گزشتہ سے پیوستہ –  پہلی قسط  –  دوسری قسطتیسری قسطچوتھی قسطپانچویں قسط

گاؤں سے شہر کا سفر

ترکی میں اناطولیہ کے میدانوں میں عجیب سے ٹیلے بکھرے پڑے ہیں۔ ان کے نیچے ایک نئی انقلابی ایجاد کے باقیات ہیں – شہر۔ نو ہزار سال پہلے ایک کمیونٹی – آٹھ ہزار نفوس پر مشتمل ایک چھوٹا سا شہر – یہاں چاتالہویوک کے مقام پر تھا۔ اور یہاں ہم اپنی ابتدائی تاریخ کے سب سے شروعاتی لوگوں سے مل سکتے ہیں۔ اس عورت کا ڈھانچہ دو ہزار چار میں کھدائی کے دوران ملا۔ وہ صرف بیس سال کے لگ بھگ عمر کی تھی۔ اسکو اپنے گھر کے فرش کے نیچے دفن کیا گیا۔ اسکی ٹھوڑھی گھٹنوں کو چھو رہی تھی اور سامنےایک کھوپڑی ماتھے سے ماتھا ملا کر رکھی ہوئی تھی۔ اس کھوپڑی پر پلاسٹر کی لیپائی کی گئی تھی، اور در حقیقت اس پر بار بار کئی دفعہ لیپائی کی جا چکی تھی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اس کو ایک دفعہ دفنانے کے بعد کھود کر نکالا گیا اور پھر دوبارہ کسی اور کے ساتھ دفنایا گیا اور پھر کسی اور کے ساتھ۔

چاتل ہویوک سے ملنے والی یہ قبر اولین مذہب کی موجودگی کا اشارہ کرتی ہے
چاتالہویوک سے ملنے والی یہ قبر اولین مذہب کی موجودگی کا اشارہ کرتی ہے

مذہب کے اولین شواہد

یہ تقریبا یقینی طور پر بزرگوں کی عبادت کی ایک قسم تھی۔ یہ کسی ایسے شخص کی کھوپڑی تھی جو خاندان میں بہت اہم رہا ہو گا۔ ہمیں لگتا ہے کہ ہم یہاں عبادت کی کئی شکلیں دیکھ رہے ہیں۔ بزرگوں کی عبادت، جس زمین پر ہم کھڑے ہیں اس کی عبادت اور جن لوگوں سے ہم آئے ہیں ان کی عبادت۔ اس عورت نے ایک نایاب چیتے کے پنجے کا ہار گلے میں پہنا تھا۔ یہ ضرور ایک نئے انسانی محاذ کی شروعات تھی۔ چاتالہویوک کا شہر طبعی مکاں اور آج پر فتح دکھاتا ہے۔ لیکن چیتے والی عورت کی قبر زمان پر بھی قدرت حاصل کرنے کی کوشش کی عکاسی ہے۔ یہ مردوں، زندوں اور آئندہ پیدا ہونے والوں کے درمیان ایک رابطے کی عکاسی کرتا ہے۔ یہ ایسے لوگ تھے کہ جس سے اگر پوچھا جائے کہ “آپ کو کیا لگتا ہے کہ آپ کون ہیں؟” تو وہ اس کا واضح جواب دے سکتے تھے۔

گھروں کی ساخت

انکا شہر مٹی کی اینٹوں سے بنے گھروں کا ایک مربوط نیٹ ورک تھا جو کسی انسانی چھتے کی طرح لگتا تھا۔ اور آج کے دور کے جھونپڑیوں کے شہروں سے کوئی زیادہ مختلف نہیں تھا۔ لوگ شہر میں ہموار چھتوں پر چلتے تھے۔ اور گھروں میں داخلے کے لئے چھت سے سیڑھیاں استعمال ہوتی تھیں۔ اول تو یہ دیکھنے میں ہی گھر کے طور پر بآسانی پہچانا جاتا ہے۔ آج کے دور کے فلیٹس اور اپارٹمنٹس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہے۔ یہاں باورچی خانہ سا ہے جہاں بڑے بڑے مٹی کے برتن تھے، جن میں ہر طرح کے بیج اور دانے رکھے جاتے تھے۔ یہاں کسی طرح کا بستروں والا کمرہ ہوتا ہو گا۔ اس گھر میں شاید پانچ سے دس لوگ رہتے ہوں گے۔ دیکھنے میں یہ ڈیزائن کافی مانوس سا ہے۔

چاتالہویوک کے گھروں کا دروازہ چھت پر ہوتا تھا اور شہر دیکھنے میں چھتے سے مشابہت رکھتا تھا
چاتالہویوک کے گھروں کا دروازہ چھت پر ہوتا تھا اور شہر دیکھنے میں چھتے سے مشابہت رکھتا تھا

لیکن اس میں دوسری چیز جو اہم ہے وہ یہ کہ جو لوگ یہاں رہتے تھے وہ انتہائی درجے کے صفائی پسند تھے۔ وہ فرش اور دیواریں دھو نہیں سکتے تھے کیوں کہ یہ مٹی کے بنے تھے لیکن وہ بار بار ان پر چونے سے سفیدی کرتے تھے۔ دیواروں پر آپ لکیریں سی دیکھ سکتے ہیں جو اصل میں بار بار سفیدی سے بنی ہیں۔ اور آثار قدیمہ کے ماہرین بتاتے ہیں کہ اس دیوار پر چار سو سے زائد دفعہ سفیدی کی گئی تھی۔ یہاں ہم بلاشبہ انسانی معاشرے کی بالکل ابتدا پر کھڑے ہیں۔ یہ جگہ شاید ایسے لوگوں کی روحوں سے بھری ہو جن کو ہم آسانی سے پہچان سکتے ہیں۔

چاتالہویوک کے گھروں کا نقشہ آج کے اپارٹمنٹس سے کافی ملتا ہے
چاتالہویوک کے گھروں کا نقشہ آج کے اپارٹمنٹس سے کافی ملتا ہے
آثار قدیمہ کے ماہرین کے مطابق کمرے کی اس دیوار پر تقریبا چار سو دفعہ سفیدی کی گئی
آثار قدیمہ کے ماہرین کے مطابق کمرے کی اس دیوار پر تقریبا چار سو دفعہ سفیدی کی گئی

شہروں کے فائدے اور نقصان

چیتے والی خاتون ایک منظم اور مستحکم معاشرے میں پروان چڑھی جہاں مردوں اور عورتوں کو برابر اور بھرپور کھانے کو ملتا تھا اور وہ معاشرتی طور پر بھی برابر سمجھے جاتے تھے۔ یہ ایک پر امن علاقہ لگتا ہے جہاں کوئی دفاعی دیواریں نہیں تھیں، اور کسی قسم کی معاشرتی تقسیم یا اختلاف کے بھی آثار نظر نہیں آتے۔ یہاں کوئی عبادت گاہ، محل، جنگجوؤں کا علاقہ یا خواتین کے لئے الگ کمرے نہیں تھے۔ صرف خاندان تھے جو ایک دوسرے کے ہمسائے میں مل جل کر رہ رہے تھے گویا یہ کسی موجودہ دور کے انقلابی دیوانے کا کوئی خواب ہو – ایک ایسی دنیا جہاں کوئی افسر اور ماتحت، کوئی حاکم اور محکوم نہیں تھے۔

لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ایسے سسٹم زیادہ دیر نہیں چلتے اور بہت جلد تباہ ہو جاتے ہیں۔ چاتالہویوک کے لوگ صرف چودہ سو سال تک ہی سسٹم چلا سکے۔ اور یہ کوئی جنت کا باغ بھی نہیں تھا۔ کھیتی باڑی کی طرح ہی، شہروں میں رہنے کے اپنے مسائل سامنے آئے۔ ہزاروں انسان، بکریاں، گائیں، بطخیں، سب ایک دوسرے کے انتہائی قریب رہ رہے تھے۔ ایسے میں بیماریوں کے پھیلنے کے لئے بہترین ماحول بن چکا تھا۔ اور آثار بتاتے ہیں کہ تپ دق کی بیماری اسی دور میں پالتو جانوروں سے انسانوں کو لگی۔ انسانوں کی سب سے خطرناک بیماریاں – چیچک، خسرہ، فلو – پہلی دفعہ پالتو جانوروں سے انسانوں میں منتقل ہوئیں۔ شاید اسی وجہ سے ہماری چیتے والی خاتون بھی اتنی کم عمر میں مر گئی۔

کھیتی باڑی اور شہروں میں رہنے کی وجہ سے نئے خطروں نے جنم لیا لیکن اب ہم پھندے میں مکمل طور پر پھنس چکے تھے۔ واپسی کا کوئی راستہ باقی نہیں بچا تھا۔ پوری دنیا میں ہمارے بہت سے آباؤ اجداد خودمختار آبادیوں میں رہ رہے تھے۔ لیکن پھر کس چیز نے ان کو اور بڑے گروہوں میں اکٹھے ہونے پر اکسایا؟

قصہ ایک سیلاب کا

ایک دفعہ پھر جواب کے لئے ہمیں قدرت کے انعامات کے بجائے اسکے قہر کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ پوری دنیا میں لوگ ایک بہت بڑے سیلاب کی کہانی سناتے ہیں اور ایسا لگتا بھی ہے کہ واقعی کچھ ہوا تھا۔ تقریبا چار ہزار سال پہلے دنیا کی کئی اولین تہذیبیں تباہ ہو گئیں۔ ان میں چین کی تہذیب بھی شامل تھی۔ لیکن چین کی خاص بات یہ ہے کہ وہاں آج بھی یہ کہانیاں سنائی جاتی ہیں جن میں شاید کچھ تاریخی حقیقت بھی شامل ہو۔

دنیا کے کئی شہر چار ہزار سال پہلے سیلابوں سے تباہ ہو گئے
دنیا کے کئی شہر چار ہزار سال پہلے سیلابوں سے تباہ ہو گئے

چین کی کہانی میں شروعات اس بڑے سیلاب سے ہوتی ہے۔ قدیم تاریخی دستاویزات کے مطابق، نو سال تک شدید بارشیں ہوئیں جن کی وجہ سے دریائے زرد نے اپنا راستہ بدلا اور تباہی مچا دی۔ دریائے زرد کو چین کا “بڑا غم” بھی کہا جاتا ہے۔ ہزاروں سالوں سے یہ اپنے بند توڑ کر بپھر جاتا ہے اور اسکے راستے میں جو آتا ہے اس کو نیست و نابود کرتا جاتا ہے۔ اس تین ہزار میل لمبے دریا نے برطانیہ سے بھی بڑے علاقے کو زیر آپ کر دیا تھا۔ کہاوتوں کے مطابق ایک سردار نے ایک آدمی، جس کا نام “گُن” تھا، کو ذمہ داری دی کہ کسی طرح دریا کو قابو کرے۔ بہت کچھ داؤ پر تھا۔ اگر گن کامیاب ہوا تو اس کو بہت سی دولت ملنی تھی اور ناکامی کی قیمت اسکو اپنی جان سے چکانی پڑتی۔ اس نے مٹی کے بڑے بڑے ڈیم بنائے لیکن بار بار سیلاب ان کو بہا کر لے جاتا۔ گن اپنے لوگوں اور اپنے آپ کو بچا نہیں پایا۔

باپ کی ذمہ داری بیٹے کے کندھوں پر آ گئی جس کا نام “یُو” تھا۔ قدیم چینی افسانوں کے مطابق یو نے قسم کھائی کہ وہ اپنی حاملہ بیوی کے پاس واپس نہیں آئے گا جب تک دریا کو سدھا نہ لے۔ اس نے دریا کی پوری لمبائی کا سروے کیا۔ اس کٹھن مہم کے دوران اس کو ایک بالکل نیا پلان سوجھا۔ اپنے باپ کی طرح بپھرتے دریا کو روکنے کی کوشش کے بجائے اس نے دریا کو تقسیم کرنے کا منصوبہ بنایا۔ یو نے نہروں کا ایک بہت بڑا جال بنانے کا سوچا۔ سیلاب کے موسم میں یہ نہریں دریا کی طاقت کو تقسیم کر کے اسکی تباہ کاری کو روک سکتی تھیں۔ لیکن یہ ایک بھاری بھرکم منصوبہ تھا۔ ساتھ ہی ساتھ ایک بہت بڑا سفارتی چیلنج بھی تھا کیونکہ ایسا کرنے کے لئے اسکو سینکڑوں مخالف قبیلوں کو اکٹھا کرنا تھا کہ وہ اپنی صدیوں کی عداوتیں ختم کر دیں۔

اولین ریاست کا قیام

ہم زمانہ قبل از تاریخ کی اپنی پرانی طاقت – قبائلیت – کی طرف جا رہے ہیں، جو اب ہماری کمزوری بن گئی تھی۔ اپنے اختلافات بھلا کر اور اکٹھے ہو کر ہی قبیلے دریائے زرد کے مسئلے کو حل کر سکتے تھے۔ یو کا حیران کن منصوبہ شروع ہوا۔ یہ قصہ فسانہ ہو یا حقیقت، لیکن اس دور میں واقعی دریا کو قابو کرنے کی کئی کوششیں ہوئیں۔ کہانی کے مطابق یو اگلے تیرہ سال میں تین دفعہ اپنے گھر کے سامنے سے گزرا لیکن اس نے خود کو قربان کرنے کا عہد یاد رکھا اور اندر نہیں گیا۔ بالاخر نہروں کا یہ عظیم منصوبہ مکمل ہو گیا۔

بارشیں پھر سے آئیں۔ اب یو کے انجینئرنگ کے اس معرکے کا اصل امتحان تھا۔ نہروں نے واقعی سیلاب کا زور توڑ دیا۔ یو کی کہانی ہمیں ایک اہم حقیقت سے روشناس کراتی ہے۔ کہ کیسے قدرتی آفات نے دریاؤں کے کناروں پر رہنے والوں کو یکجا کیا۔ عظیم یو نے دریائے زرد کے قبیلوں کو پہلی دفعہ متحد کیا کیوں کہ وہ ایک حکومت کے تحت یکجا ہو کر ہی اس مسئلے کو حل کر سکتے تھے۔ انعام کے طور پر قبیلے کے سردار نے یو کو اپنا وارث بنا لیا۔ کچھ لوگ کہتے ہیں کہ پہلی چینی بادشاہت کا آغاز اسی سے ہوا۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ چین کی تاریخ دریائے زرد کے کناروں سے شروع ہوتی ہے۔ یو کو آج بھی “عظیم یو” کے نام سے جانا جاتا ہے۔ اور یہ کافی دلچسپ بات ہے کہ چین کا پہلا قومی ہیرو ایک سول انجینئر اور سرکاری ملازم تھا!


مزید پڑھیے – پہلی قسط  –  دوسری قسطتیسری قسطچوتھی قسطپانچویں قسط

تحریر و تخلیق: بی بی سی چیف ایڈیٹر انڈریو مارز
ترجمہ: محمد بلال
انگریزی میں ویڈیو دیکھنے کے لئے

لنک پر کلک کریں

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech