یہ سوال اکثر سننے میں آتا ہے کہ سائنس دان کسے کہتے ہیں- سائنس دان وہ لوگ ہوتے ہیں جو سائنسی طریقہ کار کو استعمال کر کے سائنس کے کسی موضوع پر تحقیق کرتے ہیں، اپنی تحقیق کے نتائج کو مرتب یعنی document کرتے ہیں اور پھر اس تحقیق کے نتائج پر سائنسی پیپرز لکھ کر سائنسی جرائد میں چھاپتے ہیں- سائنسی جرائد میں پیپر شائع کرنا آسان کام نہیں ہے- بہت سے سائنس دان ان جریدوں میں پیپر چھاپنے کی خواہش رکھتے ہیں جبکہ کسی بھی جریدے کے ایک شمارے میں شائع ہونے والے پیپرز کی تعداد محدود ہوتی ہے- اس وجہ سے ان جریدوں کے سٹینڈرڈ بہت کڑے ہوتے ہیں اور بہت کم پیپرز کو شائع کرنے کے لیے منظور کیا جاتا ہے، زیادہ تر پیپرز مسترد کر دیے جاتے ہیں

اس منظوری کے لیے ہر جریدے کا ایک peer review سسٹم ہوتا ہے- جس فیلڈ کے سائنس دان نے کوئی پیپر شائع کرنے کے لیے بھیجا ہو اسی فیلڈ کے دوسرے ماہرین کو اس پیپر کے معیار کو جانچنے کی دعوت دی جاتی ہے- یہ ماہرین اس پیپر پر کڑی تنقید کرتے ہیں، پیپر لکھنے والے سائنس دانوں سے پیپر سے متعلق ڈیٹا طلب کرتے ہیں، اور ان کے مشاہدات کے طریقہ کار کا تفصیلی جائزہ لیتے ہیں- بعض اوقات مصنفین کو پیپر دوبارہ سے لکھنے کو کہا جاتا ہے اور نظر ثانی شدہ مسودے پر دوبارہ تنقید کی جاتی ہے- جو پیپرز اس انتہائی کڑے امتحان سے کامیابی سے گذرتے ہیں صرف انہیں ہی شائع کرنے کی منظوری دی جاتی ہے-

عام طور پر سائنس دان جب اپنا پہلا پیپر چھاپتے ہیں تو وہ بیس سے پچیس سال تعلیم حاصل کرنے میں صرف کر چکے ہوتے ہیں، کئی سال کسی ریسرچ آرگنائزیشن میں تحقیق کا کام کرتے ہیں، پھر کہیں جا کر اس قابل ہوتے ہیں کہ اپنا پہلا پیپر شائع کر سکیں- لیکن کچھ لوگ اس قدر ذہین ہوتے ہیں کہ نسبتاً کم عمر میں ہی سائنسی پیپر لکھنے کا آغاز کر دیتے ہیں-

جدید سائنس کی تاریخ میں سب سے کم عمر میں کسی معیاری سائنسی جریدے میں ریسرچ پیپر شائع کرنے کا اعزاز ایک امریکی لڑکی ایمیلی روسا کے سر ہے جنہوں نے 1998 میں جرنل آف ایمیریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں اپنا ریسرچ پیپر شائع کیا تھا جب ان کی عمر صرف گیارہ برس کی تھی- اس پیپر میں انہوں نے تھیراپیوٹک ٹچ کی سوڈو سائنس کو تجربات اور ڈیٹا سے غلط اور بے بنیاد ثابت کیا تھا

تھیراپیوٹک ٹچ (Therapeutic Touch)

تھیراپیوٹک ٹچ کے ‘ماہرین’ یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ ہر انسان میں ایک ‘انرجی فیلڈ’ ہوتا ہے جس میں بگاڑ آ جانے سے انسان بیمار ہو جاتا ہے- یہ ماہرین مریضوں کے جسم میں انرجی کے اس بگاڑ کو ڈیٹیکٹ کرتے ہیں اور اسے درست کرتے ہیں- ایسا کرنے کے لیے ماہرین مریضوں کے جسم کے مختلف حصوں کے پاس اپنے ہاتھ رکھتے ہیں اور یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ مریض کے انرجی فیلڈ کو ڈیٹیکٹ کر رہے ہیں- اس طرح وہ مریض کے جسم میں کسی مقام پر انرجی فیلڈ میں بگاڑ کو تلاش کرنے کا دعویٰ کرتے ہیں- یہ ماہرین اپنے ہاتھوں سے ‘درست’ انرجی کو مریض کے جسم کے ان علاقوں کی طرف بھیج سکتے ہیں جہاں انرجی میں بگاڑ ہے- اس طرح جسم میں انرجی کا بیلینس درست ہو جاتا ہے اور مریض مبینہ طور پر تندرست ہو جاتا ہے- تھیراپیوٹک ٹچ 1970 کی دہائی میں امریکہ اور کینیڈا میں خاصہ مقبول طریقہ علاج تھا جو کئی ہسپتالوں میں استعمال ہو رہا تھا

ایمیلی روسا کی ریسرچ

ایمیلی روسا کی والدہ ایک نرس تھیں- ایمیلی نے 1996 میں ایک ویڈیو دیکھی جس میں تھیراپیوٹک ٹچ کے ماہرین ایک ہسپتال میں اپنے فن کا مظاہرہ کر رہے تھے اور بظاہر مریضوں کی تکلیف دور کر رہے تھے- اپنی والدہ کی ساتھی نرسوں سے ایمیلی نے ایسے ماہرین کے فن کی بہت تعریف سنی تھی- ایمیلی اس وقت چوتھی جماعت میں تھیں اور ان کے سکول میں ایک سائنس فیئر (Science fair) ہونے والا تھا جس میں طلبا سائنس کے چھوٹے چھوٹے پراجیکٹس پر کام کرتے ہیں اور اپنے کام کے نتائج پراجیکٹ ڈسپلے بورڈ پر لگا کر مقابلے میں حصہ لیتے ہیں- ایمیلی نے سائنس فیئر کے پراجیکٹ کے لیے تھیراپیوٹک ٹچ کے اثرات کی پیمائش کا ارادہ کیا

اس کام کے لیے ایمیلی نے ایک ‘سنگل بلائنڈ پروٹوکول’ ایجاد کیا جسے بعد میں سائنس دانوں نے بے حد پسند کیا- اس پراجیکٹ کے لیے انہوں نے دو تجربات کا پلان بنایا- 1996 میں انہوں نے تھیراپیوٹک ٹچ کے پندرہ ماہرین کو ان کے آفس یا گھر پر ٹیسٹ کیا- اس ٹیسٹ میں ایمیلی نے ہر ماہر کے سامنے ایک پردہ رکھا تاکہ ماہر پردے کے پار نہ دیکھ سکیں- ٹیسٹ سے پہلے ایمیلی اپنے دونوں ہاتھ اس ماہر کو دکھاتیں اور ان سے پوچھتیں کہ وہ ان کے کس ہاتھ میں زیادہ انرجی ڈیٹیکٹ کر سکتے ہیں- اس کے بعد یہ ماہر اپنے دونوں ہاتھ بڑھا کر اس پردے کے دوسری طرف یوں پھیلاتے تھے کہ وہ اپنے ہاتھ نہ دیکھ پائیں- ایمیلی خود پردے کی دوسری طرف رہتیں اور ماہر کے دائیں ہاتھ یا بائیں ہاتھ کے چند انچ اوپر اپنا وہ ہاتھ رکھتیں جس میں ماہر کو زیادہ انرجی محسوس ہوئی تھی اور ماہر سے پوچھتیں کہ ان کا ہاتھ ماہر کے دائیں ہاتھ کے اوپر ہے یا بائیں ہاتھ کے اوپر- ہر ماہر کے جواب کو ایمیلی اپنی نوٹ بک میں ریکارڈ کر لیتیں- ان تجربات کے نتائج کا اعلان ایمیلی نے اپنے سکول کے سائنس فیئر میں کیا

