گزشتہ سے پیوستہ –  پہلی قسط  –  دوسری قسطتیسری قسطچوتھی قسطپانچویں قسط

بحیرہ روم کے ارد گرد کئی جگہ آپ کو لکھنے پڑھنے والے لوگ ملیں گے۔ ان کی زندگیاں ضروریات زندگی کی تجارت کرتے، کچھ اچھا کھانا کھاتے، مصالحے اور سبزیاں استعمال کرتے، شراب اور دودھ پیتے گزر رہی تھیں اور اسی دوران دنیا بدل رہی تھی۔ لکھائی کی مدد سے نت نئے خیالات اور آئیڈیاز تیزی سے پھیل سکتے تھے۔ تجارت کی وجہ سے قصبے، شہر اور تہذیب تیزی سے بڑھ رھے تھے۔

البتہ قدرت سے جنگ اب بھی جاری تھی۔ یونان کا جزیرہ کریٹ آتش فشاں پہاڑوں اور زلزوں سے متاثر ہوتا رہا ہے۔ یہ جزیرہ یورپ کی پہلی باقاعدہ تہذیب منوسیوں کی آماج گاہ تھا۔ یہاں سوال یہ بنتا ہے کہ تہذیب کہتے کس کو ہیں؟ تہذیب کا مطلب ہے “ایسی جگہ جہاں لوگ قصبوں اور شہروں میں رہ رہے ہوں”۔ لیکن اس سے مراد ہم زیادہ چمک دمک اور نفیس لوگوں کو لیتے ہیں۔ اور شاید کوئی اور تہذیب اتنی نفیس نہیں تھی جتنے منوسی۔

منوسی خواتین کی دیو قامت تصویریں

سینتیس سو سال پہلے، منوسی عالمی تجارت کے علمبردار تھے۔ وہ پورے مشرقی بحیرہ روم میں شراب، زیتون کے تیل، اور عمارتی لکڑی کی تجارت کرتے تھے۔ منوسی شہر کے وسط میں کنوسوس کا شاندار محل تھا۔ یہ محل بیسویں صدی کی شروعات میں، برطانوی ماہر آثار قدیمہ، سر آرتھر ایوانز نے دریافت کیا۔ ان کو ایک نفیس شہر ملا جس میں دیو قامت تصویریں، پانی کی نالیاں اور بنیادی سیورج کا نظام تھا۔ بڑی بڑی دیو قامت تصویریں، جن میں خواتین سانپوں کو آسمان تک اٹھائے نظر آتی ہیں، ہمیں بتاتی ہیں کہ اس سوسائٹی میں خواتین کا مرتبہ مردوں سے زیادہ تھا۔ منوسیوں نے ایوانز کو سحر زدہ کر دیا اور اس نے اس شہر کو دوبارہ کھڑا کرنے کی ٹھان لی۔ اس شہر میں اب کافی کچھ بہت نیا نیا سا لگتا ہے، جیسے اس کو ابھی انیس سو بیس میں ہی بنایا گیا ہو – کیونکہ واقعی بہت کچھ انیس سو بیس میں بنایا گیا ہے۔ کنکریٹ کے ستون، پتھروں کی دیواریں اور مشہور زمانہ تصویریں، جو منوسی آرٹ کی بنیاد پر بنائی گئیں، لیکن ان کو بھی کافی حد تک جدت سے سنوارا گیا۔

کنوسوس کا شاندار محل شہر کے وسط میں واقع تھا
کنوسوس کا شاندار محل شہر کے وسط میں واقع تھا

پاتھوں میں شراب کے برتن اٹھائے ساحل سمندر پر تھرکتی حسینائیں آج ووگ میگزین کے ٹائٹل پر شاید زیادہ سجیں۔ ایوانز نے ایک ایسے وقت پر اس شہر کی تعمیر کی جب یورپ پہلی جنگ عظیم کی وجہ سے پارہ پارہ تھا اور اس نے منوسی تہذیب کو ایک پرفیکٹ، خرابی سے پاک تہذیب کا ملمع چڑھادیا۔ وہ آج کے خون کے پیاسے یورپ کے بجائے ایک پر امن اور معتدل یورپ پر منوسیوں کے راج کا خواب دیکھ رہا تھا۔ منوسیوں کی ثقافت شروع میں دیکھنے سے بہت خوشگوار لگتی ہے۔ لیکن کہتے ہیں ہر چمکتی چیز سونا نہیں ہوتی۔ اور یہ بات تاریخ میں بھی اتنی ہی سچ ہے جتنی باقی ہر جگہ۔

منوسی حسینائوں کی تصویریں بیسویں صدی کے شروع میں دوبارہ بنائی گئیں
منوسی حسینائوں کی تصویریں بیسویں صدی کے شروع میں دوبارہ بنائی گئیں

انسانیت کا گھناؤنا چہرا

انیس سو نواسی میں منوسیوں کا ایک تاریک پہلو آشکار ہوا۔ کنوسوس سے کچھ میل دور، جزیرے کے اندر ایک مندر ہے۔ آج تو یہ جگہ خوبصورت جنت کا ایک ٹکڑا نظر آتی ہے لیکن جب ماہرین نے یہاں کھدائی کی تو ایک گھناؤنی دریافت ہوئی۔ مندر میں پتھر کا ایک قربانی گھاٹ تھا جس پر ایک نوجوان، اٹھارہ سال کے لڑکے کا ڈھانچہ پڑا تھا جس میں رسموں میں استعمال ہونے والا پیتل کا خنجر پیوست تھا۔ اس کے جسم کے اوپر والے حصے کی ہڈیاں سفید اور نیچے والے حصے کی ہڈیاں سیاہ تھیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جب اس کے جسم سے خون بہہ رہا تھا تو اس کا دل ابھی دھڑک رہا تھا۔ اس کی موت خون بہنے سے ہوئی۔ یہ انسانی قربای تھی۔ باقی دو جسم بھی قریب ہی پڑے تھے۔

ان پتھروں پر قربانی کی چبوترہ تھا جس پر ایک جوان لڑکے کا ڈھانچہ پڑا تھا
ان پتھروں پر قربانی کا چبوترہ تھا جس پر ایک جوان لڑکے کا ڈھانچہ پڑا تھا

ایک جسم ایک عورت کا تھا جو پانچ فٹ کی دمیانی قامت رکھتی تھی اور وہ اپنے ہاتھوں سے اپنے چہرے کو بچانے کی کوشش کر رہی تھی۔ ہم جانتے ہیں کہ منوسیوں میں عورتیں اعلی مقام کی حامل تھیں۔ وہ شاید کوئی پجارن تھی۔ منوسی ترقی یافتہ تھے لیکن ان کو قدرتی آفات کا ڈر رہتا تھا۔ ان کی قدرت کو قابو کرنے کی خواہش، اپنی صلاحیت سے کہیں زیادہ تھی۔ لہٰذا انہوں نے دیوتاؤں کو خوش کرنے کے لئے سب سے مشکل رسم کا سہارا لینا چاہا۔

سینتیس سو سال پہلے اس گھناؤنی قربانی کے دوران قدرت نے پھر سے وار کیا۔ قدرت پر قابو کی کوشش انسانوں کے لئے سب سے بڑا چیلنج رہا ہے۔ اور یہ آج بھی اتنا ہی مشکل ہے۔ دیوتاؤں کو خوش کرنے کی کوشش ناکام ہوئی اور ایک طاقتور زلزلے سے منوسی تہذیب تہس نہس ہو گئی۔ منوسی ہمیشہ پراسرار رہیں گے لیکن وہ ہمیں ایک بنیادی حقیقت سے روشناس کرواتے ہیں۔ اور وہ یہ کہ گرچہ غاروں سے تہذیب تک کا سفر بہت شاندار تھا، لیکن قدرت کے مقابلے میں شاید ہم فتح حاصل نہ کر سکیں۔ اور انسانی فطرت کے سیاہ پہلوؤں کے خلاف تو شاید کبھی نہیں۔


مزید پڑھیے – پہلی قسط  –  دوسری قسطتیسری قسطچوتھی قسطپانچویں قسط

تحریر و تخلیق: بی بی سی چیف ایڈیٹر انڈریو مارز
ترجمہ: محمد بلال
انگریزی میں ویڈیو دیکھنے کے لئے

لنک پر کلک کریں

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech