یہ آرٹیکل ڈاکٹر اسرار احمد کے ایک لیکچر سے ماخوذ ہے جس کا لنک نیچے دیا گیا ہے۔

وہی تو ہے جس نے تم پر کتاب نازل کی جس کی بعض آیتیں محکم ہیں (اور) وہی اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ ہیں تو جن لوگوں کے دلوں میں کجی ہے وہ متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں اور مراد اصلی کا پتہ لگائیں حالانکہ مراد اصلی خدا کے سوا کوئی نہیں جانتا اور جو لوگ علم میں دست گاہ کامل رکھتے ہیں وہ یہ کہتے ہیں کہ ہم ان پر ایمان لائے یہ سب ہمارے پروردگار کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو عقل مند ہی قبول کرتے ہیں

– (سورۃ آل عمران 7)

قرآن مجید زمین پر اللہ کی آخری کتاب ہے اور بذاتِ خود قرآن کی ایک ایک آیت اپنے اندر کئی اعجاز سموئے ہوئے ہے۔ قرآن کے اپنے الفاظ میں اس کی کچھ آیات محکمات ہیں اور کچھ متشابہات۔ محکمات میں عموماً وہ باتیں آتی ہیں جو واضح طور پر بتا دی گئی ہیں اور اس قسم میں زیادہ تر احکامات آتے ہیں۔ ان احکامات کی تشریح کے لئے ہمارے لئے ضروری ہے کہ ان کو اس طریقے سے سمجھیں جس طرح ان کو رسول اللہﷺ اور ان کے ساتھیوں نے سمجھا تھا۔ مثلاً قرآن میں نماز کے لئے بلائے جانے کا تذکرہ ہے (سورۃ جمعہ) لیکن یہ نہیں کہ کس طرح اور کن الفاظ میں بلایا جائے گا۔ لہٰذا ہمیں دیکھنا پڑتا ہے کہ اس کام کے لئے اللہ کے رسول ﷺ نے کیا طریقہ اختیار کیا اور اس طریقے میں کسی قسم کے ردوبدل کی قطعاً کوئی گنجائش نہیں ہے۔ اسی طرح نماز اور دیگر احکامات کے طریقہ ہائے کار جیسے رسول اللہ ﷺ نے سمجھے اور سمجھائے ان کی پیروی لازم ہے۔

اس کے برعکس متشابہات کے معنی واضح نہیں ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ جوں جوں انسانی عقل نئی منازل طے کرتی جائے گی (بالفاظ دیگر جب اللہ علم دینا چاہے گا) تب اللہ تعالی کسی علم والے پر کسی آیت کا اصل مطلب آشکار کر دے گا۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ ہر قاری قرآن کو اپنے علم کے مطابق پڑھتا اور سمجھتا ہے اور یہ ایسی کتاب ہے جو ہر شخص پر اسکے علم کے حساب سے راز آشکار کرتی ہے۔ اسی طرح قرآن کو مختلف ادوار کے لوگوں نے اپنے وقت کے مجموعی علم کے اعتبار سے پرکھنے اور سمجھنے کی کوشش کی ہے اور تفاسیر لکھی ہیں۔ اس کا منطقی نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ بہت سی تشریحات وقت کے ساتھ پرانی ہو چکی ہیں اور جدید علم کی بنیاد پر دوبارہ تحقیق کی منتظر ہیں۔ اس کی مثال یوں دی جا سکتی ہے کہ ایک وقت تھا کہ انسان سمجھتا تھا کہ اللہ تعالی آسمان سے بارش برساتا ہے۔ اس سے زیادہ چونکہ اس کو علم نہیں تھا اسلئے اتنا کہہ دینا کافی تھا۔ اس وقت کے مفسرین نے بارش برسنے کے حوالے سے آیاتِ قرآنی کی تفسیر اور حکمت اپنے علم کے مطابق بیان کی۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ معلوم ہوا کہ سورج کی تپش در حقیقت سمندروں کے پانی کو گرم کر کے اوپر اٹھاتی ہے جس سے بادل بنتے ہیں، لاکھوں ٹن بادلوں کو ہوا ٹھنڈے علاقوں میں لے جا کر بارش کے برسنے کا باعث بنتی ہے۔ یوں بارش کے بننے اور برسنے کے دوران ہونے والے تمام قدرتی عوامل اور توانائی کے ذرائع کو اب ہم اچھے طریقے سے سمجھتے اور جانتے ہیں۔ مزید یہ کہ علم میں اس اضافے سے درحقیقت اللہ تعالی کی قدرت پر ایمان مزید پختہ ہوتا ہےکہ اس نے کیسا شاندار نظام ترتیب دیا ہے جس سے ایک بظاہر ناممکن کام ممکن ہو جاتا ہے۔ ہاں یہاں البتہ یہ سمجھ لینا کہ یہ سارا نظام خود ہی چل رہا ہے اور اس کے پیچھے کسی بنانے والے کی مرضی اور حکم شامل نہیں اپنے آپ میں الحاد اور کفر ہو گا۔ اسی طرح کسی دور میں لوگ سمجھتے تھے کہ زمین ساکن ہے اور سورج، چاند اور ستارے اس کے گرد چکر لگاتے ہیں۔ لہذا اللہ تعالی کے اس ارشاد کا کہ “کل فی فلک یسبحون” یہ مطلب نکالا کہ تمام چیزوں میں زمین شامل نہیں۔ بعد میں معلوم ہوا کہ زمین سورج کے گرد گھومتی ہے تو سورج کو ساکن سمجھا گیا۔ تاہم آج ہم جانتے ہیں کہ سورج بھی اپنے تمام سیاروں کے ساتھ ملکی وے نامی کہکشاں کے مرکز کے گرد چکر لگا رہا ہے اور پوری کہکشاں بھی ساکن نہیں بلکہ وہ بھی متحرک ہے۔ یوں آج ہم بہتر سمجھتے ہیں کہ اس آیت کا اصل معنی کیا ہے۔ اسی طرح تخلیقِ کائنات کے حوالے سے ایک ہوش ربا انکشاف سورۃ فصلت میں آیا

پھر آسمان کی طرف متوجہ ہوا اور وہ دھواں تھا تو اس نے اس سے اور زمین سے فرمایا کہ دونوں آؤ (خواہ) خوشی سے خواہ ناخوشی سے۔ انہوں نے کہا کہ ہم خوشی سے آتے ہیں
41:11

یعنی (زمین و آسمان کی تخلیق کے بعد) اللہ تعالی آسمان کی طرف چلا گیا جب کہ ابھی یہ (کائنات) دھواں دھواں تھی۔ طبیعات کی جدید ترین تحقیق کے مطابق دخان سے مراد یہاں کائنات کی تخلیق کے ابتدائی مراحل ہو سکتے ہیں جب تخلیق (بگ بینگ) کے فوراً بعد ایک سیکنڈ کے انتہائی چھوٹے سے حصے کے دوران کائنات ابھی توانائی کے ایک انتہائی ثقیف بادل یا دھویں کی شکل میں تھی جس کے بعد ہائڈروجن اور پھر ہیلئم سے بنے اولین ستارے وجود میں آئے تھے۔ ظاہر ہے کہ یہ علم 100 سال سے پہلے موجود نہیں تھا اسلئے اس وقت کے مسلمان علماء نے جو تشریحات لکھیں وہ بہرحال مکمل نہیں تھیں۔ یہاں پھر وہی بات دوہرائی جا سکتی ہے کہ گرچہ کائنات کے بننے کے دوران کار فرما طبعی و کیمیائی عوامل کے ساتھ آج کسی کو اختلاف نہیں لیکن یہ سمجھ لینا کہ یہ سب کچھ خود با خود بن گیا ہے اور خود با خود ختم بھی ہو جائے گا، اور اس سلسلے میں کسی خالق کے وجود سے انکار الحاد و کفر کے زمرے میں آتا ہے۔ اسکے برعکس جدید تحقیق کو سمجھنا درحقیقت اللہ کے قادرِ مطلق ہونے اور اس کی قدرت کا اندازہ لگانے میں خاطر خواہ مددگار بھی ہو سکتا ہے اور انسان بے اختیار “سبحان اللہ” کہہ اٹھتا ہے۔ یوں ایک سائنسدان جو ایک دور بین میں سیاروں، ستاروں اور کہکشاؤں کو دیکھتا ہے، وہ اللہ تعالی اور اس کی قدرت کو اس طرح سمجھتا اور جانتا ہے جس طرح ایک عام آدمی کبھی تصور بھی نہیں کر سکتا۔ اسی لئے ارشاد ہوا کہ جاننے والے اور نہ جاننے والے برابر نہیں ہو سکتے۔ یہاں یہ وضاحت بھی ضروری ہے کہ قرآن مجید سائنس کی کتاب نہیں ہے۔ نہ ہی اس کا مقصد انسان کو سائنس سمجھانا تھا۔ قرآن کا اصل مقصد انسان کی ہدایت ہے ۔ قرآن میں ذکر ہونے والے مظاہرِ قدرت کا اصل مقصد انسان کی توجہ اللہ کی تخلیق کی طرف دلانا ہے تاکہ وہ اللہ کی طرف رجوع کر سکے۔

اب ہم آتے ہیں انسان کی تخلیق کی طرف۔ یہاں یہ سمجھنا ضروری ہے کہ انسان کی تخلیق کے دومراحل یا جزو ہیں۔ پہلا جزو انسان کا جسم ہے جس کی تمام تر ضروریات اور کام کرنے کا طریقہ کار وغیرہ وہی ہے جو دیگر تمام جانداروں کا بھی ہے۔ ہمیں بھی دوسرے جانداروں کی طرح بھوک، پیاس لگتی ہے، سوتے جاگتے ہیں اورشہوانی و جبلی خواہشات کے پابند ہیں۔ درحقیقت انسان کا یہی حصہ سائنس کے بھی زیرِ تحقیق ہے جب کہ سائنس دوسرے حصے تک ابھی تک نہیں پہنچ سکی۔ انسان کی تخلیق کا دوسرا حصہ اس کا نورانی وجود ہے۔ یہ وہ حصہ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالی فرماتا ہے:

جب اس کو (صورت انسانیہ میں) درست کر لوں اور اس میں اپنی (بےبہا چیز یعنی) روح پھونک دوں تو اس کے آگے سجدے میں گر پڑنا
– 15:29

یعنی جب میں اس کو پوری طرح بنا لوں اور اس میں “اپنی” روح پھونک دوں تو (فرشتو) اس کے آگے سجدہ کر نا۔ یہاں توجہ طلب دو باتیں ہیں۔ ایک تو یہ کہ تخلیق سے پہلے آدم علیہ السلام کسی ایسی حالت میں تھے کہ ان کو مکمل نہیں سمجھا جا سکتا تھا اسلئے کہا جا رہا ہے کہ جب میں اس کو مکمل بنا لوں تب۔۔۔۔ دوسری اہم بات یہ کہ اللہ تعالی نے اپنی روح میں سے آدم علیہ السلام میں روح پھونکی تھی جو فرشتوں کے لئے سجدہ کی وجہ ٹھہری۔ یہاں یہ کہنا ضروری ہے کہ روح اللہ کی ذات کا حصہ کس طرح تھی یہ ہم نہیں جانتے۔ تاہم اس حوالے سے یہ ضرور کہا جا سکتا ہے کہ چونکہ اللہ کی ذات کو تقسیم نہیں کیا جا سکتا اسلئے اپنی روح میں سے روح پھونکنے سے اللہ کی ذات میں کسی قسم کی کمی واقع نہیں ہوئی۔ یہ روح دراصل اللہ کے نور کا حصہ یا نقش ہے (شاید ہماری زبان کا کوئی لفظ اس معاملے کے اصل معانی کی ترجمانی نہیں کر سکتا)۔ یہاں یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ انسان کا مادی وجود عارضی ہے اور اس دنیا تک محدود ہے جب کہ انسان کی روح اللہ کے حکم سے ہمیشہ رہے گی اور انسان کو اللہ سے جوڑتی ہے۔ سائنس کی مکمل توجہ اس وقت اس عارضی وجود پر مرتکز ہے اور یہ نہیں کہا جا سکتا کہ مستقبل قریب یا بعید میں سائنس کبھی انسان کی روح تک پہنچ سکے گی یا نہیں۔ بعض دفعہ یوں بھی ہوتا ہے کہ بعض لوگوں کی مکمل توجہ انسان کے روحانی وجود کی طرف مرتکز ہو جاتی ہے، جس کے بارے میں اللہ فرماتا ہے کہ میں تمہاری شہہ رگ سے بھی زیادہ نزدیک ہوں۔ یہ سالکین اس نور کی نورانیت میں اتنے گم ہو جاتے ہیں کہ ان کی آنکھیں چندھیا جاتی ہیں اور وہ اس کے علاوہ کسی اور چیز کو دیکھنے کے قابل نہیں رہتے۔ یہ ایک روحانی تجربہ ہے جس کے بعدمنصور حلاج نے “انا الحق” کا نعرہ لگایا تھا اور ــــــــــــ نے کہا کہ میرے جبہ میں خدا کے وجود کے علاوہ کچھ نہیں۔ اسی کو حضرت مجدد الف ثانی وحدت الوجود اور وحدت الشہود کی درمیانی کیفیت کہتے ہیں اور اسی سے علامہ اقبال اپنا فلسفۂِ خودی کشید کرتے ہیں۔

اور ان لوگوں جیسے نہ ہونا جنہوں نے خدا کو بھلا دیا تو خدا نے انہیں ایسا کردیا کہ خود اپنے تئیں بھول گئے۔ یہ بدکردار لوگ ہیں
– 59:19

یعنی ان لوگوں جیسے نہ ہو جانا جنہوں نے (دنیا و ما فیہا کی خاطر) اللہ کو بھلا دیا تو (بدلے میں اللہ کے حکم سے) وہ اپنے آپ کو بھی بھول گئے۔ اور یہی لوگ اصل فاسق ہیں۔ گویا جو اپنی اس اصل (روحانی وجود) سے بے خبر ہو جاتے ہیں اللہ ان کو حیوانوں جیسی کیفیت میں واپس بھیج دیتا ہے اور پھر وہ انسانیت کے اصل درجے پر فائز نہیں ہو سکتے۔

اس سارے تعارف کا مقصد یہ تھا کہ اس دور کے ایک اہم مسئلہ سے آپ کو روشناس کروایا جائے جس سے آج کے نوجوان مسلمان نبرد آزما ہیں۔ مغربی ممالک میں سکول کی سطح پر اور ہمارے یہاں یونیورسٹی کی سطح پر حیاتیات کے مضمون میں ڈارون کا نظریۂِ ارتقا ایک حقیقت کے طور پر پڑھایا جاتا ہے۔ ان نظریات کو پڑھ کر طالبعلم کے سامنے دو راستے ہوتے ہیں۔ گرچہ انسان کی تخلیق اور آدم و حوا علیہم السلام کے حوالے سے خود مسلم علماء کے درمیان صدیوں سے مختلف آراء رہی ہیں تاہم ہمارے یہاں عام عوام میں یہی مشہور ہے کہ گویا اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو ایک مٹی کے بت کی شکل میں تخلیق کیا تھا اور پھر ان میں روح ڈال دی گئی۔ ایسی صورت میں اسلام کی تعلیمات (یا کم سے کم ہمارے فہم کے مطابق اسلام کی تعلیمات) سائنس سے متصادم نظر آتی ہیں۔ چنانچہ سائنس کا وہ طالبعلم یا تو سائنس کو اس بنیاد پر رد کر دیتا ہے کہ دین اس کی اجازت نہیں دیتا (ایسے میں اس کی ساری تعلیم اور ڈگریاں بے سود ہو جاتی ہیں کیونکہ وہ پڑھی ہوئی چیزوں کو دروغ کے ذمرے میں ڈالنے لگتا ہے)۔ یا پھر دوسری طرف (خدا نہ خواسطہ) شک میں پڑ کر دین اور اس کی تعلیمات کا انکار کر بیٹھتا ہے اور الحاد کی منزلیں طے کر جاتا ہے۔

یہاں اصل مسئلہ یہ ہے کہ ہم اپنی غلامی کی وجہ سے فکری طور پر اپنی بنیاد سے بہت دور ہو گئے ہیں۔ ہم پڑھتے ہیں کہ فلاں پادری نے سائنس میں فلاں دریافت کی لیکن ہمارے علماء کی جن کتابوں نے پندرہویں صدی میں یورپ میں نشاۃ ثانیہ کی لو جلائی تھی افسوس کے ساتھ ان میں سے کوئی بھی ہمارے مطالعے یا دسترس میں نہیں رہیں۔ حقیقت میں ارتقاء کا تصور دینے والا پہلا انسان ڈارون نہیں تھا۔ ڈارون تو ارتقاء کا صحیح راستہ یا مکینزم سمجھانے والا پہلا انسان تھا ۔ یہ سوچ کہ جانداروں میں ارتقاء ہوا ہے دراصل بہت پرانی ہے اور اس کے بڑے ماننے والوں میں مسلم علماء بھی شامل تھے جن کی خدمات میں دین اور دنیا دونوں علوم پر کتابیں شامل ہیں۔ چنانچہ الجاحظ (جو ایک مشہور محدث کے شاگرد تھے ) نے 225 ہجری یا 776 عیسوی کے نزدیک اپنی ایک تصنیف کتاب الحیوان میں لکھا ہے کہ وقت کے ساتھ جاندار ایک سے دوسری نوع میں تبدیل ہو سکتے ہیں۔ اسی طرح مولانا روم اپنی مشہور مثنوی میں لکھتے ہیں کہ انسان کیسے کیسے ارتقا کے مختلف مراحل سے گزرا ہے۔ یہاں بتانے کا مقصد یہ ہے کہ ارتقا کے حوالے سے اسلام کے اعلیٰ پائے کے علماء کا رویہ ویسا نہیں تھا جیسا ہمارا آج ہے۔ 700 عیسوی سے لے کر 1500 عیسوی تک متعدد مسلمان سائنس دان اور حکماء اس نتیجہ پر پہنچ چکے تھے کہ تمام جاندار ایک دوسرے سے کسی نہ کسی طرح جڑے ہوئے ہیں ۔ یہ اس دور کی بات ہے جب ہم بیدار تھے۔ اپنی یونیورسٹیوں کی روشنی سے یورپ کو جگایا اور پھر خود غلامی کی چادر اوڑھ کر سو گئے۔ اسلام کے سنہری دور کے اختتام کے 300 سال بعد ڈارون نے یہ سمجھایا کہ ارتقاء کے پیچھے کون سی قوتیں کار فرما ہوتی ہیں۔

عام قاعدہ یہ ہے کہ اس کائنات میں اللہ جب کوئی کام کرنے کا ارادہ کرتا ہے تو حکم دیتا ہے “کن” اور پھر کائنات میں پیدا کردہ عناصر اور قوتیں حرکت میں آتے ہیں اور اللہ کے حکم کی تعمیل ہوتی ہے۔ ہم لقمہ منہ میں لیتے ہیں تو وہ لقمہ پہلے اللہ سے اجازت لیتا ہے کہ میں اس کھانے والے کے لئے غذا بن جاؤں یا زہر۔ اللہ کی مشیت شامل ہوتی ہے تو وہ خوراک ہمارے جسم کا جزو بن جاتی ہے۔ وہ اجازت دیتا ہے تو سورج پانی کو بھاپ بناتا ہے، ہوائیں چلتی ہیں اور بارش ہوتی ہے۔ کب، کہاں اور کتنی بارش ہونی ہے، ایک ایک بوند اس کے قبضہ قدرت میں ہے۔

باز از حیواں سوئے انسانیش
می کشید آں خالقے کہ دانیش

مولانا روم سنہ 1250 کے قریب یعنی ڈارون سے 600 سال پہلے اپنی مثنوی میں فرماتے ہیں “پھر حیوان سے انسان کو بنایا، کس نے؟ اس خالق نے جس کو سب جانتے ہیں”۔ اگر یہ سمجھا جائے کہ یہ سب کچھ خود ہوا تو یہی شرک، کفر اور الحاد ہے۔ تاہم اگر یہ سمجھا جائے کہ یہ خالق کی مخلوق ہے اور ہمیں بطور آدم کی اولاد جو علم کی نعمت دی گئی تھی، اس کو استعمال کر کے اللہ کی نشانیوں اور قدرت کو سمجھنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ وہ کام کیسے کرتی ہے، تو یہی اصل ایمان ہے اور جب یہ مظاہرِ قدرت انسان پر واقعی آشکار ہوتے ہیں تو انسان بے اختیار پکار اٹھتا ہے “سبحان اللہ”۔ اسی لئے اللہ تعالی فرماتا ہے کہ اللہ کا اصل خوف تو صرف علم والے ہی رکھتے ہیں۔ قرآن میں اللہ تعالی آدم علیہ السلام کی تخلیق کے چھے مختلف مراحل بیان کرتا ہے جن کو موجودہ ارتقائی نظریہ کی روشنی میں دیکھنا بعید از قیاس نہیں۔ قرآن کی آیات سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ایسا نہیں ہوا کہ اللہ نے صرف “کن” کہا اور عدم وجود سے ایک مٹی کا بت وجود میں آ گیا۔ بلکہ بتایا کہ مٹی اور پانی سے، پھر گارے سے، پھر چپچپے گارے سے، پھر خشک گارے سے، اور پھر کھنکھناتے ہوئے خشک گارے سے آدم علیہ السلام کا وجود تیار کیا گیا۔ اسی طرح آج جب کوئی انسان پیدا ہوتا ہے تو اللہ اس حوالے سے فرماتا ہے کہ ”وہی ہے جو تم کو تمھاری ماؤں کے پیٹ میں جیسے چاہتا ہے بناتا ہے“ تاہم اس کا مطلب یہ نہیں کہ اس کام کے لئے باقاعدہ ایک نظام موجود نہیں جو بہر حال طبعی اور کیمیائی عوامل کا پابند ہے۔ اللہ کی قدرت چاہتی تو ہمیں جوان ہی پیدا کر دیا جاتا، لیکن اس کے لئے اللہ نے ایک نظام بنا دیا ہے اور اس نظام اور رحمِ مادر میں انسانی تخلیق کے مختلف مراحل کی طرف بھی قرآن میں کئی دفعہ اشارہ کیا گیا ہے۔۔ چنانچہ یہ بعید نہیں کہ آدم کا حیوانی وجود تخلیق کرنے کے لئے ارتقاء کا خوبصورت نظام تخلیق کیا گیا اور بعد میں اللہ کا حکم (امر) یا روح اس میں ڈال دی۔

یہاں یہ کہنا بھی میں ضروری سمجھتا ہوں کہ 300 سال کی غلامی کے بعد ہمارے دلوں میں درحقیقت ایمان باقی نہیں رہا بلکہ 90 فیصد سے زیادہ الحاد بھر گیا ہے۔ کچھ 10 فیصد کے قریب ابھی بھی نام کے عقائد اور رسومات ہم نے اپنے ساتھ باندھی ہوئی ہیں لیکن عملی زندگی میں ہم میں سے اکثر لوگ نہ سوچ سے ، نہ کردار سے، نہ گفتار سے، غرض کسی طرف سے بھی پورے مسلمان نہیں رہے۔ نہ ہم نے قرآن و حدیث کو اس طرح پڑھا ہے جس طرح پڑھنے کی ضرورت تھی اور نہ ہی دنیاوی علوم میں ہی کوئی کارنامہ ہمارے سر ہے۔ نتیجہ یہ کہ ہماری گردنیں اللہ کے علاوہ تقریباًہر دنیاوی طاغوت (دولت، شہرت، طاقت وغیرہ) کے سامنے جھک جاتی ہیں۔ اور اس اندھیرے سے انسان کو نکالنا ہی قرآن کا اصل مقصد ہے۔ اللہ کو بھلا کر دہریت میں پڑ گئے اور روحِ انسانی کو بھلا کر حیوانی جبلتوں کو پورا کرنے کے پیچھے پڑ گئے، یہی اس دور کا اصل المیہ ہے۔ ضرورت یہ ہے کہ واپس اللہ اور اس کی کتاب کی طرف رجوع کیا جائے۔ پھر ارتقاء پڑھنے کا مقصد اللہ سے دوری نہیں ہو گا بلکہ اللہ کا قرب حاصل کرنے اور اس کی تخلیق اور قدرت کو سمجھے کا ایک راستہ بن جائے گا۔

قرآن میں ہو غوطہ زن اے مرد مسلماں
اللہ کرے تجھ کو عطا۔۔۔۔ جدتِ کردار!

اللھم ارنا الحق حقاً ورارزقنا اتباعہ وارنا الباطل باطلاً وارزقنا اجتنابہ ۔ وما علینا الالبلاغ المبین

مکمل لیکچر سننے کے لئے:

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech