عنوان یہ رکھنے کی وجہ یہ ہوئی کہ میں دو ہزار بائیس کے بارے میں سوچ رہا تھا تو مجھے خیال آیا کہ اب ایک سال مزید گزر چکا ہے۔ گویا یہ سال بھی منزلیں ہیں۔ یعنی ہم صرف تین جہات میں ہی حرکت نہیں کرتے بلکہ ہم وقت کے اعتبار سے بھی سفر میں ہیں۔ جب ہم وقت میں سفر کرتے ہیں تو ہم چاہیں یا نہ چاہیں، ہمارے ادارے بھی مسلسل تبدیل ہو رہے ہیں۔ لیکن نوع انسانی کی عادتوں کی وجہ سے یہ ادارے خود بخود تبدیل نہیں ہو رہے۔ بلکہ لوگوں کے کیے ہوئے فیصلے ان کو تبدیل کرتے ہیں۔

دوسرے الفاظ میں، معاشرتی ڈھانچہ اور سیاسی اور معاشی ادارے جو آج موجود ہیں، وہ اس حالت میں اس لیے ہیں کہ لوگوں نے وہ فیصلے لیے جن کی وجہ سے ہم یہاں اس وقت تک پہنچے ہیں۔ مثال کے طور پر ہم مخروطی احرام کے بجائے فلک بوس عمارتیں بناتے ہیں، ہمارا معاشی نظام لوگوں کی بچت کے بجائے تیل اور ڈالرز پر منحصر ہے، اور اس قسم کے بہت سے معاملات اس لیے اس طرح ہیں کہ لوگوں نے اس حوالے سے فیصلے کیے تھے۔ یہ سب کچھ بے ترتیب اتفاق نہیں ہے۔

یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ یہ سب کچھ قسمت کا لکھا نہیں تھا۔ یہ لازمی نہیں تھا کہ ہمارے موجودہ نظریات، عقائد اور سیاسی نظام بالکل ویسے ہی ہو سکتے تھے جیسے ہیں۔ ہمیں لگتا یہ ہے کہ گویا ہم جیسے کسی دریا میں بہہ رہے ہوں اور اپنی سمت اور اردگرد کے حالات کے حوالے سے بالکل مجبور ہیں۔ لیکن یہ درست نہیں ہے۔ درحقیقت سیاست کے موجود ہونے کی ایک بڑی وجہ ہی یہ ہے۔ سیاست کی ایک تعریف یہ ہے کہ کس کو کیا ملتا ہے اور وہ کس نے دیا ہے۔ لیکن سیاست کی ایک تعریف یہ بھی ہو سکتی ہے کہ سیاست معیشت اور عمومی دنیا کو اپنی مرضی سے تبدیل کرنے کا نام ہے۔

مثال کے طور پر جب فیڈرل ریزرو بینک شرح سود بڑھاتا ہے تو یہ میعشت کو اپنی مرضی سے تبدیل کرنے کی ایک کوشش ہوتی ہے، جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگوں کی نوکریاں ختم ہو جائیں۔ کیونکہ اگر لوگوں کی نوکریاں ختم ہو جائیں گی تو ان کے پاس پیسے نہیں ہوں گے اور جب ان کے پاس پیسے نہیں ہوں گے تو وہ خریداری نہیں کریں گے۔ جب وہ خریداری نہیں کریں گے تو افراط زر (مہنگائی) میں کمی ہو گی۔ مہنگائی کو کم کرنے کے اور بھی طریقے ہو سکتے ہیں لیکن ہماری حکومت اس طریقے کو زیادہ پسند کرتی ہے۔ ہمیں بے روزگاری والا حل پسند ہے۔ کہ اگر افراط زر زیادہ ہے اور اشیا کی قلت ہو رہی ہے تو لوگوں کی نوکریاں ختم کر کے ان کی زندگی تباہ کر دو۔ یعنی یہ معاش اور معاشرت میں ردوبدل کی ایک کوشش ہے۔

میں ایک اور مثال پیش کرتا ہوں جو غیر سیاسی ہے لیکن دلچسپ ہے جس میں لوگوں کی عام زندگی کو تبدیل کر دیا گیا تاکہ ان کا معاشی رویہ بدلا جا سکے۔ تقریبا سوا صدی قبل کوکا کولا اپنی سیل کا حساب کر رہی تھی۔ میرا خیال ہے یہ تب کی بات ہے جب انہوں نے کوکین ملانا چھوڑ دی تھی۔ لیکن نام سے کوکین کا لفظ نہیں نکالا۔ خیر، انہوں نے دیکھا کہ لوگ کوکا کولا گرمیوں میں پیتے ہیں۔ کسی حد تک خزاں میں بھی اور بہار میں بھی لیکن سردیوں میں نہیں۔ تو مارکیٹنگ والے چاہتے تھے کہ کسی طرح لوگوں کو چکر دے کر یا منا کر یا بہلا پھسلا کر یا کسی بھی طرح ذہن سازی کر کے سردیوں میں بھی پینے کو راضی کیا جائے۔ تو ان کو خیال آیا کہ کوکا کولا کو کرسمس کے ساتھ جوڑا جائے۔ اس وقت تک کرسمس کوئی بڑا تہوار نہیں تھا۔ تب ایسٹر زیادہ بڑا تہورا تھا۔ لوگ عیسی (علیہ السلام) کی پیدائس کو یاد رکھنے کے لیے دعوت کا اہتمام کرتے تھے لیکن زیادہ دلچسپ چیز پیدا ہونا نہیں بلکہ قتل کے بعد دوبارہ زندہ ہو کر آنا ہے۔ اسلیے لوگوں کو ایسٹر زیادہ متوجہ کرتا تھا۔

تو کوکا کولا کی مارکیٹنگ ٹیم نے چرچ کے بزرگوں میں ایسا کردار ڈھونڈا جو آفیشل لسٹ سے خارج کیا جانے والا تھا – سانتا کلاز۔ چرچ کو اعتراض تھا کہ اس نے کوئی معجزہ نہیں دکھایا تو اس کو اس کے (روحانی) عہدے سے برخواست کر دو۔ چنانچہ مارکیٹنگ ٹیم نے اس (سینٹ نک) کو پکڑا اور ایک اورکردار کے ساتھ جوڑ دیا۔ کسی کو خیال آیا کہ اس کو کرس کرینگل کے ساتھ ملا دیا جائے جو ایک چور تھا جس کا کام دن میں چمنیاں صاف کرنا تھا۔ وہ اپنے کندھے جوڑوں سے نکال کر چمنی میں فٹ آ جاتا تھا اور رات کو گھر میں گھس کر چوری کر کے اسی راستے سے واپس نکل جاتا تھا۔ گھر والوں کو سمجھ نہیں آتا تھا کہ کوئی اندر کیسے آیا اور باہر کیسے گیا لیکن ان کی چمنیاں صاف ہوتی تھی۔

یوں انہوں نے دونوں کرداروں کو ملا کر کہانی بنا لی، لیکن وقت کے ساتھ سینٹ نک کو کہانی سے نکال دیا۔ وہ عموما تصویروں میں ایک دبلا پتلا نوجوان شخص بنایا جاتا تھا اور اس کے کپڑے سبز اور بھورے ہوتے تھے۔ انہوں نے اس کو کوکا کولا کے سرخ اور سفید رنگ پہنائے۔ اس کی جلد کے رنگ کو بھی سرخی مائل کر دیا گیا تاکہ کوکا کولا کے رنگوں سے میل کھائے۔ اس کو بوڑھا بنا دیا گیا تاکہ بال سفید ہو جائیں۔بوتلوں پر اس کی تصویر ہوتی تھی اور اب بھی کرسمس کے دنوں میں ہوتی ہے۔

لیکن اس سب کے دوران کرسمس کا تہوار بالکل بدل دیا گیا۔ پہلے کرسمس اہم تھی لیکن اس کے ساتھ جذبات وابستہ نہیں تھے۔ لیکن اب وہ ایک پرجوش تہوار بن گیا۔ اور آج ایک عام امریکی کم سے کم کرسمس کو زیادہ اہم تہوار سمجھتا ہے۔ اور اس کی وجہ سے دیگر مذاہب پر بھی پریشر آیا کہ وہ کون سا تہوار منائیں جیسا کہ یہویوں کا تہوار ہنوکا جو پہلے بالکل غیر اہم تھا۔ لیکن اگر آپ کے اردگرد دوسروں کے بچے پرجوش پھر رہے ہیں تو آپ اپنے بچوں کو کیا کہیں گے جب آپ یہودی ہوں اور آپ کے بچے بھی کرسمس ٹری کی خواہش کر رہے ہوں؟ آپ کو کچھ چاہیئے جو اس کا مقابلہ کر سکے۔ تو زیادہ کوکا کولا بیچنے کے لیے انہوں نے مذہب کو بدل دیا، پوری تہذیب کو بدل دیا اور معیشت کو بھی بدل دیا۔

اب سوچیں کہ اگر حکومتیں ان بنیادوں پر سوچنا شروع کر دیں تو کیا کچھ نہیں ممکن؟ اسی کو سیاست کہتے ہیں۔ یعنی سیاست معاشرے کی سمت متعین کرنے کا مکینزم ہے۔

(جاری ہے)

یہ رائے کاساگرانڈا کے موجودہ سیاسی و معاشی نظام کے موضوع پر ایک لیکچر کا ترجمہ ہے۔ مکمل لیکچر یہاں دیکھ سکتے ہیں

Why Did Someone Think This Was a Good Destination (Part 1: The Grand Wealth Redistribution Scheme)

The long awaited Part 1 of this critical series is finally here.

The long awaited Part 1 of this critical series is finally here.

The long awaited Part 1 of this critical series is finally here.

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech