آج بات کرتے ہیں ہمارے معاشرے کی سائنس سے بیزاری اور الرجی کی ۔ آج کل کہیں تو سائنس کو مذہب کے خلاف تصور کرتے ہوئے بالکل ہی رد کر دیا جاتا ہے تو کہیں اس کو حرفِ آخر  اور پتھر پر لکیر سمجھ لیا جاتا ہے۔

یورپ کی نشاط  ثانیہ میں کلیسا نے ولن کا جو کردار ادا کیا اس کے ردعمل میں وہاں مذہب کو سائنس سے جدا گردانا گیا اور یہ تصور راسخ ہوا کہ اہل مذہب تنگ نظری اور قدامت پرستی  کا  شکار ہیں اور اسی پر استدلال کرتے ہوئے مذہب کو عمومی طور پر سائنس مخالف  تسلیم کر لیا گیا۔  اس مغالطہ کو تقویت کلیسا کے  غلط طرز عمل نے پہنچائی ۔ لیکن اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اس کے برعکس آپ کو کئی ایسی مثالیں مل جائیں گی جہاں اہلِ مذہب نے سائنس میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ سب سے مشہور  جابر بن حیان کو کون  نہیں جانتا، ہم سب نے اپنی میٹرک اور انٹر کی کتابوں میں ان کا ذکر پڑھ رکھا ہے،  امام جعفر صادق ؒ  کی شاگردی میں ہوتے ہوئے  انہیں یا ان کے استاد کو سائنس سے کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ اسی طرح  گریگر مینڈل  کے نام سے کونسا طالب علم ہوگا  جو واقف نہ ہوگا، والدین سے بچوں میں جنیاتی وراثت کی منتقلی پر  سب سے پہلے اور مفصل کام کرنے والا شخص کوئی یونیورسٹی کا گریجویٹ نہیں بلکہ آسٹریا  کا ایک راہب تھا۔  یہ دو تو وہ شخصیات ہیں جن کو دنیا کی اکثریت جانتی ہے  اور ان کے کام سے واقف ہے

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہلاکو خان کے ہاتھوں سقوط ِ بغداد سے پہلے تک کے مسلمان علماء، اشرافیہ اور عوام کیوں سائنس کے حوالے سے ایسی بے نظیر وسعتِ قلب کے مالک تھے کہ یورپ، ہندوستان،  چین جہاں سے بھی انہیں کوئی کتاب ملی نہ صرف اس کو محفوظ کیا  بلکہ اس کا ترجمہ کر کے اس کی شرحیں لکھیں اور اس موضوع کو مزید آگے بڑھایا اور تیرھویں صدی عیسوی کے بعد ایسی کون سی تبدیلی آئی جس نے امتِ مسلمہ کو مجموعی ذہنی جمود کا شکار بنا دیا ؟

اس قدر درخشاں تاریخ کے باوجود آج کل کے عالم ِاسلام میں کیوں مذہب اور سائنس باہم دست و گریباں ہیں اور آج کل کیوں نیوٹن، آئین  سٹائن  یا اسٹیفن ہاکنگ کے پائے کا کوئی بڑا سائنسدان عالمِ  اسلام میں پیدا نہیں ہو رہا ہے؟

پاکستان میں سائنس سے بیزاری کیوں

 

آج بات کرتے ہیں ہمارے معاشرے کی سائنس سے بیزاری اور الرجی کی ۔ آج کل کہیں تو سائنس کو مذہب کے خلاف تصور کرتے ہوئے بالکل ہی رد کر دیا جاتا ہے تو کہیں اس کو حرفِ آخر  اور پتھر پر لکیر سمجھ لیا جاتا ہے۔

یورپ کی نشاط  ثانیہ میں کلیسا نے ولن کا جو کردار ادا کیا اس کے ردعمل میں وہاں مذہب کو سائنس سے جدا گردانا گیا اور یہ تصور راسخ ہوا کہ اہل مذہب تنگ نظری اور قدامت پرستی  کا  شکار ہیں اور اسی پر استدلال کرتے ہوئے مذہب کو عمومی طور پر سائنس مخالف  تسلیم کر لیا گیا۔  اس مغالطہ کو تقویت کلیسا کے  غلط طرز عمل نے پہنچائی ۔ لیکن اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اس کے برعکس آپ کو کئی ایسی مثالیں مل جائیں گی جہاں اہلِ مذہب نے سائنس میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ سب سے مشہور  جابر بن حیان کو کون  نہیں جانتا، ہم سب نے اپنی میٹرک اور انٹر کی کتابوں میں ان کا ذکر پڑھ رکھا ہے،  امام جعفر صادق ؒ  کی شاگردی میں ہوتے ہوئے  انہیں یا ان کے استاد کو سائنس سے کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ اسی طرح  گریگر مینڈل  کے نام سے کونسا طالب علم ہوگا  جو واقف نہ ہوگا، والدین سے بچوں میں جنیاتی وراثت کی منتقلی پر  سب سے پہلے اور مفصل کام کرنے والا شخص کوئی یونیورسٹی کا گریجویٹ نہیں بلکہ آسٹریا  کا ایک راہب تھا۔  یہ دو تو وہ شخصیات ہیں جن کو دنیا کی اکثریت جانتی ہے  اور ان کے کام سے واقف ہے

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہلاکو خان کے ہاتھوں سقوط ِ بغداد سے پہلے تک کے مسلمان علماء، اشرافیہ اور عوام کیوں سائنس کے حوالے سے ایسی بے نظیر وسعتِ قلب کے مالک تھے کہ یورپ، ہندوستان،  چین جہاں سے بھی انہیں کوئی کتاب ملی نہ صرف اس کو محفوظ کیا  بلکہ اس کا ترجمہ کر کے اس کی شرحیں لکھیں اور اس موضوع کو مزید آگے بڑھایا اور تیرھویں صدی عیسوی کے بعد ایسی کون سی تبدیلی آئی جس نے امتِ مسلمہ کو مجموعی ذہنی جمود کا شکار بنا دیا ؟

اس قدر درخشاں تاریخ کے باوجود آج کل کے عالم ِاسلام میں کیوں مذہب اور سائنس باہم دست و گریباں ہیں اور آج کل کیوں نیوٹن، آئین  سٹائن  یا اسٹیفن ہاکنگ کے پائے کا کوئی بڑا سائنسدان عالمِ  اسلام میں پیدا نہیں ہو رہا ہے؟

آج بات کرتے ہیں ہمارے معاشرے کی سائنس سے بیزاری اور الرجی کی ۔ آج کل کہیں تو سائنس کو مذہب کے خلاف تصور کرتے ہوئے بالکل ہی رد کر دیا جاتا ہے تو کہیں اس کو حرفِ آخر  اور پتھر پر لکیر سمجھ لیا جاتا ہے۔

یورپ کی نشاط  ثانیہ میں کلیسا نے ولن کا جو کردار ادا کیا اس کے ردعمل میں وہاں مذہب کو سائنس سے جدا گردانا گیا اور یہ تصور راسخ ہوا کہ اہل مذہب تنگ نظری اور قدامت پرستی  کا  شکار ہیں اور اسی پر استدلال کرتے ہوئے مذہب کو عمومی طور پر سائنس مخالف  تسلیم کر لیا گیا۔  اس مغالطہ کو تقویت کلیسا کے  غلط طرز عمل نے پہنچائی ۔ لیکن اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اس کے برعکس آپ کو کئی ایسی مثالیں مل جائیں گی جہاں اہلِ مذہب نے سائنس میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ سب سے مشہور  جابر بن حیان کو کون  نہیں جانتا، ہم سب نے اپنی میٹرک اور انٹر کی کتابوں میں ان کا ذکر پڑھ رکھا ہے،  امام جعفر صادق ؒ  کی شاگردی میں ہوتے ہوئے  انہیں یا ان کے استاد کو سائنس سے کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ اسی طرح  گریگر مینڈل  کے نام سے کونسا طالب علم ہوگا  جو واقف نہ ہوگا، والدین سے بچوں میں جنیاتی وراثت کی منتقلی پر  سب سے پہلے اور مفصل کام کرنے والا شخص کوئی یونیورسٹی کا گریجویٹ نہیں بلکہ آسٹریا  کا ایک راہب تھا۔  یہ دو تو وہ شخصیات ہیں جن کو دنیا کی اکثریت جانتی ہے  اور ان کے کام سے واقف ہے

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہلاکو خان کے ہاتھوں سقوط ِ بغداد سے پہلے تک کے مسلمان علماء، اشرافیہ اور عوام کیوں سائنس کے حوالے سے ایسی بے نظیر وسعتِ قلب کے مالک تھے کہ یورپ، ہندوستان،  چین جہاں سے بھی انہیں کوئی کتاب ملی نہ صرف اس کو محفوظ کیا  بلکہ اس کا ترجمہ کر کے اس کی شرحیں لکھیں اور اس موضوع کو مزید آگے بڑھایا اور تیرھویں صدی عیسوی کے بعد ایسی کون سی تبدیلی آئی جس نے امتِ مسلمہ کو مجموعی ذہنی جمود کا شکار بنا دیا ؟

اس قدر درخشاں تاریخ کے باوجود آج کل کے عالم ِاسلام میں کیوں مذہب اور سائنس باہم دست و گریباں ہیں اور آج کل کیوں نیوٹن، آئین  سٹائن  یا اسٹیفن ہاکنگ کے پائے کا کوئی بڑا سائنسدان عالمِ  اسلام میں پیدا نہیں ہو رہا ہے؟

آج بات کرتے ہیں ہمارے معاشرے کی سائنس سے بیزاری اور الرجی کی ۔ آج کل کہیں تو سائنس کو مذہب کے خلاف تصور کرتے ہوئے بالکل ہی رد کر دیا جاتا ہے تو کہیں اس کو حرفِ آخر  اور پتھر پر لکیر سمجھ لیا جاتا ہے۔

یورپ کی نشاط  ثانیہ میں کلیسا نے ولن کا جو کردار ادا کیا اس کے ردعمل میں وہاں مذہب کو سائنس سے جدا گردانا گیا اور یہ تصور راسخ ہوا کہ اہل مذہب تنگ نظری اور قدامت پرستی  کا  شکار ہیں اور اسی پر استدلال کرتے ہوئے مذہب کو عمومی طور پر سائنس مخالف  تسلیم کر لیا گیا۔  اس مغالطہ کو تقویت کلیسا کے  غلط طرز عمل نے پہنچائی ۔ لیکن اگر تاریخ کا مطالعہ کیا جائے تو اس کے برعکس آپ کو کئی ایسی مثالیں مل جائیں گی جہاں اہلِ مذہب نے سائنس میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ سب سے مشہور  جابر بن حیان کو کون  نہیں جانتا، ہم سب نے اپنی میٹرک اور انٹر کی کتابوں میں ان کا ذکر پڑھ رکھا ہے،  امام جعفر صادق ؒ  کی شاگردی میں ہوتے ہوئے  انہیں یا ان کے استاد کو سائنس سے کوئی مسئلہ نہیں ہوا۔ اسی طرح  گریگر مینڈل  کے نام سے کونسا طالب علم ہوگا  جو واقف نہ ہوگا، والدین سے بچوں میں جنیاتی وراثت کی منتقلی پر  سب سے پہلے اور مفصل کام کرنے والا شخص کوئی یونیورسٹی کا گریجویٹ نہیں بلکہ آسٹریا  کا ایک راہب تھا۔  یہ دو تو وہ شخصیات ہیں جن کو دنیا کی اکثریت جانتی ہے  اور ان کے کام سے واقف ہے

سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ہلاکو خان کے ہاتھوں سقوط ِ بغداد سے پہلے تک کے مسلمان علماء، اشرافیہ اور عوام کیوں سائنس کے حوالے سے ایسی بے نظیر وسعتِ قلب کے مالک تھے کہ یورپ، ہندوستان،  چین جہاں سے بھی انہیں کوئی کتاب ملی نہ صرف اس کو محفوظ کیا  بلکہ اس کا ترجمہ کر کے اس کی شرحیں لکھیں اور اس موضوع کو مزید آگے بڑھایا اور تیرھویں صدی عیسوی کے بعد ایسی کون سی تبدیلی آئی جس نے امتِ مسلمہ کو مجموعی ذہنی جمود کا شکار بنا دیا ؟

اس قدر درخشاں تاریخ کے باوجود آج کل کے عالم ِاسلام میں کیوں مذہب اور سائنس باہم دست و گریباں ہیں اور آج کل کیوں نیوٹن، آئین  سٹائن  یا اسٹیفن ہاکنگ کے پائے کا کوئی بڑا سائنسدان عالمِ  اسلام میں پیدا نہیں ہو رہا ہے؟

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech