کسی بھی مسلمان کی زندگی میں حلال اور حرام کی تمیز ایک بنیادی اہمیت کی حامل ہوتی ہے، خصوصاً کھانے پینے کے معاملے میں۔
آج سے چند برس قبل تک غذا کے حوالے سے حرام حلال کے مسائل غیر مسلم ممالک میں بسنے والے مسلمانوں کو درپیش تھے، مگر آج کی عالمگیر دنیا میں جہاں دنیا بھر کے برانڈز آپ کے گھر کی دہلیز پر میسر ہیں، وہیں پروسیسڈ فوڈز، ان کے اجزا وغیرہ کے بارے میں حلال و حرام کی تشویش بڑھنا ایک قدرتی امر ہے۔
یہی سبب ہے کہ عالمی ’’حلال‘‘ تجارت کا حجم کھربوں ڈالر سالانہ میں ہے کہ جو صرف غذا تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ میک اپ کے لوازمات سے لے کر ادویہ و فیشن تک پھیل چکی ہے۔ یہ تجارت محض مغرب میں آباد مسلمانوں کی ضروریات کو مدِنظر نہیں رکھتی، بلکہ اسلامی ممالک میں آباد ڈیڑھ ارب سے زائد مسلمانوں کو اپنے صارفین کے طور پر دیکھتی ہے اور تمام تر اسلامی ممالک کو ایک بڑی منڈی کے طور پر ٹارگٹ کرتی ہے۔ حلال اشیا کی تجارت ایک گلوبل برانڈ کی شکل اختیار کرتی جارہی ہے لیکن اس وقت حلال اشیا کو لیڈ کرنے والے تقریباً سارے ہی ممالک غیر مسلم ہیں۔
آج کی دنیا میں ایک طرف تو صنعتی ترقی نے شدت کے ساتھ کمرشل ازم اور منافع خوری کو شہ دی، وہیں دوسری جانب صحت مند اور آرگینک غذا کی طلب میں بھی واضح اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ لوگوں میں غذا اور صحت سے متعلق شعور کی بیداری کے بعد صنعتی پیمانے پر تیار شدہ پروسیسڈ فوڈز میں استعمال ہونے والے کیمیکلز اور ان کے مضر اثرات سے بچاؤ کی خاطر آرگینک فارمنگ کا بڑھتا رجحان نئے مواقع فراہم کرتا نظر آتا ہے۔ صحت افزا غذا کی جستجو میں پاکستان اور دیگر اسلامی ممالک کےلیے ایک نادر موقع ہے کہ وہ اسلامی اصولوں کے مطابق حلال غذا کو بطور ایک صحت بخش متبادل پیش کرتے ہوئے اس عالمی تجارت کا فائدہ اٹھا سکیں۔
مگر یہ سب کرنے سے پہلے ہمیں یہ جاننے کی ضرورت ہے کہ حلال ہے کیا اور آج کے زمانے میں جہاں تمام کے تمام صنعتی پروسیس مغرب میں ترتیب دیئے گئے ہیں، کیا وہ حلال کی تعریف پر پورے اترتے بھی ہیں یا نہیں؟ شریعت میں حلال و حرام سے متعلق رہنما اصول موجود ہیں۔ ان اصولوں کی روشنی میں ہم ذبیحہ سے لے کر پروسیسڈ خوردنی مصنوعات کو جانچ سکتے ہیں، وہیں ہم جینیاتی ترمیم شدہ غذاؤں (جینیٹکلی موڈیفائیڈ فوڈز) کو بھی پرکھ سکتے ہیں۔
حلال غذا کی ایک لازمی خصوصیت اس کا ’’طیّب‘‘ ہونا ہے۔ جیسا کہ سورۃ البقرہ کی 168 ویں آیتِ مبارکہ میں مذکور ہے: (ترجمہ) ’’اے لوگو! ان چیزوں میں سے کھاؤ جو زمین میں حلال پاکیزہ ہیں، اور شیطان کے قدموں کی پیروی نہ کرو، بے شک وہ تمہارا صریح دشمن ہے۔‘‘ یعنی یہاں اللہ تعالیٰ تمام بنی نوع انسان (نہ کہ تمام مسلمانوں) سے مخاطب ہوکر حلال اور پاک چیزیں کھانے کا حکم دیتے ہیں۔ کسی بھی کھانے پینے کے قابل چیز کےلیے عائد یہ ’’طیّب‘‘ کی شرط جہاں مسلمانوں کو کھانے پینے کے معاملے میں سنجیدگی سے غور کرنے پر راغب کرتی ہے، وہیں یہ ایک بہترین معاشی موقع بھی فراہم کرتی ہے کہ ہم دنیا بھر کےلیے حلال غذا کو ایک صحت بخش و صحت افزا برانڈ کے طور پر متعارف کروائیں۔
او آئی سی کے مرتب کردہ حلال فوڈ اسٹینڈرڈز میں جہاں ذبیحہ اور دیگر شرائط درج ہیں، وہیں ساتھ کسی بھی چیز کا طیّب ہونا بھی لازمی قرار دیا گیا ہے۔ کسی بھی ایسی چیز کو حلال قرار نہیں دیا جاسکتا جو انسانی صحت کےلیے کسی بھی شکل میں نقصان دہ ہو، خواہ وہ بذاتِ خود حلال ہی کیوں نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ ذبیحہ کےلیے بھی حلال جانور کا صحت مند اور بیماریوں سے پاک ہونا ضروری ہے۔
حلال اشیا کی عالمی سطح پر مناسب مارکیٹنگ ایک طرف تو اسلاموفوبیا کا توڑ کرنے کا ایک مثبت ذریعہ ثابت ہوسکتی ہے تو دوسری طرف پاکستان جیسے معاشی مشکلات کے شکار اسلامی ممالک کو اپنی ان مشکلات سے چھٹکارا حاصل کرنے میں بھی مدد دے سکتی ہے۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ اسلامی ممالک اپنے زرعی، انتظامی اور صنعتی ڈھانچوں کو جتنی جلدی ہوسکے بین الاقوامی اور او آئی سی کے معیارات کے مطابق ڈھال لیں ورنہ کہیں ایسا نہ ہو کہ آنے والے کسی برسوں میں ہم چین، بھارت یا تھائی لینڈ سے درآمد شدہ ’’حلال گوشت‘‘ کھا رہے ہوں۔