1997 میں ایمیلی نے اپنے تجربات کا سلسلہ جاری رکھا اور مزید 13 ماہرین کو ٹیسٹ کیا- اس بار مشہور سائنسی رسالے سائنٹفک امیریکن کے ماہرین ان تجربات کی ویڈٰیو ٹیپ بنا رہے تھے تاکہ ایمیلی کے ریکارڈ کیے ہوئے ڈیٹا کی آزادانہ طور پر تصدیق کی جا سکے- ان تمام تجربات کے دوران ایمیلی نے کل 280 بار یہ تجربہ دہرایا- ہر ماہر کو ٹیسٹ کرنے کے بعد ایمیلی نے اس ماہر سے پوچھا کہ ان کے خیال میں وہ کتنے فیصد درست رہے ہوں گے- اکثر ماہرین نے انتہائی وثوق سے جواب دیا کہ ان کے درست ہونے کا امکان بہت زیادہ ہے-

ان تمام تجربات کا ڈیٹا اکٹھا کر کے ایمیلی نے یہ دریافت کیا کہ اوسطاً ماہرین کے صرف 44 فیصد جوابات درست پائے گئے- اگر ماہرین ایک سکہ اچھال کر یا محض اندازے سے جواب دیتے تو بھی اس سے بہتر (یعنی تقریباً 50 فیصد) درست جوابات متوقع تھے- اس سے ایمیلی نے یہ نتیجہ نکالا کہ تھیراپیوٹک ٹچ کے ماہرین کسی بھی قسم کی انرجی ڈیٹیکٹ کرنے کے قابل نہیں ہیں

اس ٹیٹا کی بنا پر ایمیلی نے ڈاکٹر سٹیفن بیریٹ اور اپنی والدہ لنڈا روسا کے ساتھ مل کر ایک پیپر لکھا اور جرنل آف ایمیریکن میڈیکل ایسوسی ایشن کو بھیجا- یہ پیپر اس قدر اچھی کوالٹی کا تھا کہ اسے اشاعت کے لیے منظور کر لیا گیا اور اپریل 1998 کے ایڈٰیشن میں اس پیپر کو شائع کیا گیا-

اس پیپر کی اشاعت سے ایمیلی اور ان کے تجربات کی سادگی، شفافیت، اور معروضیت کی دھوم ساری دنیا میں پھیل گئی- امریکہ کے مشہور اخبار دی نیویارک ٹائمز نے ایک آرٹیکل میں ایمیلی کے تجربات کے پروفیشنل طریقہ کار کی تعریفوں کے پل باندھ دیے اور انہیں تھیراپیوٹک ٹچ کو سوڈو سائنس ثابت کرنے پر شاندار خراج تحسین پیش کیا- 1999 میں ایمیلی روسا کا نام گنیز بک آف ورلڈ ریکارڈ میں دنیا کی سب سے کم عمر سائنس دان کے طور پر شامل کر لیا گیا- ان کی تحقیق پر ایک ٹی وی پروگرام بھی بنایا گیا جس کے کچھ حصوں کا ویڈٰیو اس لنک سے دیکھا جا سکتا ہے

STOSSEL TESTING THERAPEUTIC TOUCH

ایمیلی نے اپنی تعلیم 2009 میں مکمل کی اور یونیورسٹی آف کولوراڈو (ڈینور، امریکہ) سے نفسیات کی ڈگری حاصل کی- آج کل وہ ماہر نفسیات کے طور پر اپنے فرائض سرانجام دے رہی ہیں

ہم اکثر یہ سمجھتے ہیں کہ سائنس اب اتنی ترقی کر چکی ہے کہ جب تک کوئی شخص سائنس کے کسی شعبے میں پی ایچ ڈی نہ کرے اور اس کے بعد برسوں کسی لیبارٹری میں ریسرچ نہ کرے تب تک اس کے لیے کوئی سائنسی پیپر شائع کرنا ممکن نہیں ہے- لیکن ایمیلی روسا نے یہ ثابت کر دکھایا کہ سائنسی تحقیق کے لیے سب سے اہم بات سائنسی طریقہ کار کو سمجھنا اور دیانت داری سے سائنسی طریقہ کار کو استعمال کرنا ہے-

اس کے علاوہ ایمیلی نے ہمیں یہ سبق بھی دیا کہ خواہ کوئی دعویٰ کتنا ہی بھلا کیوں نہ معلوم ہوتا ہو اور ہمیں اس دعوے پر کتنا ہی یقین کیوں نہ ہو، جب تک اس دعوے کو معروضی طور پر پرکھا نہ جائے اسے درست قبول کر لینا دانشمندی نہیں ہے- سوڈو سائنس پر مبنی دعووں کی ایک خصوصیت یہ ہوتی ہے کہ یہ ہمیں جذباتی طور پر بہت بھلے لگتے ہیں اور ہماری خواہش ہوتی ہے کہ یہ دعوے درست ہوں- بھلا کون مریض یہ نہیں چاہے گا کہ کوئی اسے ایک پھونک مارے اور وہ ٹھیک ہو جائے، کون سے والدین یہ نہیں چاہیں گے کہ ان کی درد سے تڑپتی بچی پر کوئی بزرگ اپنا ہاتھ رکھ دے اور بچی یکایک ٹھیک ہو جائے، کون شخص یہ نہیں چاہے گا کہ اسے کوئی پیر ایسا تعویذ دے جس سے اس کا بزنس چمک اٹھے- لیکن محض ایسی خواہش رکھنا ہی کافی نہیں ہے- اس پھونک مارنے والے، بچی کو محض چھو کر اس کا درد ختم کرنے والے، اور کاروبار میں کامیابی کا تعویذ دینے والے کے دعووں کو سائنسی طور پر پرکھ کر ہی ہم یہ جان سکتے ہیں کہ ان کے دعووں میں کتنی حقیقت ہے

ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ایمیلی کے اس تجربے میں زیادہ تر ماہرین انتہائی پراعتماد تھے کہ وہ اس ٹیسٹ میں بہت اچھے نتائج حاصل کریں گے- اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ اکثر ماہرین دیانت داری سے یہ سمجھتے تھے کہ وہ واقعی کسی انرجی فیلڈ کو ڈیٹیکٹ کر سکتے ہیں- گویا یہ ضروری نہیں ہے کہ سوڈوسائنس کا پرچار کرنے والے جان بوجھ کر ہمیں دھوکہ دے رہے ہوں (اگرچہ بہت سے لوگ دھوکہ بازی اور جعل سازی سے بھی لوگوں کو بیوقوف بناتے ہیں)- یہ عین ممکن ہے کہ سوڈو سائنس کے ‘ماہرین’ انتہائی دیانت داری سے یہ سمجھتے ہوں کہ ان میں وہ قابلیت واقعی موجود ہے جس کا وہ دعویٰ کر رہے ہیں- لیکن محض اپنے پر اعتماد ہونا اس بات کا ثبوت نہیں ہوتا کہ ان کا دعویٰ درست بھی ہے-

جس سادگی اور خوبصورتی سے ایمیلی نے تھیراپیوٹک ٹچ کے سوڈو سائنسی دعوے کا پردہ چاک کیا، وہ ہم سب کے لیے ایک مثال ہے- ہمارے ملک میں بہت سے لوگ بیسیوں قسم کے سوڈو سائنسی دعووں کو بلا سوچے سمجھے درست تسلیم کرتے ہیں لیکن کبھی ایسے دعووں کو سائنسی طریقہ کار سے پرکھنے کی کوشش نہیں کرتے- حقائق کو پرکھنے کے لیے کچھ تشکیکی سوچ بے حد ضروری ہے تاکہ ہم بنا شواہد کے کسی دعوے کو تسلیم نہ کریں۔

اصل آرٹیکل کا لنک