فیس بک اور دیگر سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کا ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ یہاں شیئر کرنے کی آسانی کی وجہ سے بہت سے غلط معلومات بہت تیزی سے پھیل جاتی ہیں۔ جو پوسٹ جتنی خوفناک، پریشان کن، اور جذبات میں ہیجان پیدا کرنے والی ہو اتنی ہی زیادہ شیئر کی جاتی ہے بالخصوص جب اس کے مندرجات ہمارے پہلے سے بنے ہوئے تعصبات کو مزید پختہ کرتے ہوں۔ اسی قسم کی ایک پوسٹ کافی عرصے سے بار بار سامنے آتی ہے جس کو عموما پڑھے لکھے افراد اور عوام کا درد رکھنے والے بھی اسی طرح شیئر کرتے ہیں جس طرح بعض پروپیگینڈا کرنے والے پیجز۔ اس پوسٹ میں قرونِ وسطٰی کے مسلمان سائنسدانوں کے حوالے سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان کو سائنسی ترویج اور تعلیمات کی وجہ سے عوام، حکمرانوں اور مذہبی فرقوں کی طرف سے مزاحمت کا سامنا کرنا پڑا جس کی وجہ سے ان کا انجام اچھا نہیں ہوا۔ جب پوسٹ شیئر کرنے والوں سے پوسٹ میں لکھی باتوں کا کوئی حوالہ مانگا جائے تو وہ اس کے علاوہ کچھ نہیں کہہ پاتے کہ “ایسا ہمیشہ سے ہوتا آ رہا ہے” جو کہ ان کے لاشعوری تعصب کی عکاسی کرتا ہے۔ آئیے دیکھتے ہیں کہ حقیقت حال کیا ہے۔

پہلے جائزہ لیتے ہیں اس دور کے عمومی حالات اور حکمرانی کے طور طریقوں کا۔ جب ایک دور کی چیزوں کو دوسرے دور میں جج کرنے کی کوشش کریں تو جدید معروضی حالات کے تناظر میں ایسا کرنا غلط ہوتا ہے۔ ہر دور کے فیصلے اس دور کے حساب سے صحیح یا درست پرکھے جاتے ہیں۔ مثلا میں یہ کہوں کہ فلاں شخص نے نہتے لوگوں کا قتل عام کیا تو آج کے حساب سے برا لگے گا لیکن جس دور میں وہ تھے تب یہ معمول کی بات تھی۔ ایسا کہنے سے غلط چیز ٹھیک نہیں ہو جاتی لیکن اس کے باوجود اس دور کے لوگ جن حالات، مسائل اور پریشانیوں کے باعث ایسا کرتے تھے ان کو سمجھنا بھی ضروری ہے۔

اس دور میں بیوروکریسی کے ساتھ کیسا سلوک ہوتا تھا؟

پوسٹ میں ابن رشد، الرازی، جابر بن حیان، یعقوب الکندی اور ابن سینا کے نام درج ہیں۔ پہلے تو یہ دیکھیں کہ کیا یہ اس دور کے عام لوگ تھے؟ اگر نہیں تو ان کی حیثیت معاشرے میں کیا تھی؟ حقیقت حال یہ ہے کہ ان میں سے اکثر لوگ بڑے بڑے بیوروکریٹ تھے اور حکومتوں سے بہت بڑی بڑی گرانٹس لیتے تھے۔ ان کا حلقہ اثر بھی عموما بہت بڑا ہوتا تھا اور اکثر مذہبی کتابیں بھی لکھتے تھے جس کی وجہ سے لوگ مذہبی عقیدت بھی رکھتے تھے۔ ایسے ماحول میں جب حکومت تبدیل ہوتی تھی تو صرف انہی سے ایسا سلوک نہیں ہوتا تھا بلکہ تمام بیوروکریسی کے ساتھ ہوتا تھا مثلا آپ نے محمد بن قاسم، قتیبہ بن مسلم اورطارق بن زیادہ کا احوال سنا ہوا ہے جن کا قصور صرف یہ تھا کہ وہ پچھلے حکمران کے دور میں خدمات دے رہے تھے اور اگلے حکمران کو اپنے وفادار لوگ چاہیئے تھے جبکہ ان کا قد کاٹھ اتنا بڑا تھا کہ نئے بادشاہ سے زیادہ لوگ ان کو اہمیت دیتے تھے اسلئے ہمہ وقت بغاوت کا خطرہ رہتا تھا۔ یہی صورتحال مثلا آپ ابن رشد کی دیکھیں گے جو اپنے وقت میں چیف جسٹس تھا، فقہ اور فلسفہ پر کتابیں لکھتا تھا اور ولی عہد کا استاد تھا۔ وہی ولی عہد جب حکمران بنا تو چیف جسٹس کی اہمیت اور تجربہ ظاہر ہے زیادہ تھا جبکہ اس کو انتظام چلانے کے لیے وہ لوگ چاہیئے تھے جو اس کا حکم بلا چوں و چرا مانیں۔ اسلئے اس کو معزول کیا اور کتابیں جلا دی گئیں لیکن ایسے وقت میں اس کی کتابیں محفوظ کرنے والا اس کا سب سے بڑا فکری مخالف الغزالی تھا جو ایک دوسرے ملک میں دوسرے بادشاہ کا نور نظر تھا۔

اس کشمکش کی ایک اور مثال ملکہ الزبتھ کے تخت پر بیٹھنے کے فورا بعد ہونے والے حالات کی ہے۔ اس کی زندگی پر بننے والی بائیو پک فلم میں آپ دیکھ سکتے ہیں کہ کیسے اسکے تخت پر بیٹھتے ہی، دیگر باآثر شخصیات مثلاً پرائم منسٹر اس کو کمزور اور نااہل ثابت کر کے اپنا اثر و رسوخ بڑھانا چاہتے تھے یہاں تک کہ اس کو اپنا ذاتی سٹاف رکھنے تک کی آزادی نہ دی گئی۔ یہی صورتحال ہمیں آج بھی نظر آتی ہے، مثلا ایک شخصیت کے بہترین ایڈمنسٹریٹر ہونے کے ڈنکے بجتے ہیں، لیکن جیسے ہی وہ کسی بڑی سیٹ پر بیٹھتا ہے تو اگلے ہی دن میڈیا “کچھ سمجھ نہیں آ رہا” اور “مائیک سنبھالا نہیں گیا” جیسی خبریں لگا کر اس کی اہمیت کم کرنے کی کوشش شروع کر دیتا ہے۔ ایک شخص کو معیشت کے تمام مسائل کا حل دکھایا جاتا ہے اور حکومت میں آتے ہی اس کے رونے کی ویڈیوز تمام میڈیا ہاؤسز پر وائرل ہو رہی ہوتی ہے۔

آج بھی حکومات اور بیوروکریسی (فوج، عدلیہ، انتظامیہ) کے درمیان یہ کشمکش مسلسل جاری رہتی ہے۔ فرق یہ ہے کہ آئین نے حکومت کے ہاتھ باندھے ہوئے ہیں اسلئے وہ قتل یا نظربندی کے احکامات نہیں دے سکتے لیکن حکومت میں آتے ہی اپنے نورنظر لوگوں کو سیکرٹری، کمشنر اور تھانیدار تک لگاتے ہیں اور پرانی حکومت والوں کو او ایس ڈی بنا کر تمام اختیارات چھین لیے جاتے ہیں۔ اور جن کو عہدہ دیتے بھی ہیں تو ہر دوسرے مہینے کرسیاں بدلتے رہتے ہیں تاکہ کوئی اپنی سیٹ پر زیادہ مضبوط نہ ہو۔

پوسٹ میں نامزد افراد کا سیاسی قد کاٹھ کیسا تھا؟

ابن رشد قرطبہ کا چیف جسٹس تھا (جو ایک مذہبی پوسٹ تھی کیونکہ قاضی کا عہدہ دینی علم کی بنیاد پر ملتا تھا)۔ اس کے خلیفہ سے انتہائی قریبی تعلقات تھے۔ بعد میں اس کا بیٹا خلیفہ بنا تو اس نے ابن رشد کو سیاسی وجوہات کی بنا پر جلا وطن کیا کیونکہ اس کو عیسائی کروسیڈرز سے لڑنے کے لیے مختلف علاقوں کے لوگوں کی مدد چاہیئے تھی۔ عین ممکن ہے کہ اس نے خلیفہ کی حکم عدولی بھی کی ہو۔ اس کی زندگی اور فلسفہ اور خدمات کے بارے میں پڑھنے کے لیے حوالہ جات میں سٹینفورڈ یونیورسٹی کے انسائکلوپیڈیا کے اوراق ملاحظہ کریں۔

ابن سینا کے متعدد گورنروں سے دیرینہ تعلقات رہے۔ وہ شمس الدولہ کا وزیر اور علاالدولہ کا مشیر رہا۔ جس دور میں وہ روپوشی میں تھا اس وقت بھی شمس الدولہ کا بیٹا اس کو اپنا وزیر بنانا چاہتا تھا لیکن اسکے بجائے وہ مناسب وقت کا انتظار کرتا رہا اور بعد میں اس نے علاالدولہ سے تعلقات استوار کرنا بہترسمجھا۔ وہ ساری زندگی بڑے بڑے گورنروں اور بادشاہوں کے ساتھ رہا۔ اپنی جان کے خطرے کے پیش نظر چھپنے والی بات محض کہانی ہے۔ محمود غزنوی اور علا الدولہ کی دشمنی تھی جس کی وجہ سے وہ علاالدولہ کے تعاقب میں تھا نہ کہ ابن سینا کے۔ اس کے حالات زندگی بریٹانیکا انسائیکلوپیڈیا سے پڑھے جا سکتے ہیں جس کا لنک نیچے دیا گیا ہے۔

سب سے زیادہ ظلم تو پوسٹ میں جابر بن حیان کے ساتھ کیا گیا ہے جس کے امام جعفر صادق کے ساتھ تعلق کی بات ہی نہیں کی گئی۔ تاریخی طور پر جابر بن حیان کی زندگی کے بارے میں باوثوق ذرائع سے کوئی معلومات موجود نہیں۔ اس کے بارے میں زیادہ تر باتیں بہت بعد کے لوگوں نے لکھیں جنہوں نے اس کو عباسی خلافت کے بہت قریب بتایا۔ تاہم اس کی زندگی کے درست حالات کا اندازہ اس کی باقی رہ جانے والی تصانیف سے لگایا جاتا ہے جن میں جابجا امام جعفر صادق کا تذکرہ ہے۔ پوسٹ میں کیمیا گری کو کفر کہنے والا قصہ پتہ نہیں کہاں سے گھڑا گیا ہے۔ اس دور میں کیمیا گری کے لیے جو وسائل دستیاب تھے وہ عام آدمی حاصل ہی نہیں کر سکتا تھا۔ اس نے کم سے کم ایک کتاب کیمیا گری کے حوالے سے غالبا خلیفہ کی گرانٹ پر لکھی۔ عباسی خلافت کے ساتھ اس کے تعلقات کے بارے میں نیو ورلڈ انسائیکلو پیڈیا دیکھیں۔

الرازی کو اپنے وقت کا دنیا کا سب سے بڑا ہسپتال بنانے کی گرانٹ خلیفہ المکتفی باللہ نے دی۔ اس کی آنکھوں میں بڑھاپے میں موتیا اتر آیا تھا جس کے علاج کی اجازت اس نے خود نہیں دی۔ اس کی سوانح حیات اس کے شاگرد البیرونی نے لکھی جو خود بادشاہوں کی سرپرستی میں رہا۔ کم سے کم ایک راوی نے اندھے پن کی وجہ خلیفہ کی طرف سے سر پر تھپڑ مارنا لکھی ہے کیونکہ وہ کیمیا گری کا کوئی ثبوت نہیں دے سکا تھا۔ اس میں مرتد اور کافر والی کہانی پتہ نہیں کہاں سے ڈالی ہے پوسٹ میں۔ اس کی طب کے ساتھ ساتھ مذہب پر متعدد کتابیں ہیں۔ اس کے حالات زندگی وکی پیڈیا پر تفصیل سے دیے گئے ہیں۔

یعقوب الکندی کا باپ کوفہ کا گورنر تھا۔ الکندی کے خلیفہ مامون اور معتصم سے قریبی تعلقات رہے۔ وہ بغداد کے دار الحکمت کا ممبر تھا۔ اکیلے مرنے والی کہانی ایک مستشرق نے لکھی ہے۔ تاریخ دانوں کا اس بات پر اتفاق ہے کہ اس کی بنائی ہوئی بنیاد پر کئی صدیوں تک ماہرینِ فلسفہ علمی اور تحقیقی ابحاث میں مشغول رہے۔ معتصم کے بعد دیگر خلفا کے ساتھ اس کے مراسم نہ بن سکے جب اس کا کتب خانہ صرف کچھ عرصے کے لیے ضبط کیا گیا جس کی وجہ شاید بنو موسیٰ برادران کے ساتھ اس کی چپقلش تھی (جو خود مشہور سائنسدان تھے)۔ اس کے حالات زندگی یونیورسٹی آف سینٹ اینڈیوز کی ویب سائٹ پر پڑھ سکتے ہیں۔

پوسٹ میں نامزد افراد کی دینی خدمات اور دینی ابحاث کی حقیقت

پوسٹ میں لکھے ناموں کی کیمیا، فلسفہ، ریاضی، طبیعات وغیرہ میں خدمات کا تو ذکر کیا گیا ہے لیکن کسی ایک کے نام کے ساتھ دین میں ان کی خدمات کا ذکر نہیں کیا گیا۔ اس کی وجہ شاید دانستہ حقائق کو چھپانا ہے تاکہ ان کے بے دین ہونے کا تاثر پیدا کیا جا سکے۔ یہ سب ہی لوگ مسلم فقہ اور قانون وغیرہ پر اپنے اپنے دور میں اتھارٹی تھے اور کئی کتابیں اس حوالے سے بھی لکھی ہیں۔ جیسا کہ پہلے بیان کیا گیا کہ جابر بن حیان خود امام جعفر صادق کے بلاواسطہ شاگرد تھے اور شیعہ فقہ پر کتابیں لکھیں۔ ابن رشد اپنی ریاست کے مفتی اعظم (چیف جسٹس) کے عہدے پر فائز رہے اور فقہ اور حدیث پر کتابیں لکھیں۔ ان کے مذہبی علوم میں مہارت کا یہ عالم تھا کہ امام مالک کی موطا ان کو زبانی یاد تھی۔ یعقوب الکندی علم الکلام کے ماہر تھے۔

یہاں ایک اور وضاحت طلب بات یہ ہے کہ یہ لوگ عموما اپنی کتابوں، خطوط اور حلقہ احباب میں علمی ابحاث میں مسلسل شامل تھے۔ صرف ان پانچ افراد کی کتابوں کی تعداد ہزار سے زیادہ بنتی ہے۔ جن موضوعات پر یہ بحثیں ہوتی تھیں ان میں فلسفہ، میٹا فزکس، فقہ، قانون، خدا کے وجود، وحی کی حقیقت وغیرہ جیسے موضوعات بھی شامل ہوتے تھے۔ پھر بحث کے دوران اگر ایک فریق مثلا جنات کی حقیقت، یا وحی وغیرہ پر ایک رائے دیتا تو دوسرے علما کچھ اور رائے دیتے اور ایک دوسرے کی رائے میں خامیاں تلاش کرتے تھے جس کا مقصد خالص علمی بحث کو آگے بڑھانا تھا۔ ایسے میں اگر کوئی ایک شخص غلطی کرتا تو ظاہر ہے اس غلطی کی نشاندہی بھی اس علمی سرگرمی کا حصہ ہوتی تھی۔ کتابوں کے ذریعے ہونے والی یہ بحثیں اکثر ہزاروں میل دور بیٹھے افراد کے درمیان سالہا سال چل رہی ہوتی تھیں جن کے درمیان فکری اختلاف ہوتا بھی تو باہمی احترام کا یہ عالم تھا کہ مثلا ابن رشد کی معزولی کے بعد غزالی نے ان کی تمام کتابیں محفوظ کر لیں۔ ایسے میں کسی نقطہ کو غیر اسلامی یا فکری طور پر غلط قرار دینے کا مقصد یہ نہیں ہوتا تھا کہ لوگ اکٹھے ہو کر اس کو قتل کر دیں گے۔ اس حوالے سے ایک تفصیلی مضمون یہاں پڑھیں۔

اس دور اور آج کی دیگر اقوام کا احوال

زیادہ عرصہ دور نہیں، سو دو سو سال پہلے تک یورپ کے عوام کا رویہ بااثر افراد کے حوالے سے کیسا تھا، یہ دیکھنا ہو، تو انقلابِ فرانس کے حالات ملاحظہ کر لیں۔ انقلاب فرانس میں بڑے بڑے ادیبوں، فلسفیوں اور سائنس دانوں کی گردنیں اڑائی گئیں صرف اس لیے کہ وہ امیر تھے اور کسی “لارڈ” کے منظور نظر تھے۔ لیکن یہ انقلاب چونکہ سیکولر تھا اور اس کے نتیجے میں جمہوریت قائم ہوئی اسلیے اس کے بارے میں ایسی باتیں آپ کو فیس بک پر مشہور ہوتی نہیں ملیں گی۔

نیچے فرانسیسی انقلاب میں مارے جانے والے کچھ بیوروکریٹس، انسانیت کے ہمدرد، انقلابی، شاعر، ادیب، فلاسفر، سائنسدان، محقق، مذہبی، لبرل، غرض ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی چھوٹی سی لسٹ ہے جن کا زیادہ سے زیادہ جرم یہ تھا کہ وہ امیر تھے یا کچھ اثر و رسوخ رکھتے تھے۔ بندے مارنے کا کام اس قدر زوروں پر تھا کہ اس کے لیے باقاعدہ ایک نئی، زیادہ تیز رفتار مشین گیلوٹین ایجاد کرنی پڑی۔ پوسٹ میں تو قرون وسطی کے بغیر ریفرنس قصے ہیں، یہاں صرف دو سو سال پہلے کے باشعور سیکولر ذہنوں کے کارنامے ہیں۔ ایک دو یا ہزار دو ہزار نہیں، چن چن کر تیس چالیس ہزار “بڑے” لوگوں کو قتل کیا گیا۔

اگر سو دو سو سال پرانے قصے بھی آپ کو زیادہ پرانے لگتے ہیں تو پہلی اور دوسری جنگِ عظیم اور سرد جنگ کے دوران اور اس کے بعد کے حالات ہی دیکھ لیں۔ مثلا دوسری جنگ عظیم میں برطانیہ کی یقینی شکست کو فتح میں بدلنے والے ایلن ٹیورنگ کو ذاتی زندگی کی بنیاد پر سزا دی گئی یہاں تک کہ وہ خود کشی پر مجبور ہو گیا۔ اسی طرح ولیری لیگاسوف، جس نے روس میں چرنوبل کی تباہی کی تحقیقات کی تھیں، خود کشی پر مجبور ہو گیا۔ آئن سٹائن جرمنی کا رہائشی تھا لیکن جرمنوں سے تنگ آ کر امریکہ بھاگ آیا۔ یہاں بھی اس کو سیاہ فام امریکیوں کی حمایت، ایٹمی ہتھیاروں کی مخالفت اور کمیونسٹوں کے ساتھ ہمدردی کی پاداش میں مسلسل طنز و تشنیع کا نشانہ بنایا گیا۔ ایف بی آئی نے اس کی حرکات و سکنات پر نظر رکھ کر چودہ سو صفحات کی دستاویز تیار کر رکھی تھی۔ گیرہارڈ ڈوماگ کو انیس سو انتالیس کا نوبل انعام دینے کا اعلان ہوا تو جرمن حکومت نے اس کو انعام لینے سے روک دیا۔ جرمنوں کی شکست کے بعد جرمن سائنسدانوں پر اتحادیوں نے کیس چلائے اور سزائیں دیں جبکہ وہ صرف سائنسی تحقیق میں مصروف تھے۔

یہ معاملات لکھنے کا مقصد یہ نہیں کہ دوسروں کی خرابیاں دکھائی جائیں، بلکہ مقصد یہ ہے کہ ہر دور اور وقت کے معروضی حالات مختلف ہوتے ہیں اور لوگ ان حالات کے مطابق فیصلے کر رہے ہوتے ہیں۔ بعد کے حالات کے مطابق تبصرہ کرنا کہ کیا صحیح تھا اور کیا غلط، یقیناً بہت آسان کام ہے۔

حوالہ جات

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech