وکٹورین دور کے برطانیہ سے لے کر آشوٹز کے دروازوں تک کی یہ کہانی بیسیوں صدی میں ڈھائے جانے والے مظالم کی داستان ہے۔ ایک ایسا آئیڈیا جو کئی دہائیوں تک مقبول رہا اور کسی نہ کسی شکل میں آج بھی موجود ہے۔ یہ یوجینکس، اس کے خوفناک ماضی اور تکلیف دہ حال کی کہانی ہے۔

(نیوز کاسٹر خبر سنا رہا ہے) تازہ ترین خبر آپ کو پیش کر رہے ہیں، امریکہ کی سپریم کورٹ نے رو بمقابلہ ویڈ کا فیصلہ ختم کر دیا ہے۔

(نیوز کاسٹر خبر سنا رہی ہے) ہم سپریم کورٹ کے باہر کھڑے ہیں جہاں عدالت نے عورتوں کے اسقاط حمل کے حق کو ختم کر دیا ہے۔

(نیوز کاسٹر خبر سنا رہی ہے) ابھی ابھی عدالت سے خبر آئی ہے اور اسقاط حمل کے مخالفین جشن منا رہے ہیں۔

(نیوز کاسٹر خبر سنا رہی ہے) واشنگٹن اور پورے ملک میں فیصلے کے حق میں اور مخالف لوگ جمع ہو کر اظہارِ خیال کر رہے ہیں۔

یوجینکس کی تحریک کا مقصد انسانوں کی بہتر نسل پیدا کرنا تھا بالکل ویسے جیسے آپ زیادہ تیز دوڑنے والے ریس کے گھوڑے یا زیادہ اون والی بھیڑیں پیدا کرتے ہیں۔ لیکن اس کا مطلب یہ ہے کہ کچھ لوگوں کو نسل بڑھانے کی اجازت ہو گی اور دوسروں کو نہیں۔ اگر آپ گھڑ دوڑ جیتنا چاہتے ہیں تو آپ سست گھوڑوں کو بچے پیدا کرنے کی اجازت تو نہیں دیں گے۔ یعنی یہ معاملہ کنٹرول کرنے کا ہے اور یہاں بات پیدائش کو کنٹرول کرنے کی ہو رہی ہے۔

دو ہزار انیس میں سپریم کورٹ کے جسٹس تھامس کلارینس نے امریکہ میں یوجینکس کی تاریخ کے حوالے سے ایک لیگل رپورٹ لکھی جس میں انہوں نے دعوی کیا کہ اسقاط حمل کا کیس بنیادی طورپر یوجینکس کی تحریک کے ساتھ جڑا ہے۔ دیگر لوگ ان سے اتفاق نہیں کرتے۔ ان کا خیال ہے کہ آپ خواتین کو یہ حق نہ دے کر زیادہ یوجینک پالیسی بنا رہے ہیں۔

یہاں ہم امریکہ میں بیسویں صدی کے دوران شرح پیدائش روکنے کے لیے یوجینکس کی تحریک پر بات کریں گے۔ کس کو بچے پیدا کرنے کی اجازت ہونی چاہیئے؟ کس کو بچے پیدا کرنے سے روکا جانا چاہئے؟ اور یہ فیصلے کرنا کس کے اختیار میں ہے؟

یوجینکس کے ماننے والے ایک اندرونی خطرے سے پریشان تھے: اخلاقی گراوٹ کا شکار اور گمراہ افراد یا جن کو ذہنی طور پر کمزور یا بے ہودہ سمجھا جاتا تھا۔ ان پر برسراقتدار کلاسز کی نسبت زیادہ تیزی سے بچے بنانے کا الزام تھا جو قوم میں گندی جینز شامل کر رہے تھے۔ ان کو روکنا ضروری تھا۔ لیکن پورے ملک میں پیدائش کو کنٹرول کیا کیسے جائے؟

یونیورسٹی آف کیلیفیورنیا کی انسٹی ٹیوٹ برائے سوسائٹی و جنیٹکس کی پروفیسر الیگذینڈرا منسٹر بتاتی ہیں کہ دنیا میں سب سے پہلے یوجینکس کی بنیاد پر جبری نس بندی کے قوانین انڈیانا، امریکہ میں متعارف کروائے گئے۔ انیس سو سات میں قانون بنایا گیا جس کا نشانہ غریب سفید فام افراد تھے بالخصوص وہ مرد جن کے بارے شبہ تھا کہ وہ گمراہ کن جنسی میلان اور رویے رکھتے تھے۔ اس کے دو سال بعد ریاست واشنگٹن میں بھی قوانین بنے اور کیلیفورنیا میں بھی۔

خواتین میں نس بندی سے مراد ٹیوبل لائگیشن ہے جس کے دوران فیلوپیئن ٹیوب کو کاٹ دیا جاتا ہے۔ مردوں میں اس سے مراد ویزیکٹومی ہے۔ یہ ایک عجیب ستم ظریفی ہے کہ امریکہ، جس کی بنیاد ہی شخصی آزادی پر رکھی گئی، وہاں دنیا میں سب سے پہلے شخصی آزادی پر ایسی قدغنیں لگانے والے قوانین بنے۔ انیس سو نو کے ایک پمفلٹ بعنوان “بگڑے ہوؤں کی نس بندی” از ایچ سی شارپ (جو امریکی ڈاکٹر اور ویزیکٹومی کے داعیوں میں سے تھا) میں ایک لائن کہتی ہے “اکتوبر اٹھارہ سو نواسی سے میں ایک آپریشن کر رہا ہوں جس کو ویزیکٹومی کہتے ہیں۔ یہ آپریشن بہت سادہ اور آسان ہے۔ میں یہ کام بغیر کسی درد کش دوا کے کرتا ہوں، نہ لوکل نہ جنرل۔ اس میں صرف تین منٹ کا وقت لگتا ہے اور جس کا آپریشن ہوتا ہے وہ فورا ہی کام پر واپس جا سکتا ہے۔ اس کو کوئی مشکل پیش نہیں آتی۔ وہ اپنی زندگی، آزادی، اور خوشیوں کا بھرپور مزہ لے سکتا ہے، لیکن وہ بچے پیدا کرنے کے قابل بالکل نہیں رہتا۔”

ونسٹن چرچل نے شارپ کے پمفلٹ انیس سو دس میں پڑھے اور ہم جانتے ہیں کہ وہ ان سے خاصا متاثر ہوا کیونکہ اس نے موٹی نیلی پنسل سے اس کے لمبے لمبے حصے انڈر لائن کر رکھے تھے اور اس نے ہوم آفس کو لکھا کہ وہ برطانیہ میں انڈیانا کے اس قانون کی افادیت پر تحقیق کریں۔ لیکن یہ قانون برطانیہ میں کبھی نہ بن سکا۔ چرچل کی خواہش کے باوجود برطانیہ نے نس بندی کے قوانین کو نہیں اپنایا۔

شارپ جیسے افراد کے ہاتھوں میں چھریاں پکڑا کر انڈیانا جیسے علاقوں میں یہ قوانین تیزی سے حقیقت کا روپ اختیار کرنے لگے۔ دیگر ریاستوں نے بھی ان کو عملی جامہ پہنانا شروع کر دیا۔ امریکہ برطانیہ کے مقابلے میں یوجینکس کی تحریک کے ساتھ بہت آگے نکل چکا تھا۔

لیکن اس دور میں ایک اور بڑی تبدیلی رونما ہو رہی تھی جس نے سٹیٹس کو ہلا کر رکھ دیا تھا – خواتین کی آزادی کی تحریک۔ پیڈوا یونیورسٹی کی طب کی تاریخ کی پروفیسر وینڈی کلائن بتاتی ہیں “اٹھارہ سو نوے کے بعد سے زیادہ سے زیادہ خواتین کو کالج میں داخلے، اور گھر گھرستی کی نسبت تعلیم اور کیرئر کو اہمیت دینے کی ازادی مل رہی تھی۔ یہاں تک کہ انیس سو بیس تک خواتین یونیورسٹی میں تقریبا پچاس فیصد تک حصہ دار تھیں جو میرے خیال میں ایک حیران کن بات ہے۔ بہت سے لوگوں کو اس بات سے تشویش تھی کہ اس سے خانگی معاملات کس حد تک متاثر ہوں گے۔” خواتین صرف تعلیم کے میدان میں ہی آزاد نہیں تھیں، بلکہ وکٹورین دور کی روایات ایک ایک کر کے تار تار ہو رہی تھیں۔ یہ شراب پر پابندی کا دور تھا جب شراب، ناچ گانا، جاز، اور سیکس ہر جگہ تھا۔ پروفیسر وینڈی کلائن کہتی ہیں “انیس سو بیس کے دور کی خواتین کی بات کریں تو جو چیز سب سے پہلے دماغ میں آتی ہے وہ فلیپرز (ایک طرح کا لباس) ہیں۔ ان کی جلد کا زیادہ حصہ نظر آرہا ہوتا تھا، وہ شراب پی سکتی تھیں، ناچ سکتی تھیں۔ وہ جنسی تسکین کے آبجیکٹ کے طور پر نظر آتی ہیں، جیسے ان سے پہلے کی خواتین نظر نہیں آتی تھیں۔ آپ اگر صرف اٹھارہ سو نوے اور انیس سو بیس کے دوران فیشن ٹرنیڈز کا موازنہ کریں تو آپ دیکھیں گے کہ کپڑوں کی تہیں ایک ایک کر کے کم ہوتی جا رہی ہیں۔ آپ دیکھیں گے کہ جس چیز کو تاریخ دان فراغت کا سامان کہتے ہیں کہ کسی پارک میں چہل قدمی کے بجائے اب آپ ناچ گھروں، مووی تھیٹرز، کا رخ کرتے تھے۔ اور آپ مخالف جنس کے ساتھ ان طریقوں سے متعارف ہو سکتے تھے جیسا پچھلی نسلوں کے لیے ممکن نہیں تھا۔ جب یہ سب کچھ عام ہو گیا تو یقینا آپ کو حمل روکنے کے طریقوں کے بارے میں سوچنا پڑے گا۔ اور ہمیں پتہ ہے کہ وہ اس بارے میں سوچ رہے تھے کیونکہ عین اس وقت شرح پیدائش کم ہونے لگی تھی۔”

