زمین پر زندگی کی جتنی بھی انواع دریافت ہوئی ہیں ان سب کی بنیاد کاربن ہے- اس کا مطلب یہ ہے کہ کسی بھی نوع کے خلیوں میں موجود پیچیدہ مالیکیولز (پروٹینز، نیوکلیک ایسڈز، لپڈز یعنی چکنائی کے مالیکیول، شوگرز وغیرہ) کا تجزیہ کریں تو ان تمام مالیکیولز کا بنیادی سٹرکچر کاربن کے ایٹموں پر مشتمل ہوتا ہے جس میں جگہ جگہ ہائیڈروجن، نائیٹروجن، فاسفورس، آکسیجن اور سلفر وغیرہ کے ایٹموں کے ساتھ یا پھر کاربن کے دوسرے ایٹموں کے ساتھ بانڈ بنے ہوتے ہیں- سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ تمام زمینی زندگی کاربن کے ایٹموں پر ہی کیوں انحصار کرتی ہے اور کیا کاربن کے علاوہ کسی اور عنصر کی بنیاد پر بھی زندگی قائم ہو سکتی ہے؟

ماہرین زندگی کے کاربن بیسڈ ہونے کی چار بڑی وجوہات بتاتے ہیں

1۔ نظام شمسی میں کاربن کی مقدار:

نظام شمسی میں کاربن وافر مقدار میں موجود ہے- کاربن کے علاوہ ہائیڈروجن، ہیلیئم، نائیٹروجن اور آکسیجن بھی بہت زیادہ مقدار میں موجود ہیں- اور یہی عناصر زندگی کی کیمسٹری میں بھی پائے جاتے ہیں سوائے ہیلیئم کے- ہیلیئم چونکہ ایک انرٹ عنصر ہے (یعنی ہیلیئم کے ایٹم کسی دوسرے عنصر کے ایٹم سے کوئی تعاملات نہیں کرتے) اس لیے اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں ہے کہ بیالوجی کے تعاملات میں بھی ہیلیئم کا کوئی کردار نہیں ہوتا- چنانچہ اس بات میں بھی کسی کو حیرت نہیں ہونی چاہیے کہ زندگی کے تعاملات کے لیے جو مالیکیولز اہم ہیں وہ زیادہ تر کاربن، ہائیڈروجن، نائٹروجن، اور آکسیجن کے ایٹموں پر ہی مشتمل ہوتے ہیں- یہی عناصر زمین پر زیادہ مقدار میں موجود ہیں-

یہ بات درست ہے کہ زمین پر سیلیکون بھی بہت زیادہ مقدار میں موجود ہے- تو پھر زندگی سیلیکون بیسڈ کیوں نہیں ہے؟ اس کا جواب اگلے نکتے میں دیا گیا ہے

2۔ زیادہ سے زیادہ بانڈز اور پیچیدہ مالیکیول بنانے کی صلاحیت:

کاربن کا ایٹم کسی بھی دوسرے عنصر کے ایٹموں کے مقابلے میں زیادہ بانڈز بنانے کی صلاحیت رکھتا ہے- کاربن کے ایٹم نسبتاً چھوٹے ہوتے ہیں اور اس کے آخری شیل میں چار الیکٹران ہوتے ہیں اس لیے یہ بیک وقت نہ صرف چار دوسرے ایٹموں سے بانڈ بنا سکتا ہے بلکہ خود کاربن کے ایٹموں سے بھی سنگل یا ڈبل بانڈ بنا سکتا ہے- اس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ کاربن کے ایٹم بہت بڑے بڑے مالیکیول بنا سکتے ہیں جن میں دوسرے عناصر کے ایٹموں کے علاوہ کاربن کے دوسرے ایٹموں کے ساتھ بانڈ بھی شامل ہوتے ہیں۔

ایسا نہیں ہے کہ کاربن وہ واحد ایٹم ہے جس سے آخری شیل میں چار الیکٹران ہوتے ہیں- سلیکون، جرمینیم، ٹِن (Tin)، اور سیسہ یعنی lead کے آخری شیل میں بھی چار الیکٹران ہوتے ہیں لیکن کاربن کے ایٹم دوسرے ایٹموں کے ساتھ مل کر انتہائی مضبوط بانڈز بناتے ہیں کیونکہ ایسا کرنے سے کاربن کے ایٹم کے تمام آربٹلز مکمل ہو جاتے ہیں اور یوں کاربن ایٹم کے الیکٹرانز کم ترین انرجی کی سٹیٹ حاصل کر لیتے ہیں جو سب سے زیادہ سٹیبل ہوتی ہے- سلیکون کے ایٹم اگر چار بانڈز بنا کر آخری شیل میں آٹھ الیکٹران پورے کر لیں تو بھی اس شیل کے تمام ممکنہ آربٹلز مکمل نہیں ہوتے یعنی یہ سیلیکان کے الیکٹرانز کی کم ترین انرجی کنفیگریشن نہیں ہوتی اور یہ بانڈز زیادہ سٹیبل نہیں ہوتے جس وجہ سے سیلیکان پر مشتمل بڑے مالیکیول سٹیبل نہیں ہوتے- کاربن کے ایٹم دوسرے ایٹموں سے مل کر جس قدر زیادہ سے زیادہ پیچیدہ مالیکیولز بنا سکتے ہیں ایسا اور کوئی ایٹم نہیں کر سکتا- پیچیدہ مالیکیولز کی تعداد جس قدر زیادہ ہو گی اسی قدر زیادہ امکان اس بات کا ہو گا کہ ان مالیکیولز میں سے کچھ زندگی قائم کرنے میں سازگار ثابت ہوں گے۔

اگر ہم زمینی زندگی کو دیکھیں تو چھوٹے سے چھوٹے ایمیبا سے لے کر بڑے سے بڑے جانوروں کے اجسام ڈی این اے، پروٹینز، چکنائی یعنی لپڈز، اور شوگر کے مالیکیولز سے بنے ہیں- یہ تمام مالیکیولز انتہائی پیچیدہ ہوتے ہیں اور ہر مالیکیول میں سینکڑوں سے لے کر لاکھوں تک ایٹم ہو سکتے ہیں۔ مثال کے طور پر انسانوں میں کروموسومز کے 23 جوڑے ہوتے ہیں اور اوسطاً ہر کروموسوم میں لگ بھگ ساڑھے آٹھ ارب ایٹم ہوتے ہیں- کاربن کے علاوہ کوئی اور مالیکیول ایسا نہیں جو اتنے بڑے مالیکیول بنا سکے اور انہیں مستحکم رکھ سکے۔

3۔ زمین کے درجہ حرارت پر تعاملات کی بہتات:

کاربن کے ایٹم زمین کے اوسط درجہ حرارت پر کیمیائی تعاملات کرنے اور پیچیدہ مالیکیول بنانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ زمین کی سطح پر مائع حالت میں پانی وافر مقدار میں موجود ہے جو عموماً صفر سے تیس ڈگری درجہ حرارت پر ہوتا ہے- کاربن کے مالیکیول خاص طور پر درجہ حرارت کی اس رینج میں بہت لمبے مالیکیولز (یعنی molecular chains ) آسانی سے بنا لیتے ہیں- اس کے برعکس سیلیکون کے ایٹم اگر بہت بڑے اور پیچیدہ مالیکیول بنا بھی لیں (جس کا امکان کم ہے) تو ان کے بانڈز کی انرجی اس قدر کم ہوتی ہے کہ زمین کے اوسط درجہ حرارت پر یہ بانڈز آسانی سے ٹوٹ جاتے ہیں- اس لیے سیلیکون بیسڈ زندگی کے ظہور پذیر ہونے کا امکان بہت کم ہے۔

4۔ – پانی کی موجودگی میں پیچیدہ مالیکیولز بنانے کی صلاحیت:

پیچیدہ مالیکیولز بنانے کے لیے یہ ضروری ہے کہ سادہ مالیکیول دوسرے سادہ مالیکیولز تک آسانی سے پہنچ سکیں اور ان سے تعاملات کر سکیں- ایسا اسی وقت ممکن ہے جب یہ مالیکیول کسی مائع میں تیر رہے ہوں یعنی فلوٹ کر رہے ہوں- جو سیارے صرف گیسوں پر مشتمل ہیں ان میں زندگی کا امکان اسی لیے کم سمجھا جاتا ہے کہ گیسوں کے مالیکیول تیزی سے حرکت کرتے ہیں اس لیے کرہ ہوائی میں موجود سادہ نامیاتی مالیکیولز کے لیے دوسرے نامیاتی مالیکیولز تک پہنچنے اور ان سے تعاملات کرنے کا امکان کم ہوتا ہے- زمین کی سطح پر مائع حالت میں پانی وافر مقدار میں موجود ہے جو عموماً صفر سے تیس ڈگری درجہ حرارت پر ہوتا ہے- اس درجہ حرارت پر پانی کے مالیکولز میں حرکت نسبتاً کم ہوتی ہے اس لیے پانی میں موجود نامیاتی مالیکیول دیر تک ایک دوسرے کے نواح میں رہ سکتے ہیں جس سے ان کے درمیان تعاملات کا امکان زیادہ ہو جاتا ہے- کاربن کے مالیکیول خاص طور درجہ حرارت کی اس رینج میں بہت لمبے مالیکیولز (یعنی molecular chains ) آسانی سے بنا لیتے ہیں-

ہم جانتے ہیں کہ حیاتیاتی تعاملات میں ions بنیادی کردار ادا کرتے ہیں- ان آئنز کے آزادی سے گھومنے پھرنے کے لیے یہ ضروری ہے کہ جس مائع میں یہ آئنز موجود ہیں اس مائع کے مالیکیولز ڈائ پولر ہوں یعنی مالیکیول کے ایک سرے پر مثبت چارج اور دوسرے سرے پر منفی چارج ہو- پانی ایسا مالیکیول ہے جو اس شرط کو پورا کرتا ہے اور کائنات میں ہر جگہ (اور نظام شمسی میں جگہ جگہ) کثرت سے موجود ہے- پانی ہائیڈروجن اور آکسیجن سے مل کر بنا ہے اور یہ دونوں عناصر کائنات میں جگہ جگہ بہت بڑی مقدار میں پائے جاتے ہیں اس لیے پانی بھی کائنات میں جگہ جگہ پایا جاتا ہے۔

ان سب وجوہات کو مجموعی طور پر دیکھیں تو اس حقیقت پر کوئی حیرت نہیں ہوتی کہ زمین پر زندگی کی بنیاد کاربن کا ایٹم ہے- ماہرین تو یہ بھی سمجھتے ہیں کہ کائنات میں اگر کہیں اور زندگی موجود ہے تو وہ بھی کاربن بیسڈ ہی ہو گی۔

اوریجنل انفارمیشن کا لنک: