تاریخ کی کتابوں سے شاید آپ کو یہ بات مل جائے کہ بر صغیر کے لوگ بنیادی طور پر شاہ پرست ہیں۔ یہ ہر اس چیز کی پرستش کرنے کو تیار ہو جاتے تھے جس میں انہیں طاقت دکھائی دیتی تھی۔ شاید اسی لئے سورج، چاند، ستارے، سیارے، ہاتھی، ناگ اور اس قسم کے ان گنت خدا لئے اس زمین پر کسی طاقتور انسان کی پرستش کروانا کچھ خاص مشکل نہیں تھا۔ تاریخ سے یہ ٹریس کرنا تو مشکل ہے کہ یہاں کا اصل باشندہ کون ہے اور دراوڑ یا بھیل سے پہلے بھی یہاں کوئی رہتا تھا یا نہیں لیکن اس امر کو جھٹلانا بھی قدرے مشکل ہے کہ ہمارے آبا و اجداد حملہ آوروں کے خواہ کسی بھی قبیلے سے ہوں ، اب ہمارے خون میں بھی کہیں نہ کہیں برصغیر کے مقامی خون کی آمیزش ہے۔

یہ ان کی شاہ پرستی ہی تھی کہ یہ آنے والے پر حملہ آور کے لئے اپنے شہروں اور دلوں کے دروازے کھول دیتے تھے، طاقتوروں کے آگے سر جھکا دیتے تھے اور ہار جانے والے خواہ ان کے اپنے ہی کیوں نہ ہوتے انہیں اپنی تاریخ اور نظر میں گرا دیتے تھے۔ شاید یہی وجہ ہے ہندوستان کے اکثر حملہ آور اپنا آبائی وطن ترک کر کے یہیں سکونت پذیر ہو گئے۔ اور شاید اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے کہ ہر وہ تحقیق جس میں کسی بادشاہ کی ہرزہ سرائی ہو، وہ منطقی اعتبار سے کتنی ہی درست کیوں نہ ہو عوام میں مقبولیت حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے۔

تقسیم کے بعد اپنے اپنے مذاہب کے حساب سے بادشاہ بھی تقسیم کر لئے گئے، لیکن بنیادی سوچ وہیں کی وہیں رہی۔ انٹرٹینمنٹ انڈسٹری نے بہت پہلے اس گر کو پالیا تھا۔ اس لئے بھاری بھرکم کاسٹیومز، مرصع زبان، بڑے بڑے محل دکھا کر خوب پیسہ کمایا گیا۔ اب مغل اعظم کے شیدائیوں کے سامنے جاوید اختر کی کون سنے جو کہتا ہے کہ اکبر شاید پنجابی یا ایسی ہی کوئی لوکل زبان بولتا ہوگا۔ اس بات سے ہماری فطری شاہ پرستی کو بہت ٹھیس پہنچتی ہے کہ بادشاہ بھی ہم ہی جیسی عام گناہگار مخلوق ہوتے تھے۔

تاریخی فلمیں گو اکثر یہ سند لئے ہوئے ہوتی ہیں کہ ان میں سب سچ نہیں ہوتا اور موقع کی مناسبت سے فکشن استعمال کیا گیا ہے، اس کے باوجود ہمارا دماغ ہر اس حقیقت کو قبول کرنے سے انکاری ہوتا ہے جو ہمارے بادشاہ سے متصادم ہو۔

ہم بنیادی طور پر مزاحمت اور مزاحمت کاروں کے خلاف ہیں کیونکہ ان کا انجام فتح کی بجائے موت پر ہوتا ہے ، اسی لئے دلا بھٹی، رائے احمد خان کھرل، ہوشو اور بھگت سنگھ جیسے کرداروں کی زبانی تعریف کرنے کے باوجود ہم ان کی طرف مائل نہیں ہوتے۔ اسی طرح ہم اس اٹل حقیقت کو بھی ماننے پہ تیار نہیں ہوتے کہ کرسی کا کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ طاقت کا کوئی دین نہیں ہوتا، اور ہر سیاست دین سے جدا ہو کر زیادہ تر چنگیزی ہی ہوتی ہے۔