لوگ صرف اسقاط حمل کے بارے میں سوچ نہیں رہے تھے، بلکہ کئی استعمال بھی کر رہے تھے۔ لیکن اس دور میں اس بارے میں بات نہیں کی جاتی تھی۔ اس وقت تک مانع حمل طریقے غیر قانونی تھے اور اس کی وجہ فیڈرل اور ریاستی قوانین تھے جن کو “کوم سٹاک” قوانین کہا جاتا ہے۔ لیکن ان چیزوں کے بارے میں بات کرنا بالکل ہی غیر اخلاقی سمجھا جاتا تھا۔ پروفیسر وینڈی کہتی ہیں “اس دور میں یوجینکس یا نس بندی کے بارے میں بات کرنا آسان لیکن مانع حمل طریقوں کے بارے میں بات کرنا مشکل تھا۔ اور یہ چیز آج کے لوگ شاید سمجھ نہ پائیں۔ اور اس کا تعلق اس ایک لفظ سے ہے – کنٹرول”۔ یوجینکس کے پیش رو کنٹرول کرنا چاہتے تھے کہ مانع حمل طریقے کون استعمال کرے گا لیکن ان معاملات پر ان میں اتفاق نہیں تھا۔ کچھ کے خیال میں یہ ایک نیک مقصد تھا۔

(ٹی وی پر اعلان ہو رہا ہے) آج رات ہم اس عورت سے ملیں گے جس نے امریکہ میں شدید مخالفت کے باوجود اور تمام روایات کے برخلاف امریکہ میں مانع حمل طریقوں کی وکالت کی ہے۔ آپ میرے پیچھے دیکھ سکتے ہیں۔ یہ مسز مارگریٹ سینگر ہیں۔ ان کو آٹھ دفعہ جیل میں ڈالا گیا ہے۔

مارگریٹ سینگر کا انیس سو ستاون میں ٹٰی وی پر تعارف کروایا جا رہے ہے۔ سینگر میں خواتین کو مانع حمل ادویات کی فراہمی کا جنون بطور نرس کام کرتے ہوئے پیدا ہوا جب انہوں نے خواتین کو حمل، زچگی اور اسقاط حمل کے غلط طریقوں کی وجہ سے مرتے ہوئے دیکھا۔ سینگر کی اپنی ماں کے گیارہ بیٹے تھے اور وہ کم عمر میں ہی فوت ہو گئی تھیں۔ انہوں نے بہت سی خواتین کو دیکھا جو بچوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی تھیں جن کا بھار اٹھانا ان کے لیے ممکن نہ تھا۔ اس لیے وہ سمجھتی تھیں کہ خواتین کی آزادی کے لیے مانع حمل ادوایات کی دستیابی انتہائی ضروری ہے۔ ان کے مطابق “کوئی خاتون خود کو آزاد تصور نہیں کر سکتی جب تک وہ اپنے جسم کی مالک خود نہیں ہے۔ کوئی عورت تب تک خود کو آزاد تصور نہیں کر سکتی جب تک وہ پورا سوچ سمجھ کر یہ فیصلہ نہ کر سکے کہ وہ ماں بننا چاہتی ہے یا نہیں۔” ان کی مہم بہت پر جوش اور پر عزم تھی۔ انہوں نے بروکلن میں انیس سو سولہ میں پہلا فیملی پلاننگ کلینک کھولا جو غیر قانونی تھا۔ ان کو گرفتار کر لیا گیا اور کلینک صرف نو دن بعد ہی بند ہو گیا۔ لیکن بالاخر انہوں نے ایک تنظیم کی بنیاد رکھی جو آج “پلانڈ پیرنٹ ہوڈ” کے نام سے مشہور ہے اور جو آج بھی پورے امریکہ میں خواتین کی ضروریات پوری کرتی ہے۔ بہت سے لوگ ان کو ایک فیمینسٹ آئیکان کے طور پر جانتے ہیں۔

لیکن مارگریٹ سینگر یوجینکس کی بھی حامی تھی۔ “میرے خیال میں دنیا کا سب سے بڑا گناہ بچوں کو اس دنیا میں لانا ہے، جن کو اپنے والدین کی بیماریاں ہوں، جو دنیا میں بھرپور زندگی گزارنے کے قابل نہ ہوں، کم سن مجرم، قیدی، جن کی قسمت کا فیصلہ پہلے سے ہو چکا ہو۔ میرے خیال میں یہ سب سے بڑا گناہ ہے”۔ یہ درست ہے کہ وہ خواتین کی آزادی کی جنگ لڑ رہی تھیں، لیکن وہ یہ سمجھتی تھیں کہ غریب لوگوں کو بچے پیدا نہیں کرنے چاہیئیں، اور جن لوگوں میں مجوزہ طور پر بعض قسم کی جینیاتی بیماریاں ہوں ان کو تو بالکل اجازت نہیں ہونی چاہیئے۔ انیس سو انیس کے ان کے جرنل کے سر ورق کا تعرہ ہے “صحتمند لوگوں کے زیادہ بچے، غیر صحتمند لوگوں کے کم”۔ لیکن یوجینکس کے دیگر پیش رو، بالخصوص مرد، ان کے خیالات کے بالکل مخالف تھے۔ چالز ڈیون پورٹ مثال کے طور پر مانع حمل ادویات کے شدید مخالف تھے کیونکہ سفید فام مڈل کلاس خواتین میں شرح پیدائش کم ہو رہی تھی اور اس کی وجہ مانع حمل ادویات تھیں۔ “یوجینکس کے بڑے بڑے ماننے والے زیادہ تر مانع حمل ادویات کے حلاف تھے کیونکہ وہ جلد ہی بھانپ گئے تھے کہ ان ادویات کو وہ لوگ استعمال کر رہے ہیں جنہیں ان کے خیال میں زیادہ بچے پیدا کرنے چاہئیں۔” سفید فام مڈل کلاس کام کرنے والی پڑھی لکھی خواتین میں گھٹتی ہوئی شرح پیدائش ان کے خیال میں خطرناک تھی۔ چنانچہ اس کے نتیجے میں انہوں نے قدیم روایات کے مطابق ان خواتین کو بچے پیدا کرنے اور خاندان کو سنبھالنے کا مشورہ دینا شروع کر دیا تاکہ قوم کے نسلی اور جینیاتی ورثہ اور صحت کی حفاظت کی جا سکے۔ اور ان روایات کی حفاظت کا بہترین طریقہ ان کی نظر میں یہ تھا کہ اس کو ایک مقابلہ بنا دیا جائے۔ اور یوں “صحتمند خاندان” کے نام سے مقابلوں کا انعقاد شروع ہوا۔

انیس سو بیس میں ہونے والے ایک میلے کا منظر ملاحظہ کیجیے۔ یہاں بڑے بڑے سٹیجز میں زراعت اور لوکل بزنسز کی نمائش جاری ہے۔ گھوڑوں کی دوڑ، گاڑیوں کے مقابلے، سب سے بڑا کدو اگانے کے مقابلے، سب سے بڑے جانور کے مقابلے، تیز ترین گھوڑوں کے مقابلے، سبھی کچھ ہے۔ لیکن بریڈنگ کے مقابلے صرف جانوروں تک محدود نہیں ہیں، بلکہ یوجینکس اور صحت کا سٹال بھی لگا ہوا ہے۔ ایک خوبصورت سٹال جس پر طرح طرح کے پوسٹرز سجائے گئے ہیں جن میں دعوی کیا گیا ہے کہ انسانوں کے نا پسندیدہ خواص کو صرف تین نسلوں میں بریڈنگ پر توجہ دینے سے ختم کیا جا سکتا ہے۔ اس مقابلے میں یوجینکس کا سٹال لگانے والوں میں ڈاکٹر فلارینس براؤن (کینساس کے چائلڈ ویلفئیر آفیسر)، اور میری ٹی واٹس (ائیووا پیرنٹس ٹیچر ایسوسی ایشن)،  شامل ہیں۔ “ہم نے اپنے سٹال پر لفظ یوجینکس نمایاں کر کے لگایا جس سے خاطر خواہ چہ مگوئیاں ہوئیں۔ جب کوئی پوچھے کہ یہ کس بارے میں ہے تو ہم کہتے کہ جیسے دوسری جگہوں پر لوگ گائیوں بھینسوں کو جج کر کے انعام دے رہے ہیں، ہم انسانوں کی بہترین بریڈ پر انعام دے رہے ہیں، اور لوگ کہتے کہ ہاں جتنی توجہ جانوروں کو دی جاتی ہے اتنی انسانوں کو بھی ملنی چاہئے”۔

اس دور میں کینساس ستانوے فیصد سفید فام تھا۔ یہ لوگ یہاں آ کر خون اور پیشاب کے سیمپل جمع کرواتے، آئی کیو ٹیسٹس لیے جاتے، اور انکے روز مرہ معاملات کے حوالے سے سوال جواب ہوتے۔ ان کی میڈیکل اور فیملی ہسٹری لی جاتی، شجرے بنائے جاتے۔ اس کے بعد ہر فیملی ممبر کو ایک گریڈ دیا جاتا۔ بی پلس گریڈ حاصل کرنے والوں کو کانسی کا تمغہ ملتا جس پر بائبل کا جملہ لکھا ہوتا “ہاں میری وراثت اچھی ہے”۔ اور اے گریڈ والوں کو کینساس کے سینیٹر تمغہ عنایت کرتے اور یوں یہ آئیڈیا پھیلتا جاتا۔ سفید فام ورکنگ کلاس اور مڈل کلاس کے پریشان دماغوں میں یوجینکس کے خیالات انڈیلے جا رہے تھے۔ اور یوں یہ خیال روز مرہ کے معاملات میں نظر آنے لگا۔ بازار میں یوجینک فیشل کریم بھی دستیاب تھی اور یوجینیکال شیمپو کے اشتہار بھی اخباروں میں چھپنے لگے۔ وینڈی کلائن بتاتی ہیں “یوجین اور یوجینیا ناموں کا مطلب ہی اعلی نسل کی پیدائش ہے۔ یہ نام اچانک انیس سو بیس اور انیس سو تیس میں بہت مقبول ہو گئے تھے۔ اور یوجینکس کے مشہور ہونے کی اس سے بہتر دلیل کیا ہو سکتی ہے کہ لوگ اپنے بچوں کا نام اس نام پر رکھ رہے تھے”۔ اس دور میں یوجینکس کو ایک اخلاقی ذمہ داری کے طور پر پھیلایا جا رہا تھا کہ جس کی ذمہ داری اپنی قوم کی صحت اور جینیاتی طاقت کی حفاظت اور ترویج تھا اور اس کے لیے سائنسی محسوس ہونے والے اشارے کثرت سے استعمال کیے جاتے تھے۔

اب ہم انیس سو ساٹھ کے نارتھ کیرولائنا چلتے ہیں۔ اب تک نازی مظالم پوری دنیا کو پتہ لگ چکے تھے۔ آپ سوچیں گے کہ شاید ساتھ ہی یوجینکس کی اصلیت بھی واضح ہو گئی ہو گی کہ یہ کتنا زہریلا نظریہ ہے۔ لیکن اب بھی بہت سی امریکی ریاستوں میں یوجینک سٹیریلائزیشن کے قوانین موجود تھے۔ اور یوجینک خیالات بہت حد تک اپنا تماشہ دکھا رہے تھے۔ درحقیقت ابھی بھی ایسے لوگ زندہ ہیں جن کی بچے پیدا کرنے کی صلاحیت ان قوانین کے تحت ختم کر دی گئی۔ ہم نے ایسی ہی ایک با ہمت خاتون ایلین ریڈک سے بات کی۔ آج ایلین اس خوفناک ظلم کے خلاف آواز اٹھاتی ہیں جو ان کے ساتھ اور دوسروں کے ساتھ یوجینکس کے نام پر روا رکھا گیا۔ میں آپ کو خبردار کر دوں کہ آگے جو باتیں آ رہی ہیں وہ بہت حد تک پریشان کن ہیں۔ لیکن جن لوگوں پر یہ مظالم بیتے، ظاہر ہے وہ بھی تاریخ کا ایک اہم حصہ ہیں۔ آگے ایلین کی کہانی ہے۔

“میں شمالی کیرولائنا کے ایک قصبے میں پلی بڑھی۔ یہ ایک دیہاتی سا علاقہ تھا اور ہم کافی غریب تھے۔ ہم لوگ کھیتوں میں کام کرتے تھے۔ ہم جانتے تھے کہ تعلیم اہم ہے لیکن اگر آپ نے کھیتوں میں کام کرنا ہو تو آپ کا کھیت میں موجود ہونا ضروری ہے۔ تو کسان ایک پک اپ ٹرک میں صبح چھے بجے آتے اور علاقے کے سب لوگ اس ٹرک میں بیٹھ جاتے اور کھیتوں میں جا کر روئی، یا مونگ پھلی یا تمباکو یا جس بھی چیز کا موسم ہوتا، اس کو چنتے۔ جب میں ابھی بچی ہی تھی اور اپنی دادی کے ساتھ رہتی تھی تو ایک اتوار کے روز کھیل کر گھر واپس آ رہی تھی تو ایک آدمی جھاڑیوں سے اچانک نکلا اور مجھے زیادتی کا نشانہ بنا دیا اور مجھے دھمکی دی کہ اگر میں نے کسی کو بتایا تو وہ مجھے مار دے گا۔ میں تو صرف ایک بچی تھی، وہ چھے فٹ سے زیادہ قد کا تھا۔ میں حاملہ ہو گئی۔ علاقے کی سوشل ورکر کو پتہ لگ گیا۔ لوگ مجھ پر ہنستے تھے کہ میرا وزن بڑھ رہا ہے۔ اس وقت میں ہمیں سیکس اور بچوں کے بارے میں پڑھایا نہیں جاتا تھا۔ کوئی اس بارے میں بات نہیں کرتا تھا تو میں بالکل سکتے میں تھی کہ کیا ہو رہا ہے۔” اب یوجینکس کی ریاستی مشینری حرکت میں آئی۔ وہ ایک غریب، سیاہ فام، حاملہ، کم سن لڑکی تھی، بالکل ویسی ہی جیسی عموما اس مشینری کے نشانے پر ہوتی تھیں۔ “چنانچہ آٹھ نو ماہ بعد میرا بیٹا پیدا ہوا۔ میری دادی کو معلوم نہیں تھا کہ وہ کس چیز پر دستخط کر رہی ہیں، ان کو اپنا نام لکھنا بھی نہیں آتا تھا۔ تو سرکاری اہلکاروں نے ان سے ایک کاغذ پر ایکس لکھوا کر دستخط لیے۔ ان کو کہا گیا کہ اگر آپ دستخط نہیں کرتیں تو ہم آپ کی امداد روک لیں گے۔ تو میں ہسپتال میں اپنے بیٹے کی پیدائش کے لیے چلی گئی تو انہوں نے جب بیٹے کی پیدائش کے لیے میرا پیٹ چاک کیا تو ساتھ ہی میرے مزید بچے پیدا کرنے کی صلاحیت بھی ختم کر دی۔” سوشل ورکر کی بتائی گئی تفصیلات کی بنیاد پر شمالی کیرولائنا کے یوجینکس بورڈ نے فیصلہ کیا کہ بچے کی پیدائش کے بعد ایلین کو سٹیریلائز کر دیا جائے۔ اس کو اس بارے میں بتایا بھی نہیں گیا۔ کئی سال بعد شادی ہونے اور لمبے عرصے تک بچے پیدا کرنے کی کوشش میں ناکامی کے بعد جب انہوں نے ڈاکٹر سے رابطہ کیا تو ان پر یہ حقیقت کھلی۔ اس کے بعد بہت لمبے عرصے تک مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ انیس سو چوہتر میں امریکن سول لبرٹیز یونین نے ان کی طرف سے مقدمہ دائر کیا کہ ان کو بچے پیدا کرنے کے حق سے ناجائز طور پر محروم کیا گیا ہے۔ کیس لمبے عرصے تک چلتا رھا اور بالاخر انیس سو تراسی میں فیصلہ ان کے خلاف آیا۔ ایلین نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کی تو عدالت نے کیس سننے سے ہی انکار کر دیا۔

دو ہزار دو میں ایلین اور دوسرے ہزاروں لوگوں کے کیسز کی تفصیلات ایک تاریخ کی طالبعلم جواینا شرن کی وجہ سے منظر عام پر آئیں اور معذرت اور معاوضے کے لیے دباؤ بڑھنے لگا۔ “اس کے بعد ایک نیا سلسلہ شروع ہو گیا۔ میں سمجھتی تھی کہ صرف میں ہی ہوں جس کے ساتھ ایسا ہوا۔ لیکن پھر ایک اور شخص کا کیس سامنے آیا، اور آہستہ آہستہ مجھے معلوم ہوا کہ یہ چھہتر سو دوسرے لوگوں کے ساتھ ہوا تھا۔ ان میں سے دو سو ننانوے کی عمر اٹھارہ سال سے بھی کم تھی۔” شمالی کیرولائنا کے گورنر نے اس معاملے کی چھان بین کے لیے ایک ٹاسک فورس بنائی۔ اس کا مطلب تھا کہ ایلین کو مزید میٹنگز، عوامی اجتماعات اور عدالتی کاروائیوں میں شرکت کرنی پڑی۔ اس پوری جنگ میں ان کا بیٹا ٹونی ان کے ساتھ کھڑا تھا۔ “میں ان کے ساتھ تھا جب عدالت میں کیس چل رھا تھا۔ اور میں نے ڈاکٹروں اور گواہوں کے بیانات سنے اور ان کے اقرارِ جرم بھی سنے۔ یہ وہ لوگ تھے جو یوجینک تحریک میں شامل تھے اور ابھی زندہ تھے۔ انہوں نے اپنی غلطیوں کا اعتراف کیا”۔ بالاخر دو ہزار بارہ میں ایک ادائیگی کا پروگرام شروع ہوا اور حکومت نے باقاعدہ معافی مانگی۔ ایلین اور دوسروں کو تھوڑے بہت پیسے (بچاس ہزار ڈالر) ادا کیے گئے۔ آپ اس کو انصاف تو نہیں کہہ سکتے لیکن اس سے ایک باب ختم ہو گیا۔ ایلین بتاتی ہیں کہ “شمالی کیرولائنا کے یوجینکس پروگرام کے بارے میں یہ بات اہم ہے کہ یہ پانچ سفید فام مردوں پر مشتمل ہوتا تھا جو ایک میز پر بیٹھ کر فیصلہ کرتے تھے کہ کس کو بچے پیدا کرنے کی اجازت ہونی چاہیئے اور کس کو نہیں۔ جب سوشل ورکر نے میرے کاغذات پیش کیے، تو انہوں نے مجھ سے بات تک نہیں کی اور مجھے کمزور ذہن کی قرار دے دیا۔ میں کمزور ذہن والی نہیں ہوں تو جب مجھے یہ بات بتائی گئی تو میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں کام کروں گی اور ان کو دکھاؤں گی کہ میں کمزور ذہن کی نہیں ہوں۔ میں نے نیو یارک سٹی ٹیک میں داخلہ لیا ہوا انسانی سروسز میں ایسوسی ایٹ ڈگری حاصل کی”۔ یوجینکس پر کام کرنے والوں کو یہ غلط فہمی تھی کہ وہ بالکل اچھی طرح معلوم کر سکتے ہیں کہ کون “کمزور دماغ” کا حامل ہے، اور یہ بھی کہ یہ مسئلہ جینیاتی ہے اور ان کے بچوں کو بھی ہو گا۔ وہ یقینا غلط تھے۔

ٹونی بتاتے ہیں “انہوں نے میری ماں کو اس لیے سٹیریلائز کر دیا کہ ان کو لگتا تھا کہ وہ کمزور دماغ والے بچوں کو جنم دے گی۔ ان کے اپنے ٹیسٹوں کے مطابق میری ماں کا دماغ کمزور نہیں تھا۔ میرا دماغ بھی کمزور نہیں ہے۔ میں ہائی سکول میں پڑھائی اور کھیلوں میں بہترین تھا۔ میں نے یونیورسٹی کی سطح پر تعلیم میں بہترین پوزیشن حاصل کی۔ میں نے کمپنی میں کام کرتے ہوئے آئی بی ایم کی ریسرچ اینڈ ڈولیپمنٹ میں بہترین خدمات دیں۔ میں ہر لحاظ سے بہترین تھا۔ یوجینکس پروگرام نے جس جس سطح پر ہمارے ناکام ہونے کی پیش گوئی کی تھی، ہم نے اس سطح پر بہترین کارکردگی دکھائی۔ اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ یوجینکس پروگرام بذات خود غلط تھا۔”

اب ایلین دوسرے خطرات سے دوچار خواتین اور بچوں کے حق میں لڑتی ہیں۔ وہ بتاتی ہیں “ریبیکا پراجیکٹ فار جسٹس امریکہ اور ساری دنیا میں انسانی زندگی کی عزت و وقار اور آزادی کے لیے کام کرنے والا ایک ادارہ ہے۔ میں جب ایک چھوٹی لڑکی تھی تو میرے پاس حفاظت کے لیے کوئی نہیں تھا اسلیے میں یہ یقینی بنانا چاہتی ہوں کہ ان بچوں کے سامنے کوئی نصب العین ہو۔ میں ان کو امید دینا چاہتی ہوں۔ اور میں یہ یقینی بنانا چاہتی ہوں کہ وہ اس قابل ہوں کہ سوسائٹی میں جا کر فائدہ مند شہری بن سکیں۔” ایلین نے اپنے ساتھ ہوئے ظلم کو آواز بنا کر دوسروں کا راستہ آسان بنانے کی کوشش کی ہے لیکن ان کے ساتھ جو ہوا وہ ہزاروں اور لوگوں نے بھی سہا ہے۔

پروفیسر وینڈی کلائن کہتی ہیں “ایلین کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ یوجینکس کا عام طریقہ کار تھا۔ پہلی بات تو یہ کہ ان پر کمزور ذہن کا ٹائٹل لگایا گیا جو یوجینکس کے اولین پروگرامز سے ہی چل رہا تھا۔ پھر ان کو پندرہ سال کی عمر میں یہ ظلم برداشت کرنا پڑا جو کہ اس وقت ہزاروں اور کم عمر لڑکیوں کے ساتھ بھی ہوا جن کو کم عمری میں ہی ریاستی اہلکاروں نے سٹیریلائز کر دیا۔ پھر یہ بھی قابل ذکر ہے کہ ان کو زیادتی کا شکار بنایا گیا تھا یعنی جس کے ساتھ پہلے ظلم ہوا اسی کو سزا بھی دی گئی۔ بہت سی کم عمر لڑکیاں جن کو بے راہ روی یا غیر مناسب رویے کا حامل سمجھا جاتا تھا وہ اصل میں اکثر جنسی جرائم کا شکار ہوتی تھیں اور جرم کرنے والے قریبی رشتہ دار یا ہمسائے ہوتے تھے۔”

جب انیس سو سات میں سٹیریلائزیشن پروگرام شروع ہوئے تو ان کا شکار غریب سفید فام مرد تھے۔ لیکن انیس سو پچاس اور ساٹھ آتے آتے ان کا زیادہ تر شکار سیاہ فام غریب خواتین ہوتی تھیں۔ ان قوانین کے تحت کئی ہزار لوگوں کی نس بندی کی گئی۔ ہمیں ان کی اصل تعداد اب بھی معلوم نہیں ہے۔ وینڈی بتاتی ہیں کہ “تقریبا ساٹھ ہزار سٹیریلائزیشنز کا ریکارڈ موجود ہے۔ اس بات کا مقصد یہ ہے کہ یقینا اصل تعداد اس سے بہت زیادہ رہی ہو گی۔ اسی لیے ان میں سے چند کا ریکارڈ ان اداروں میں پڑا رہ گیا۔ ہمیں یہ بھی جانتے ہیں کہ بہت سی سٹیریلائزیشنز ایسے اداروں میں ہو رہی تھیں جہاں ان کی اجازت قانونی طور پر نہیں تھی اور بہت سی پرائیویٹ کلینکس میں بھی ہوتی تھیں جہاں ڈاکٹر یوجینکس سے متاثر تھے۔”

ایلین کی کہانی سے ہمیں پتہ لگتا ہے کہ یہ صرف تاریخ کا ہی حصہ نہیں ہے۔ ان کی اور ان جیسے بہت سے لوگوں کی زندگی کو ایسے قوانین نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایا جہاں ریاست انسانی جان اور جسموں پر اپنا تسلط قائم کرنا چاہتی تھی۔ امریکہ کے اکتیس ریاستوں میں جبری نس بندی کے قوانین موجود تھے اور تقریبا ایک سو سال تک موجود رہے۔ کیلیفورنیا میں یہ قوانین انیس سو نواسی میں ختم ہوئے، جبکہ اوریگان میں انیس سے چھیاسی میں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ یہ سلسلہ ختم ہو گیا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق دو ہزار بیس میں بیس کے قریب پناہ گزین خواتین کو امیگریشن اینڈ کسٹمز کے قید خانوں میں زبردستی سٹیریلائز کیا گیا۔ یوجینکس کا مقصد شروع ہی سے یہ کنٹرل کرنا تھا کہ کس کو بچے پیدا کرنے کی اجازت ہونی چاہیئے۔ جسٹس تھامس کلیرنس کہتے ہیں کہ اسقاط حمل کے قوانین کو یوجینک مقاصد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔ اور وہ مکمل طور پر غلط بھی نہیں ہیں۔ ماضی میں بہت سے یوجینکس کے سپورٹر مانع حمل طریقوں کے حامی رہے ہیں۔ جسٹس تھامس نے رو بمقابلہ ویڈ کو ختم کر کے اسقاط حمل کا آئینی حق ختم کرنے کے لیے اس دلیل کا سہارا لیا۔ اب اسقاط حمل کا فیصلہ ریاستیں اپنے طور پر کرنے میں خود مختار ہیں۔

لیکن سوال پہلے بھی یہی تھا اور اب بھی ہے کہ کون فیصلہ کرے گا کہ بچے پیدا کرنے کا اختیار کس کے پاس ہے؟ کیا یہ فیصلہ ریاست کو کرنا چاہیے، طبی ادارے، یا افراد خود؟ کنٹرول کی اس جنگ کا رخ تبدیل ہوا ہے لیکن جنگ ابھی جاری ہے۔

بی بی سی ریڈیو کے پروگرام سے ترجمہ کیا گیا

https://www.bbc.co.uk/sounds/play/m001fw0c 

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech