بورنیو کے غار میں دفن ایک انسانی ڈھانچہ دریافت ہوا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ پتھر کے زمانے میں لوگ سرجری بھی جانتے تھے۔ تقریباً 31,000 سال پہلے بورنیو جزیرے کے برساتی جنگلات میں کسی نوجوان کی پتھر کے آلے سے ہڈی کاٹی گئی اور پاؤں الگ کر دیا گیا لیکن اس نوجوان کی جان بچ گئی۔ جدید ترین سرجری کے آلات، اینٹی بائیوٹکس، یا درد کش ادویات کی آمد سے دسیوں ہزار سال پہلے، محققین کو قدیم ترین جراحی کے ثبوت ملے ہیں۔
ڈرہم یونیورسٹی کی ماہر حیاتیات شارلٹ رابرٹس، جو کہ اس کام میں شامل نہیں تھیں، لیکن اس سے واقف تھیں، انکا کہنا ہے کہ جنوب مشرقی ایشیاء میں رہنے والے شکاریوں کی میڈیکل سکلز کافی اچھی تھی۔ اس کے آثار تب ملے جب 2020 میں آسٹریلیا اور انڈونیشیا کے سائنسدانوں کی ایک ٹیم نے مشرقی بورنیو کے ایک دور دراز گھنے جنگلات والے علاقے میں لیانگ ٹیبو نامی غار کے فرش کی کھدائی کی۔ ٹیم ممبر ایرف دراجات پریتنو (Arif Darajat Pritno) جو کہ ایسٹ کلیمانٹن کلچرل ہیریٹیج پرزرویشن سنٹر کی ماہرِ آثار قدیمہ ہیں، کا کہنا تھا کہ اس علاقے میں بالکل کوئی بستیاں نہیں ہیں، ٹیلی فون کے سگنل نہیں ہیں، بجلی نہیں ہے، آبادی کے کوئی آثار نہیں ہیں۔
دوسرے محققین نے اس سے پہلے غار کا معائنہ کیا تھا، جس میں اس کی چونے کے پتھر کی دیواروں اور چھت پر سرخ رنگ کے خاکے والے ہاتھ کے سٹینسل (stencils) اور زگ زیگ ٹھپے (decals) ملے تھے۔ ان پینٹنگز کی تاریخ ابھی تک معلوم نہیں ہے، لیکن قریب ہی دوسری غاروں میں ملنے والے نقوش و نگار جن میں جنگلی چوپایوں اور دیگر جانوروں کی تصویریں ہیں، کم از کم 40,000 سال پرانی ہیں۔ اس کا مطلب ہے کہ یہ لوگ دنیا کے سب سے پرانے مصوروں میں سے تھے۔
بطور ورکر، اندیکا اور دیگر محققین نے غار کے فرش کے ایک حصے کو انچ انچ کھرچتے ہوئے ایک غیر معمولی طور پر محفوظ انسانی ڈھانچہ دریافت کیا جو گھٹنوں کے بل ٹیک لگائے ہوئے تھا۔ اس کے سر اور ہاتھوں کے اوپر پتھر رکھے ہوئے تھے، گویا وہ قبر کے نشانات ہیں۔ ہڈیوں سے اس شخص کی جنس کا تعین نہیں کیا جا سکا لیکن ہم جانتے ہیں کہ جب وہ مر گیا تو اس کی عمر بیس کی دہائی کے اوائل میں تھی۔ ایک قدرتی رنگ کا ٹکڑا اس شخص کے چہرے کے قریب دفن کیا گیا تھا۔ آسٹریلیا میں گریفتھ یونیورسٹی، گولڈ کوسٹ کے ماہر ارضیات اور ماہر آثار قدیمہ، اور اس تحقیق کے سینئر مصنف میکسم اوبرٹ کا کہنا ہے کہ اس سے اشارہ ملتا ہے کہ انھوں نے غار کی دیواروں پر کچھ نشانات بنائے ہوں گے۔
جب ڈھانچہ مکمل طور پر ظاہر ہوا تو محققین نے دیکھا کہ اس کی بائیں ٹانگ کا نچلا حصہ پنڈلی کے وسط سے نیچے کی طرف غائب تھا۔ پنڈلی کی ہڈیاں نچلے حصے میں آپس میں جڑی ہوئی تھیں۔ شریک مصنف میلنڈری ولوک کے مطابق یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ اس شخص کو تکلیف دہ زخم کے بعد مکمل طور پر آرام آ گیا تھا۔ اس دوران پھر ٹیم کے کام کو کرونا وبا کی وجہ سے روکنا پڑا اور ڈھانچہ غار میں ہی چھوڑ دیا گیا۔
اگلے سال جب سائنسدان واپس آئے تو ولوک نے دیکھا کہ ٹانگ کا سرا صاف طور پر سیدھی لکیر میں کاٹا گیا تھا، جس میں کچلنے یا بکھرنے کا کوئی نشان نہیں تھا۔ اگر ہڈی کسی حادثے میں مثلا پتھر کے نیچے کچلے جانے سے ٹوٹی ہوتی یا کسی جانور نے کاٹا ہوتا تو ہڈی بے ترتیب ٹوٹی ہونی چاہیئے تھی۔ اوبرٹ کہتی ہیں، “یہ بالکل ایسے کٹا ہوا ہے جیسے کسی بہت تیز دھار والے آلے سے بالکل عمودی کٹ لگایا گیا ہو۔ اس سے ہمیں یقین ہوا کہ اس ہڈی کی سرجری کی گئی تھی۔” اوبرٹ کا کہنا ہے کہ قدیم سرجن نے ممکنہ طور پر ٹانگ کو کاٹنے کے لیے پتھر یا ہڈی سے بنے آلے کا استعمال کیا تھا گرچہ ابھی تک سائنسدانوں کو ایسا کوئی آلہ نہیں ملا جو ہڈیاں کاٹنے والی آری جیسا ہو۔
محققین نے قبر کے بالکل اوپر اور بالکل نیچے والی مٹی کی تہوں میں کاربن کے ذرات کی ریڈیو کاربن ڈیٹنگ کی مدد سے عمر معلوم کی تو وہ تقریبا اکتیس ہزار سال تھی۔ انہوں نے ایک اور تکنیک کی مدد سے، جسے الیکٹران اسپن ریزوننس ڈیٹنگ کہا جاتا ہے، ڈھانچے کی ایک داڑھ کی عمر براہ راست معلوم کی۔ اس تکنیک سے بھی ڈھانچے کی عمر ریڈیو کاربن ڈیٹنگ والی ہی نکلی۔
ٹیم نے تحقیقی جریدے نیچر میں شائع ہونے والے آرٹیکل میں دعوی کیا ہے کہ اس جزیرے پر ہونے والی دریافت اب تک کی سب سے قدیم کامیاب سرجری کا ثبوت ہے۔ اس سے پہلے، کندھے کے نیچے ایک آدمی کے بازو کی سب سے قدیم تصدیق شدہ سرجری کے شواہد تقریباً 7000 سال پہلے موجودہ دور کے فرانس کے علاقے سے ملے تھے۔
ٹیم یہ نہیں کہہ سکتی کہ قدیم سرجنوں نے بورنیو کے اعضاء کو کیوں کاٹ دیا۔ شاید بیماری یا کسی تکلیف دہ چوٹ کی وجہ سے ایسا کرنا پڑا ہو۔ ولوک کا کہنا ہے کہ پنڈلی کی ہڈیوں کے جڑنے سے یہ اندازہ ہوتا ہے کہ یہ شخص مزید چھے سے نو سال تک زندہ رہا اور بڑھتا رہا۔ موت کی وجہ واضح نہیں ہے۔
ولوک کا کہنا ہے کہ خطے کی استوائی آب و ہوا میں زخم بہت جلد انفیکشن کی وجہ سے خراب ہو جاتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، “ایک بار کھدائی کے دوران غلطی سے میری انگلی کٹ گئی تھی اور مجھے اینٹی بائیوٹک لینے کے لیے جلدی سے ہسپتال جانا پڑا تھا”۔ پرتھ کی یونیورسٹی آف ویسٹرن آسٹریلیا کے ایک شریک مصنف اور ماہر آثار قدیمہ انڈیا دلکس ہال کہتے ہیں کہ زخم کو صاف کرنے کے ساتھ ساتھ درد کو دور کرنے کے بغیر سرجری سے زندہ بچ جاناعملی طور پر ناممکن ہوتا۔ خوش قسمتی سے بورنیو کے جنگلات میں بہت سے مشکل اقسام کے پودے اور درخت پائے جاتے ہیں جو اپنے آپ میں ایک فارمیسی ہیں۔ مثال کے طور پر یہاں پائے جانے والے ایک درخت پینجئم یوڈیل کے زہریلے پھل کو جراثیم کش دوا کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔ انسان اس خطے میں ہزاروں سالوں سے موجود ہیں اور ہو سکتا ہے وہ مقامی پودوں کی طبی خصوصیات کو جانتے ہوں۔
جارج میسن یونیورسٹی کے ماہر بشریات ہیگن کلاؤس، جو اس ٹیم کا حصہ نہیں، تبصرہ کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ “محققین نے بہت اچھے انداز میں اپنی دریافت کی وضاحت کی ہے۔ پیش کردہ معلومات کے مطابق انہوں نے اکتیس ہزار سال پہلے ٹانگ کاٹنے کی مہارت کے جو دلائل پیش کیے ہیں وہ درست معلوم ہوتے ہیں”۔ زیادہ تر سائنسدانوں کے خیال میں اس دور کے انسان کم عقل اور دقیا نوسی تھے تاہم ایسی دریافتوں سے اس خیال کی تردید ہو رہی ہے۔ “یہ واضح ہے کہ ان کی زندگیاں اور رہن سہن ہماری سوچ سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور نفیس تھا اور وہ طب اور انسانی جسم کی ساخت جیسے معاملات بھی بخوبی جانتے تھے”۔