سر راہ چلتے چلتے ایک پیاری سی لڑکی سے ملاقات ہوئی پانچ چھ سال پہلے طلاق ہو گئی تھی۔ عمر صرف تیئیس سال تھی جب طلاق ہوئی۔ مجھ سے دو سال پہلے ملاقات ہوئی باتیں ہونے لگیں انہوں نے بتایا کہ شادی کسی نے کرائی یہ معلوم نا تھا کہ لڑکے کی والدہ زبردستی اپنی مرضی کر رہی ہے اور لڑکا کہیں اور شادی کرنا چاہتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ شادی کر کے جانے والا شوہر واپس نا آیا اور بیٹے کی پیدائش کے بعد طلاق نامہ بھیج دیا۔
اب وہ شادی کرنا چاہتی تھی عمر صرف ستائیس سال تھی لیکن والدین تو جیسے اب شادی کے نام سے ڈر گئے تھے سو بیٹی کی دوبارہ شادی کرنے کا تو جیسے سوچنا بھی گناہ سمجھتے تھے۔ میں ٹھہری فطرت سے مجبور کوئی اپنا مسلہ بتا دے تو اسے حل کرنے کی طرف ساری سوچ اور قوت صرف کر دینے والی یہ قسمت کی بات ہے کہ اپنا دکھ جس کو بتایا چاہے کوئی کتنا بھی معتبر لگا بدلے میں ہمیشہ جان چھڑانے والا رویہ ملا۔ خیر میں نے ان خاتون کا نمبر لے لیا اور ان کے لیے رشتہ کی تلاش شروع کر دی۔
اتنے میں کہیں سے ایک ایسے شخص کے لیے رشتہ ڈھونڈنے کی بات سنی جن کی شادی کو آٹھ سال سے زائد ہو گئے تھے، اولاد نا ہوئی۔ بیگم نے ہر طرح کا علاج کرا کے نا امید ہو کے دوسری شادی کی اجازت دے دی۔ ان خاتون اور ان صاحب کی بات چلائی گئی دونوں نے ایک دوسرے کو پسند کر لیا اب معاملہ لڑکی کے والدین سے بات کرنے کا تھا جو بیٹی کی شادی میں دلچسپی نا رکھتے تھے۔
ان صاحب نے انکل کو فون کیا بہت اچھے سے بات کی انکل نے انہیں ٹال دیا لیکن گھر میں بیٹی کو خوب سنائی نتیجتا لڑکی نے ہار مان لی۔ ایک سال کا عرصہ بیت گیا میری اس لڑکی سے پھر ملاقات ہوئی اس کی زندگی کا کرب دکھ دیکھ کر پھر میں تڑپ اٹھی پھر ان خاتون کو کہا کہ والدین کو سمجھاؤ کسی خاندان کے بندے یا کسی دوست کو درمیان میں ڈالو انہیں احساس تو دلاو کہ تم شادی کرنا چاہتی ہو ضرورت ہے۔
کیونکہ وہ مالی طور پہ پریشان تھی اور یہ بتاتے رو پڑتی تھی کہ کس طرح جاب کے دوران اسے معاشرے کے درندوں سے واسطہ پڑتا ہے۔ پتا نہیں بیٹیوں کی شادی سے آنکھیں چرا لینے والے والدین کیوں نہیں سمجھتے کہ اس معاشرے میں قدم قدم پہ شیطان کھڑے ہیں ایسے میں پاک دامن رہنے والی عورت یقینا ولی اللہ ہے۔
ان صاحب سے رابطہ کیا گیا انہوں نے دوبارہ ان کے والد کو قائل کرنا چاہا۔ والد نے کہا ہم غریب سے لوگ ہیں۔ ان صاحب نے کہا میں بیٹا بن کے آپ کی خدمت کرونگا اب والد چونکہ جان گئے کہ یہ بندہ تو مخلص ہے لیکن شاید اکلوتی اولاد اور اپنا گھر کسی غیر کی طرف جاتا برداشت نہیں تھا سو انکار کر دیا۔ بیٹی سے بھی خاصی تلخی ہوئی۔
لیکن والدین کو احساس دلانے میں میں کامیاب ہو چکی تھی سو دو ماہ بعد ان خاتون کے نکاح کی اطلاع ملی تو بے حد خوشی ہوئی اور چند ماہ پہلے ان کی بیٹی ہوئی ہے۔
اب سنئیے اصل قصہ ایک ہفتہ پہلے انہی صاحب کی وائف سے ملاقات ہوئی ایک آٹھ ماہ کی بچی گود میں تھی پوچھا یہ بچی آپ نے گود لی مسکرائی اور کہنے لگی نہیں اللہ نے مجھے اولاد سے نوازا ہے۔ پری میچور برتھ ہے لیکن اب ماشاء اللہ صحت مند ہے ۔
میں ایک ہفتے سے اس رب تعالی کی پلاننگ پہ حیران ہو رہی ہوں۔ والدین میں احساس بیدار کرنے کے لیے اور ان صاحب کے دل میں تڑپ بیدار کرنے کے لیے رب تعالی درمیان میں مجھے لائے۔ ان صاحب کی وائف کی قربانی اور ان صاحب کی نیک نیتی کا صلہ انہیں عطا ہوا اور بار بار وہ آیت دماغ میں گونجتی ہے
ان اللہ مع الصابرین ۔
اور پھر فرمایا
وبشر الصابرین ۔
یعنی صبر کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو