عوام کے ذہنوں میں اپنا نام بنائے رکھنے کے لیے کمپنیاں کیا کیا جتن کرتی ہیں اس کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ ایپل کی طرف سے ہالی ووڈ کو کھلی آفر ہے کہ ہر فلم میں تمام ایکٹرز کے لیے مفت آئی فونز دیے جائیں گے۔ تاہم اس کے بدلے میں وہ فلم بنانے والوں سے یہ عہد کرواتے ہیں کہ ولن کے ہاتھ میں ایپل کا فون نہیں ہو گا۔ گرچہ ایسا کرنے میں کوئی قانونی قدغن نہیں ہے لیکن پھر بھی آپ عموما ہالی ووڈ کی فلموں میں ولن کے ہاتھ میں ایپل کا فون نہیں دیکھیں گے۔
اس کی دوسری مثال اس سے بھی زیادہ بڑی ہے۔ اپنا اچھا امیج بنانے کے لیے اس را ایل دنیا بھر میں سوشل میڈیا انفلوئنسرز، میڈیا پرسنیلٹیز، میڈیا آرگنائزیشنز اور کمپنیوں پر پیسہ پانی کی طرح بہاتا ہے۔ عوام میں اپنی قدر بنانے پر شاید سب سے زیادہ ریسرچ انہوں نے ہی کی ہے یہاں تک کہ وہ تمام میڈیا آرگنائزیشنز کو ہدایات جاری کرتے ہیں کہ ان کے نام کے ساتھ کون کون سے الفاظ لکھے یا بولے جا سکتے ہیں اور کون سے نہیں۔ چنانچہ آپ خماس کی طرف سے ہونے والے قتل عام کی جھوٹی خبریں تو عالمی میڈیا پر دیکھیں گے جن کو بعد میں رد کرنے کی ضرورت بھی کوئی محسوس نہیں کرتا، لیکن اس را ایل کے نام کے ساتھ کوئی منفی لفظ جڑا نظر نہیں آئے گا۔ آپ کسی عالمی میڈیا چینل یا مشہور شخصیت کے سوشل میڈیا ہینڈل پر معمولی سی بھی مخالفت والا تبصرہ کر کے دیکھیں، آپ کو منٹوں میں شہد کی مکھیوں سے واسطہ پڑے گا جو آپ کے تبصرے کے ایک ایک لفظ کی دھجیاں بکھیر دیں گے اور آپ کو منہ چھپانے کو جگہ نہیں ملے گی۔ تب آپ کو احساس ہو گا کہ آپ نے بے دھیانی میں بغیر تیاری کے تبصرہ داغ دیا تھا جبکہ دشمن مکمل تیاری کے ساتھ پوری ٹیم لیے آپ جیسوں کے ہی انتظار میں بیٹھا ہے۔ ایسا ممکن ہی نہیں کہ آپ ان کے بارے میں کچھ الٹا سیدھا کہیں اور وہ اس کا رد کیے بغیر سکون سے بیٹھ جائیں۔
تاہم اس سب سے انتہائی مخالف صورتحال دیکھنے کا دل کرے تو آپ کو سب سے بہترین مثال اسلام کا نام لینے والوں کی ملے گی۔ یہاں ہر دوسرے شخص کی پوسٹوں میں آپ اسلام یا اسلامی شعائر کے ساتھ کوئی نہ کوئی منفی لفظ یا جذبہ جڑا دیکھ سکتے ہیں۔ چنانچہ مہنگائی کا ذمہ دار ہمیشہ رمضان ہوتا ہے، داڑھی ہر قسم کے گناہ کی جڑ ہے، پردہ ہمیشہ جبر اور گناہ کی علامت ہوتا ہے، حج اور عمرے صرف چور اور لٹیرے کرتے ہیں، قربانی حرام پیسوں سے ہوتی ہے، مسجد جہالت کا گڑہ سمجھی جاتی ہے، یہاں تک کہ نبی ﷺ علیہ وسلم کی محبت میں صرف قتل و غارت ہوتی ہے (نعوذ باللہ)۔ لوگوں کے روئیے پر طنزیہ پوسٹوں کا ٹائٹل رسولِ ہاشمی کے نام پر رکھتے، انبیا کا تذکرہ گھٹیا لطیفوں میں کرتے یا احادیث کا مذاق اڑاتے ہمیں ذرا شرم نہیں آتی۔ تربیت کے فقدان، قحط الرجال، سائنس و ٹیکنالوجی میں ناکامی، غرض ہر مسئلے کی ساری وجہ صرف نمازیں پڑھنے اور روزے رکھنے کو قرار دیا جاتا ہے۔
ہم سوشل میڈیا اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس کے دور میں جی رہے ہیں۔ یہاں ہم کسی پوسٹ تو کیا ایک لفظ کو بھی توجہ سے دیکھ لیں تو اے آئی الگورتھم اس جیسی مزید مثالیں دکھا دکھا کر ہمیں اس راہ پر پکا کر دیتے ہیں۔ آپ کا لکھا ہوا ایک لفظ جو شاید آپ نے کسی پریشانی، تشویش یا کرب کی حالت میں کچھ سوچتے ہوئے لکھا ہے، کسی اور کو جہنم کے گڑھے تک پہنچانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ خدارا ہوش کے ناخن لیں اور اسلام اور اسلامی شعائر کے معاملے میں انتہائی محتاط رویہ اختیار کریں مبادا کل کو کوئی چھوٹی سی خطا “بٹر فلائی ایفیکٹ” کے ذریعے ہمیں ہی جہنم تک نہ لے جائے۔