک تھی جو کہ پازئیوٹو تھی۔ اب معاملے کی کچھ سمجھ آئی کہ ایک جیسے نام کی وجہ سے یہ سمجھا گیا کہ شائد مجھے کورونا ہو گیا ہے۔ اپنی بیجا تشویش کو بھی تھوڑا قابو میں کیا اور بخار کے لئے پیناڈول کا استعمال شروع کردیا کہ گلے میں تھوڑی تکلیف محسوس ہونے لگی تھی۔ اگلے دن بخار کی شدت میں کچھ اضافہ ہوا تو اینٹی بائیوٹک شروع کردی لیکن آئندہ تین دن نہ تو اینٹی بائیو ٹک کا کوئی اثر ہوا اور نہ ہی پیناڈول کا اور بخار کی شدت مستقلاً 101-102 ڈگری کے درمیان رہی۔ میرے بخار کے دوران ہی چوتھے روز گھر والوں کو بھی بخار ہوگیا ۔ اب کی بار ماتھا زیادہ شدت کے ساتھ ٹھنکنا ہی تھا، فوری طور پہ اپنی لیب رابطہ کیا ٹیسٹ کے لئے سیمپل لئے گئے اور سب گھر والوں کا کورونا ٹیسٹ ہوا، اور چند گھنٹوں میں اطلاع آگئی کہ تمام تر گھر والے کورونا میں مبتلا ہیں۔ اس اطلاع ملنے کے فوراً بعد اپنے ایک اور ساتھی کو ان سیمپلز کی سیکونسنگ کا کہا تاکہ معلوم کیا جاسکے کہ ہمیں ہونے والا کورونا وائرس کونسی قبیل (ویرینٹ) سے تعلق رکھتا ہے۔
کورونا کا پتہ چلنے کے بعد پہلا کا م تو یہ کیا کہ اپنے ایک میڈیکل پریکٹسنگ کولیگ کے ساتھ مشورہ کیا اور انھوں نے جو جو اضافی ٹیسٹس کروانے کو کہا ان کا انتظام کیا گیا جن میں سینے کا ایکس رے سب سے اہم تھا۔ آکسیجن لیول کی پیمائش کا آلہ پلس آکسی میٹر وغیرہ لیا اور فوری طور پہ سب گھر والوں کی آکسیجن دیکھی جانے لگی۔ باقی گھر والوں کے مقابلے میں میری علامات نسبتاً زیادہ سنگین تھیں کہ بخار کا کوئی توڑ نہیں ہو پا رہا تھا، اس وقت تک مجھے بلامبالغہ کوئی 4 پلتے پیناڈول کے کھلائے جا چکے تھے اور اب ساتھ ساتھ سانس میں بھی تھوڑی دشواری محسوس ہونے لگی تھی۔ ایسی صورتحال میں سٹیروئیڈز Steroids کا استعمال شروع کردیا گیا اور ہنگامی بنیادوں پہ آکسیجن کا انتظام بھی ہوگیا۔ ہمارے کولیگ نے کوئی ڈیڑھ درجن کے لگ بھگ ادویات تجویز کیں جو کہ وہ اپنے کورونا کے مریضوں کو دیتے رہے ہیں۔
میں یہاں ایک بھی دوا کا نام محض اس لئے نہیں لکھ رہا ہوں کہ ہر مریض کی علامات اور اس کے علاج کی ضروریات دوسرے مریض سے مختلف ہوسکتی اور ہوتی ہیں، یعنی میرے اور میرے گھر والوں کی ہی مثال لے لیں۔ لہٰذا خود سے تو کوئی دوا کسی صورت نہیں لینی چاہیئے اور وہ بھی کورونا جیسے حالات میں تو بالکل بھی نہیں۔ دوا ؤں کے حوالے سے احتیاط کا ایک پہلو اور بھی ہے میرے کیس میں معالج کے سامنے دو معاملات تھے اول بخار کی شدت کو کنٹرول کرنا جو کہ ہمارے امیون سسٹم کا ایک نتیجہ ہے کہ ہمارا جسم وائرس کو افزائش سے روکنے کے لئے اپنا درجہ حرارت بڑھا لیتا ہے۔ اب مسئلہ یہ ہے کہ جیسے جیسے درجہ حرارت یا بخار بڑھتا ہے ویسے ویسے ہمارے جسم (اس کیس میں میرے پھیپڑوں) کا بھی نقصان ہوتا جاتا ہے۔ جب کہ دوسرا پہلو ہمارے امیون سسٹم کو وائرس کے مقابلے میں مضبوط اور موثر رکھنا بھی ضروری ہے کہ وائرس کو کھل کھیلنے کا موقع بھی نہ ملے اور اس کی جلد از جلد چھٹی کروائی جاسکے۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ اپنے مریض کے علاج کے دوران ایک معالج کو کس تنی ہوئی رسی پہ سے گزرنا پڑتا ہے۔