اس وقت جب کہ میں یہ سطور تحریر کر رہا ہوں، مسجد قاسم علی خان کی جانب سے کل خیبر پختونخوا کے علاقوں میں تیسویں روزے کا اعلان کیا گیا ہے، کیونکہ ماہِ شوال کا چاند نظر نہیں آسکا اور نہ ہی کوئی شہادت موصول ہوئی۔ چاند کے نہ نظر آنے کی ایک ٹھوس وجہ ہے کیونکہ آج مورخہ 22 مئی کو پاکستانی وقت کے مطابق رات دس بجے نئے چاند کی پیدائش ہونی تھی جو کہ تادمِ تحریر ہو رہی ہے۔
یہ عید اور چاند کا مسئلہ کوئی آج کا تو ہے نہیں آپ لوگوں نے فیسبک وغیرہ پہ 1950 کی دہائی کے اخباری تراشوں کی تصاویر دیکھی ہوں گی جن میں پشاور (و ملحقہ علاقوں) میں باقی ملک سے ایک دن پہلے عید کی خبر دی گئی تھی۔
ان امور سے قطع نظر کہ کیا وجہ ہے کیوں گزشتہ ستر برسوں سے ایک آزاد ملک میں رہنے والے ایک عقیدے ایک مسلک کے ماننے والے مسلمان ایک چاند کا مسئلہ حل نہیں کر سکے ہیں، اس کے محرکات کیا ہیں، اس مسئلے کے حل کے لئے حکومتی سطح پہ کتنی سنجیدگی موجود ہے اور علماء کرام جن کے درمیان یہ مسئلہ موجود ہے وہ ساری امت کو اتحاد و یگانگت کا درس دیتے دیتے خود اس کا عملی مظاہرہ کرنے میں ناکام کیوں ہیں۔ آئیے حل کی بات کرتے ہیں، یہ حل گزشتہ برس بھی اپنے ایک بلاگ میں تحریر کیا تھا اور اب دوبارہ پیشِ خدمت ہے:
اس ضمن میں مسلہ کی اصل جڑ روئیتِ ہلال کی شہادت کی سچائی اور قبولیت کا معیار ہے۔ مرکزی روئیتِ ہلال کمیٹی، مسجد قاسم علی خان کو موصول ہونے والی شہادتوں کو تکنیکی بنیاد پر ناقابلِ اعتبار سمجھتی ہے کیوں کہ اکثر یہ شہادتیں ایسے مقامات اور اوقات میں دی جاتی ہیں جہاں سائنس اور ٹیکنالوجی کے حساب سے روئیت ممکن ہی نہیں ہوتی۔
میرے خیال میں وزیر ِ سائنس اور ٹیکنالوجی جناب فواد چودہری صاحب کے لئے وفاقی روئیت ہلال کمیٹی کے ساتھ الجھنے سے زیادہ ضروری اس شہادت والے معاملے کو حل کرنے کی کوشش ہونی چاہئے ۔ انھیں ایک ایسا نظام وضح کرنا چاہیئے جو کہ ہلال کی روئیت کوذیادہ بہتر طریقے سے ڈاکومنٹ کر سکے۔ ایک ایسا پورٹل یا ایپ بنائی جانی چاہیے جو کہ روئیت کو ناصرف تصویری شکل میں ریکارڈ کر سکے مگر ساتھ ساتھ اس سے متعلق دیگر چیزوں کو جیسے کہ چاند دیکھنے کا وقت، جگہ کے صحیح کوارڈینیٹس (عرض بلد، طول بلد)، چاندکی عمر اور اس کا زاویہ وغیرہ بھی ریکارڈ کرے ۔ یہ ایپ اینڈرائڈ اور دیگر ایپ سٹورز پر میسر ہو اور حکومت آئندہ سے روئیت کے لئے صرف اس پورٹل یا ایپ کے زریعے سے ہی دی گئی شہادت کو معتبر مانے۔ مطعلقہ ماہرین کی مدد سے اس ایپ یا پورٹل میں اس چیز کا خیال رکھا جا سکتا ہے کہ جن علاقوں میں جس وقت تک روئیت کے قابل نا ہو وہاں کی شہادتیں نشان زدہ (مارک یا فلیگ) کردی جائیں اور ان کا زیادہ غور و تفصیل سے جائزہ لیا جائے۔ ایسی شہادتوں کا جائزہ سائنسی بنیاد پر لیا جانا چاہئے کیونکہ سائنس کبھی خود کو حرفِ آخر نہیں مانتا اور ہمہ وقت اپنے نظام اور طریقہ کار کے اندر موجود غلطیوں کی نشاندہی اور اس کی تصحیح میں مصروف عمل رہتا ہے۔ عین ممکن ہے کہ ان شہادتوں کے تفصیلی تجزئے کی بنیاد پر پاکستانی ماہرین پوری اسلامی دنیا کے لئے زیادہ بہتر نظام فراہم کر سکیں۔
اس ناچیز کی رائے میں یہ نظام نا صرف لاکھوں لوگوں کی روزے اور قربانی جیسی اہم عبادت کو ضائع ہونے سے بچا سکتا ہے اور ایک ایسی مثال بھی بننے کی مکمل صلاحیت رکھتا ہے جو کہ دنیا بھر میں پاکستان کی نیک نامی کا سبب ہو۔
اور ہاں فواد چودھری صاحب کی ٹوئیٹوں سے پریشان/متفکر/رنجیدہ مذہبی طبقہ فکر اور ان کی رہنمائی کرتے علماء کرام کو اس چیز کا ادراک ہو جانا چاہئیے کہ ان کی نا اتفاقی کے باعث ہی آج وزیر موصوف کو یہ موقع ملا ہے کہ وہ شریعیت کی من مانی تشریح کر سکیں، اگر آپ نے اس مسئلہ کے حل کے لئے سنجیدگی کا مظاہرہ نہیں کیا تو آنے والے دنوں میں شائد آپ کہیں اپنا یہ حق بھی کھو نہ بیٹھیں۔