کسی بھی سماج کو آپ مسائل سے خالی نہیں دیکھیں گے، اسی طرح کسی بھی سماج کے سیاسی، سماجی اور اقتصادی داخلی رویوں میں الگ الگ نوعیت کی آراء بھی دیکھیں گے اور شدید ترین اختلاف بھی. اس اختلاف میں بہر صورت اخلاقی رویوں میں کمزوری نہیں آنی چاہیے… آپ کوئی رائے قائم کیجے لیکن شرافت انسانی اور کرامتِ بندگی کبھی ختم نہیں ہونی چاہیے… ہمارے ہاں جب بھی مسائل پر بات ہوتی تو اختلاف ہوتا ہے اور ان مسائل کے شواہد بھی بسا اوقات زمینی حقائق کے مطابق ہوتے ہیں لیکن بالخصوص ایک انتہائی غیر معقول رویہ دیکھنے میں آتا ہے کہ جا بے جا مذہب کو رگیدنا ایک مزاج بن چکا ہے… جب بھی مذہب کے حوالے سے بات کی جاتی ہے تو اس کی دو وجوہات ہو سکتی ہیں :

اصلاح مذہب :

یہ اصطلاح Renaissance اور Reformation of Religion کے عہد اور فکری تناظر سے مستعار یعنی ادھار لی گئی اصطلاح ہے. انسانی دخل اندازی سے اس وقت مذہب کو جو یقینا اسلام نا تھا، اس مذہب کی اصلاح داخلی طور پر اس وقت کے مذہبی رہنما کے ذریعے اور خارجی طور پر ابتداءً کاسمولوجیکل فریم کی تبدیلی سے کوپر نیکس، کیپلر اور گلیلیو کے ذریعے کرنے کی کوشش ہوئی …. یہ اس وقت کا ان کے مذہب کا اپنا مسئلہ تھا. ہم یہاں تقابل ادیان کے پہلوؤں کو نہیں دیکھ رہے لہذا تفصیلات بیان کرنا بھی مقصود نہیں. مذہب کے عمومی لفظ سے ( قطع نظر مسیحیت، یہودیت اسلام) ناقدینِ مذہب اسلام کے حوالے سے اصلاح کی بات کرنا شروع کرتے ہیں. چونکہ اس میں وہ اسلام لفظ بول نہیں سکتے سو مذہب لفظ سے ہی بات کرتے ہیں . اب اس تناظر میں ہم سوال یہ کرنا پسند کریں گے کہ مذہب چونکہ یہاں مذہب اسلام ہے تو کیا یہ ناقدین مذہب اسلام کے متون Text یعنی قرآن مجید یا سنت ثابتہ کی اصلاح کرنا چاہتے ہیں تو یہ ممکن نہیں. یا Applications & Interpretation کی تو اس پر یہ بات ہوگی کہ تعبیر کے حوالے سے ہر زمانے میں کوششیں ہوئیں، ان کوششوں میں ماہرین اہل علم کے بہترین اذہان نے ترجیحات و تشریحات کیں اور امت مسلمہ کی بڑی تعداد نے انہیں قبول بھی کیا..اہل علم اور ماہرین علوم اسلامیہ کے لیے ہمیشہ میدان کھلا رہا اور وہ کام کرتے رہے. دنیا کا رواج و مزاج یہ ہے کہ کسی بھی کام کے اہل لوگوں کی کاوشوں کو اکثریت کی قبولیت معتبر سمجھی جاتی ہے جیسا کہ ہمارے ہاں دستور میں ترمیم کا مسئلہ ہو یا قانون سازی کا تو دو تہائی اکثریت سے یہ کام ہو پاتا ہے، ایسا ہی دینی تعبیرات میں اہل اور مہارت کے لوگ ہی یہ کام کریں گے لہذا کسی غیر ماہر کی بات کا تعلق صرف افسانہ ہے. لہذا غیر ماہر کی بات اصلاح مذہب اسلام یا تعبیر متن اسلامی کی بات کیسے معقول ہو سکتی ہے. ایک اور مثال دیتا چلوں کہ موجودہ پینڈیمک کووڈ – 19 کے علاج پر کچھ لوگوں کی ویڈیوز کافی مضحکہ خیز تھیں ان کے بارے میں ہمارا رویہ ان کے بارے عدم قبولیت کا اس وجہ سے تھا کہ وہ طبی ماہر نہیں ہیں، اسی لیے ان کے علاج معالجے جو کہ ٹوٹکے ہیں بھی قابل قبول نہیں. اگر ماہرین طب و صحت علاج متعارف کروائیں گے تو دنیا اسے قبول کرنے کو تیار ہو گی، کیونکہ وہ ماہرین ہیں. ایسے ہی مذہب کی تعبیر کا بھی مسئلہ ہے. متن کی تبدیلی ختم نبوت کی وجہ سے اب ہو نہیں سکتی. سو اصلاح مذہب کے نام سے اسلام کوتحریک اصلاح مذہب کے فکری پس منظر میں رگیدنا بند ہونا چاہیے یا شوقِ تعبیرہے تو پھر اس کے لیے اہلیت و قابلیت پیدا کرنا ہو گی.

مسائل کا حل

مذہب پر بات یعنی اسلام پر بات کرنے کی دوسری وجہ مسائل ہیں… ہم ہر بات میں سمجھتے ہیں کہ جتنے مسائل ہیں، ان کی جڑ دین ہے.. حالانکہ میرے خیال میں ان پیش آمدہ مسائل میں دیکھ لینا چاہیے کہ اسلام کی ان پہلوؤں میں اطلاقی حیثیت کیا ہے؟ میں چند وہ مثالیں جن پر مذہب کے نام سے اسلام پر شبھات پیدا کیے جاتے ہیں، سامنے رکھتا ہوں:

مثلا لڑکی کی تعلیم

اس میں اسلام نے تو نہیں کہا کہ عورت کی تعلیم غیرت کے نام پر بند کر دی جائے، یہ تو سماج ایسا کرتا ہے. اسلام کی تعلیم ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے. غیرت تو اس ہندوی سماج کی وجہ سے ہے…

لڑکی کا نکاح میں حق

ہمارے سماج نے یہ چھین رکھا ہے اور نکاح بالجبر مسلط ہے جبکہ دین اسلام نے لڑکی کے والد کو یہ تعلیم دی کہ بیوہ مطلقہ خود مختار ہیں، جو چاہیں فیصلہ کریں اور ان کے فیصلے میں کوئی دخل اندازی نا کرے جبکہ کنواری کے لیے نبی رحمۃ للعالمین نے فرمایا (والبکر تستامر ابوھا) والد اپنی بچی سے نکاح کی اجازت لے گا..

مسئلہ طلاق

اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ ہم آہنگی اور نکاحی معاملات نہیں چل رہے تو دونوں خاندانوں میں سے ایک ایک فرد آ کر اس مسئلے کو حل کریں اگر پھر حدود اللہ قائم نا ہوں تو مرد کو مسئلہ ہے تو اچھے طریقے سے طلاق دے کر چھوڑ دے اور اگر عورت کو مسئلہ ہے تو خلع لے لے یا عدالت سے نکاح کی تنسیخ کروا لے…

شوہر یا اس کے والدین کی خدمت کا مسئلہ

ہمارے سماج میں خاندان ایک مضبوط اسٹیک ہولڈر ہے، ہمارے برصغیری سماج میں خاندان نیوکلیئر یعنی جداگانہ افراد کے فیملیز کے ساتھ رہنے کی بجائے جوائنٹ فیملیز کا عملی تصور دیتا ہے…. سو خاندانی ڈھانچے میں یہ سماجی طے شدہ امر ہے کہ شادی کا مقصد اس مکمل گھر کو بہو نے چلانا ہے… پڑھی لکھی یا ان پڑھ، دیہاتی ہو یا شہری….. شوہر کے والدین کی خدمت شوہر کی خدمت شمار سماجی بنادوں پر کی جاتی ہے نا کہ اسلام کے تناظر میں. اسلام نے شوہر کو باپ کے بیٹے ہونے کی حیثیت سے پابند کیا ہے نا کہ بہو کو.. اس مسئلہ کو سماجی اقدار اور ذاتی اخلاقیات پر اسلام نے کھلا رکھ چھوڑا تاکہ فرد کے لیے جیسے آسانی ہو ویسے کر لے……

مذکورہ بالا مسائل میں ہم نے دیکھا کہ مسائل کے پیش منظر کو دیکھنا کتنا ضروری ہے…. ہو سکتا ہے کہ ناقد مسائل کی وجہ مذہب کے نام پر اسلام کو ٹھہرا رہا ہو اور حقیقت میں وجہ یا محرک کچھ اور ہو…..

اس لیے آئیے……!

ہر معاملے میں مذہب کے نام اسلام کو رگیدنا بند کریں اور اصل مدعا اور محرکات پر بات کر کے انہیں درست کرنے کی کوشش کے لیے اسلام کا مطالعہ کریں. …….

اللہ جی فہم و ادراک نصیب فرمائیں آمین

Tayyab Usmani

Phd: Islamic Theology (Pakistan) Post Graduate: Islamic Theology & Scientific Literacy (USA) Fazil Dars e Nizami Lecturer Islamic Studies : Govt Murray College Sialkot