گرد و غبار ہمارے ماحول کو آلودہ کر دیتا ہے جس سے کئی طرح کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔ زیادہ تر گرد و غبار زمین سے اٹھ کر فضا میں جاتا ہے۔ لیکن ایک غبار ایسا بھی ہے جو خلا سے زمین کی طرف آتا ہے۔ مگر یہ اس لحاظ سے فائدہ مند ہے کہ وہ ہماری زمینوں کو زرخیز بناتا ہے۔ لیکن یہ خلائی غبار آتا کہاں سے ہے؟

آپ نے ان راتوں میں جب آسمان صاف ہو، ٹوٹتے ہوئے ستاروں کی لمبی لکیر تو ضرور دیکھی ہو گی، جو ایک جانب سے دوسری طرف تیزی سے لپک کر غائب ہو جاتی ہے۔ مگر ان کی آخری منزل ہماری زمین ہی بنتی ہے۔ وہ ستارے جو ہمیں آسمان پر ٹوٹ کر غائب ہوتے ہوئے نظر آتے ہیں، شہاب ثاقب کہلاتے ہیں۔ اصل میں یہ چھوٹی بڑی چٹانوں کے ٹکڑے ہیں جو خلا میں انجانی سمتوں کی جانب تیزی سے سفر کر رہی ہے۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ اکثر شہابیئے ان ستاروں کے ٹکڑے ہیں جو کسی وجہ سے تباہ ہونے کے بعد بکھر گئے۔ ان ٹکڑوں کی کوئی منزل نہیں ہوتی۔ جب وہ ہمارے کرہ ارض کے قریب آتے ہیں تو زمین کی کشش انہیں اپنی جانب کھینچ لیتی ہے۔ تیزی سے زمین کی جانب بڑھتے ہوئے جب وہ کرہ ہوائی سے گزرتے ہیں تو ہوا کی رگڑ سے جل کر راکھ بن جاتے ہیں۔

فضا میں تیرتی ہوئی یہ راکھ آہستہ آہستہ زمین پر گر جاتی ہے۔ ماہرین فلکیات کا اندازہ ہے کہ ہر سال تقریباً 40 ہزار ٹن راکھ زمین پر گرتی ہے۔ اس راکھ میں کئی معدنیات اور مرکبات ہوتے ہیں جو زمین کی زرخیزی میں اضافہ کرتے ہیں۔ ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کوئی شہابیہ ہی زمین پر آ گرے۔ تاہم, اگر ان کا حجم بہت زیادہ ہو تو اس کے وہ حصے زمین پر گر جاتے ہیں جو جلنے سے بچ جائیں۔ شہابیوں کے گرنے سے نقصان کا اطلاعات بہت کم آتی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ 60 فی صد کے لگ بھگ شہابیئے قطبی علاقوں میں گرتے ہیں جہاں آبادی نہیں ہے، جب کہ بقیہ 40 فی صد کا زیادہ تر حصہ سمندر برد ہو جاتا ہے۔ تاریخ میں ایسے واقعات بھی ملتے ہیں جن میں بڑے سائز کے شہابیئے زمین پر گرے اور بڑے پیمانے پر نقصان بھی ہوا۔ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زمین پر سب سے بڑا شہابیہ 6 کروڑ 30 لاکھ سال پہلے گرا تھا جس نے ڈائنوسار کی نسل کا خاتمہ کر دیا تھا۔

سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ زمین پر کم از کم چھ ایسے شہابیئے موجود ہیں جن کاوزن کئی ٹن ہے۔ ان میں سے ایک شہابیہ نیویارک کے نیچرل ہسٹری میوزیم میں رکھا ہے جس کا وزن 34 ہزار پونڈ ہے۔ سائنس دانوں کے مطابق اب تک دریافت ہونے والا زمین پر موجود سب سے وزنی شہانیئے کا نام ہوبا ہے۔ اس کا وزن 60 ٹن ہے اور یہ ارجنٹائن میں ہے اور یہ 10 ہزار سال پہلے زمین پر گرا تھا۔ عموماً زمین پر گرنے والے شہابیئے پچاس گرام سے 10 کلوگرام تک وزنی ہوتے ہیں۔ اس سے بڑے شہابیئے شاذ و نادر ہی گرتے ہیں۔

زمین پر گرنے والے شہابیوں میں سے ہر سال صرف آدھ درجن شہابیئے ہی سائنس دانوں کے ہاتھ آتے ہیں جب کہ باقی یا تو سمندر میں گر جاتے ہیں یا ان کی منزل ایسے علاقے بنتے ہیں جہاں تک رسائی بہت مشکل ہے۔ جو شہابیئے زمین پر نہیں پہنچ پاتے اور ہمارے فضائی کرے میں جل کر راکھ ہو جاتے ہیں ان کے ذرات رفتہ رفتہ زمین پر گر جاتے ہیں۔ یہ فضائی راکھ کی خاصی بڑی مقدار ہوتی ہے اور محتاط تخمینوں کے مطابق اس کا سالانہ وزن 40 ہزار ٹن ہے۔