ہزاروں سالوں سے “ایوریئو” قبیلے کے لوگ جنوبی امریکہ کے جنگلوں میں رہ رہے ہیں۔ وہ آج بھی ویسے ہی خانہ بدوشوں جیسی زندگی گزار رہے ہیں جیسے زمین کے سب سے پہلے انسان گزارتے تھے۔ لیکن جون 1998 میں پہلی دفعہ ان کا بیسویں صدی سے سامنا ہوا۔ یہ دو مختلف دنیاؤں کا اتفاقی آمنا سامنا تھا، جس میں دونوں طرف انسان تھے لیکن دونوں تاریخ کے الگ الگ کناروں پر کھڑے تھے۔

ہزاروں سال بعد ایوریئو قبیلے کے لوگوں کا باقی دنیا کے لوگوں سے رابطہ ہوا
ہزاروں سال بعد ایوریئو قبیلے کے لوگوں کا باقی دنیا کے لوگوں سے رابطہ ہوا

اس سیریز میں، مَیں آپ کو ان مہموں کی کہانی سناؤں گا جو ان دونوں تہذیبوں کو الگ الگ کرتی ہیں۔ ہزاروں سالوں میں ہونے والی حیران کن تبدیلیاں، انسانوں کی ستر ہزار سال کی تاریخ، وہ کہانیاں جو ہم پہلے سے جانتے ہیں، اور وہ بھی جو ہم نے کبھی نہیں سنیں۔ ہم میں سے کوئی بھی انسانوں کی مکمل کہانی شاید کبھی نہ جان سکے لیکن پھر بھی یہ چھوٹی چھوٹی کہانیاں بڑی تصویر کی منظر کشی میں مددگار ہیں، کیونکہ یہ دکھاتی ہیں کہ ہم آج کیا ہیں، ہمارے آباؤاجداد کے طویل سفر اور وہ چھوٹی چھوٹی چیزیں بھی جنہوں نے دنیا کو بدل کر رکھ دیا۔ قدرت کے انتقام، عظمت رفتہ، جیتنے والوں اور ہارنے والوں، سچ کو کھوجنے والوں اور حیران کن دریافتوں، خونیں اور فولادی انقلابوں، جدت کے پاگل پن اور ڈجیٹل دور کے کمالات کی کہانیاں!

ہم نے اپنے ارد گرد کی دنیا کو بہتریں چالاکی سے بدل کر رکھ دیا۔ شاید ہم اتنے ہی چالاک ہیں جتنا ہم خود کو سمجھتے ہیں، لیکن شاید اتنے سمجھ دار نہیں۔ اس کہانی میں مشکلات، فتوحات اور حیرت کدے ہیں – وہ سبھی کچھ جو اچھی کہانی میں ہونا چاہیئے – سوائے شاید اختتام کے۔

افریقہ سے باہر سفر کی ابتدا

ابتدائی انسان اپنی خوراک، پانی اور دیگر بنیادی ضروریات کی خاطر خانہ بدوش زندگی گزارتے تھے
ابتدائی انسان اپنی خوراک، پانی اور دیگر بنیادی ضروریات کی خاطر خانہ بدوش زندگی گزارتے تھے

آج سے تقریبا ستر ہزار سال پہلے افریقہ میں رہنے والے انسان بالکل آج کے انسانوں جیسے تھے – Homo sapiens، یعنی “سمجھ دار انسان”۔ یہ خانہ بدوش تھے اور خاندان کی بنیادی ضرورتیں – خوراک، پانی اور سر چھپانے کی جگہ – انہیں مسلسل حرکت پر مجبور رکھتی تھیں۔ یہ ایک لاکھ سال سے بھی زیادہ عرصہ سے مسلسل تبدیل ہو رہے تھے، ماحول کے ساتھ مطابقت پیدا کرتے، جدوجہد کرتے اور زندہ رہنے کی جدوجہد میں۔ اس تبدیلی میں زمین کی آب و ہوا کا بہت عمل دخل تھا۔ اس دوران زمیں پر متعدد برفانی دور آئے، کئی دفعہ آتش فشاؤں سے نکلنے والے دھوئیں نے پوری زمین کو اندھیرے میں ڈھانپ دیا۔ زمین کبھی گرم اور خشک ہوتی اور کبھی پھر سے سرد اور مرطوب ہو جاتی اور یوں یہ زمین انسانوں کو زندہ رہنے کے لئے مسلسل مشکلات سے دوچار کرتی رہتی۔ جو انسان بچ گئے وہ پہلے سے مضبوط، چالاک اور زیادہ منظم ہوتے گئے۔

اس مخصوص قبیلے میں ایک خاص شخصیت شامل تھی۔ یہ عورت اس چھوٹے سے گروہ کا حصہ تھی جو شاید ہزار سے بھی کم انسانوں پر مشتمل تھا، اور آہستہ آہستہ افریقہ کے شمال مشرقی ساحل کی طرف بڑھ رہا تھا۔ شروع کے لوگوں کے لئے زندگی واقعی ایک سفر ہی تھی۔ یہ ایک نا ختم ہونے والا راستہ تھا جس میں کبھی کبھی شکار، پھل اور بیج جمع کرنے کا وقفہ آ جاتا تھا۔ رکنے اور کسی جگہ کو گھر سمجھ لینے کا مطلب بھوک سے مرنا تھا۔ ہزاروں سال تک افریقہ میں گھومتے پھرتے، بدلتی آب و ہوا کا مقابلہ کرتے اور اپنے سے بڑے اور تیز رفتار جانوروں سے لڑتے ہوئے لوگوں نے زندہ رہنے کے لئے ضروری ہنر، زبان، کپڑے بنانے اور کھانا پکانے کے طریقے اور سب سے ضروری یہ کہ اکٹھا رہنا اور مل کر کام کرنا سیکھ لیا تھا۔ افریقہ نے ہم سب کو خوراک دی، لیکن یہ ایک دشوار گزار اور خطرناک علاقہ تھا۔

ہم سب کا ڈی این اے ایک جگہ سے شروع ہوا

اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ اس سے پہلے ہزاروں سالوں کے دوران کئی دوسرے قبیلوں نے بھی افریقہ سے باہر نکلنے کا خطرناک سفر کیا تھا۔ لیکن انسانوں کا ڈی این اے ٹیسٹ کر کے سائنسدان اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ ان میں سے صرف ایک قبیلہ ہی اتنے عرصہ افریقہ سے باہر رہا کہ اس کی اولاد باقی بچی۔ وہ شاید آج کے بحیرہ احمر میں ایک جزیرے سے دوسرے جزیرے پر ہوتے ہوئے تقریبا پینسٹھ ہزار سال پہلے آج کے عرب تک پہنچے، اور حیران کن طور پر، آج کے تمام انسان اس قبیلے کی ایک عورت کے رشتہ دار ہیں۔ ظاہر ہے ہمیں اس کا نام نہیں معلوم لیکن وہ بھی بچنے والوں میں شامل تھی اور ہم اس کو “ماں” کہہ کر پکار سکتے ہیں۔ افریقہ میں رہنے والے انسانوں کے علاوہ باقی دنیا کے انسانوں میں سائنسدانوں نے ایک جنیٹک میوٹیشن ڈھونڈی ہے جو اس وقت افریقہ سے باہر ہجرت کرنے والے قبیلے کی اس عورت میں تھی۔

یہ سوچنے میں ناممکن لگتا ہے لیکن چاہے آپ سکاٹ لینڈ کے رہنے والے ہیں یا اسلام آباد کے، ٹوکیو یا نیو یارک، سکینڈے نیویا یا پیسیفک آئی لینڈز، وہ ہم سب کی مشترکہ افریقی ماں تھی۔ اور یہ سفر عرب پر ختم نہیں ہوتا کیونکہ اس کا قبیلہ مسلسل حرکت میں تھا۔ قدم در قدم، میل در میل، نسل در نسل، جدید انسان افریقہ سے باہر نکلے اور آہستہ آہستہ پورے کرہ ارض پر پھیل گئے۔

ابتدائی انسانوں کی ہجرت کا نقشہ
ابتدائی انسانوں کی ہجرت کے لئے اپنائے گئے راستے

پہلے ہم ساحل کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے بھارت اور مشرقی ایشیا پہنچے۔ یہ بھی انکشاف ہوا ہے کہ ہم میں سے کچھ لوگ پچاس ہزار سال پہلے آسٹریلیا پہنچ چکے تھے۔ تاہم ایشیا سے امریکہ کے درمیان کا خشکی کا سفر پندرہ ہزار سال پہلے ممکن ہوا۔ لیکن پھر لوگ تیزی سے پورے امریکہ میں جنوب کے علاقوں تک پھیل گئے۔ ان تمام سفروں کی رفتار سردی، گرمی اور ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے کم یا زیادہ ہو جاتی تھی۔ مشرقِ وسطیٰ سے انسانوں کی ایک اور شاخ پینتالیس ہزار سال پہلے شمال مغرب میں یورپ تک پہنچی۔ یورپ پہنچنے تک ہم کافی حد تک قبائلی ہو چکے تھے اور ہمارے گروہ خاندان کی نسبت بہت بڑے ہو چکے تھے جن میں لوگ اکٹھے رہتے اور مل کر کام کاج کرتے تھے۔ اس امر نے انسانوں کو بطور شکاری بہت فائدہ دیا۔ لیکن اس کا ایک اور پہلو یہ تھا کہ ہماری وفاداری اپنے قبیلے کے ساتھ ہوتی تھی۔

ہمارے اندر غیروں کے خلاف نفرت اور اشتعال بھرے رہتے تھے۔ جو کوئی ہم سے مختلف نظر آتا، مختلف زبان بولتا، مختلف کپڑے پہنتا، یا یہاں تک کہ مختلف بو رکھتا، ہم اسکو مخالف سمجھتے تھے۔ بالخصوص ان کو جو واقعی مختلف تھے!

ہمارا پہلا مد مقابل – ایک مختلف انسانی نوع

جب ہم یورپ پہنچے تو ہمیں معلوم ہوا کہ ہم اس دنیا میں اکیلے نہیں۔ انسانوں کی ایک اور قسم یورپ میں بہت لمبے عرصے سے رہ رہی تھی۔ ان کو نیئنڈر تھل کہتے ہیں۔ یہ مضبوط ڈیل ڈول والے انسان بہت سے ایسے برفانی دور گزار چکے تھے جب حالات انتہائی سخت تھے۔ لیکن اب انکا سامنا زیادہ بڑے خطرے سے تھا – ہم سے۔ سائنسدان اس حوالے سے بحث کرتے رہتے ہیں لیکن ہم نیئنڈر تھلز کے ساتھ شاید پانچ سے دس ہزار سال تک رہے۔ اور اس دوران نیئنڈر تھلز کی تعداد میں تیزی سے کمی آئی۔ کسی کو پکا نہیں معلوم کہ ان کے ساتھ کیا ہوا۔ وہ بہت مضبوط جسم والے تھے اور کم سے کم ڈھائی لاکھ سال سے دنیا میں موجود تھے۔ یہ ہم سے بھی زیادہ لمبا عرصہ ہے۔ ہو سکتا ہے کہ ہم نے انکو ان کی شکار گاہوں سے بے دخل کر دیا ہو۔ ایسا بھی ہو سکتا ہے، مجھے بتاتے افسوس ہو رہا ہے، کہ شاید ہم انکو کھاتے رہے ہوں۔

انسانوں کے مقابلے میں نیئنڈر تھل، جو ہم سے زیادہ طاقتور تھے، معدوم ہو گئے
جدید انسانوں کے مقابلے میں نیئنڈر تھل، جو ہم سے زیادہ طاقتور تھے، معدوم ہو گئے

 

تیس ہزار سال پہلے نیئنڈر تھل زمین سے معدوم ہو گئے اور جدید انسان – جو زیادہ چالاک، منظم اور جنگجو تھے – زمین پر حکمرانی کرنے لگے۔ البتہ اس دفعہ ہمارا مقابلہ نیئنڈر تھلز کی نسبت زیادہ تباہ کن قوت سے تھا۔


مزید پڑھیے – پہلی قسط  –  دوسری قسطتیسری قسطچوتھی قسطپانچویں قسط

تحریر و تخلیق: بی بی سی چیف ایڈیٹر انڈریو مارز
ترجمہ: محمد بلال
انگریزی میں ویڈیو دیکھنے کے لئے

لنک پر کلک کریں

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech