“نہیں”
اس کے کپکپاتے ہونٹوں سے صرف اتنا ہی نکل سکا تھا۔ وہ روز روز کی ذلت اور تحقیر سے تنگ آ چکی تھی۔ اسے اپنے انکار کی جو قیمت چکانی پڑے گی، اسے اچھی طرح معلوم تھا لیکن اب وہ مزید برداشت کرنے کو تیار نہ تھی۔ وہ کئی دنوں سے نتائج بھگتنے کے لیے اپنا ذہن بنا رہی تھی اور آنے والے وقت کے لیے خود کو تیار کر رہی تھی۔ لیکن اس وقت اس کی خودبخود دھڑکنیں تیز ہو گئی تھیں۔ اس نے مضبوطی سے اپنا پرس پکڑ رکھا تھا اور سامنے ونڈ سکرین کے شیشے سے باہر خلا میں گھور رہی تھی۔
اس وقت اسے اپنے نانا کی شدید یاد آ رہی تھی۔ دو سال کی عمر سے وہ اپنے نانا کی حفاظت میں رہی تھی جو ہر وقت پستول تھامے گھر کے باہر چکر لگاتے رہتے تھے۔ ہلکی سی آواز سے پکارنے پر بھی اسے تنگ کرنے والے بچوں کی شامت آ جاتی تھی۔ اس کی ماں نے ہمیشہ اس کو مضبوط بننے اور اپنی حیثیت اور عزت پر کبھی سمجھوتہ نہ کرنے کا درس دیا تھا اور وہ سکول میں بھی اپنی سہیلیوں میں انہی خیالات کے پرچار کے لیے مشہور تھی۔ اسے یاد آیا کہ اس نے اپنے شوہر کا انتخاب بھی اس کی باغی شخصیت سے متاثر ہو کر کیا تھا۔ لیکن کچھ ہی دن پہلے ایک لڑکے کو لوگوں نے پکڑ کر زندہ جلا دیا تھا جس کی وجہ سے فضا میں ہر طرف خوف طاری تھا۔
“تم یہاں سے اٹھو گی یا نہیں؟” ڈرائیور کی حیرت اور غصے میں ملی جلی آواز نے ایک دفعہ پھر سوچوں کا سلسلہ توڑا۔ “میں نہیں اٹھوں گی” اس دفعہ اس نے قدرے تسلی سے جواب دیا۔ “اگر تم نہ اٹھی تو مجھے پولیس بلانی پڑے گی” ڈرائیور نے دھمکی دی۔ قوانین بہت واضح تھے۔ کالوں کو حکم تھا کہ اگر کوئی گورا چاہے تو انہیں اپنی سیٹ دینی پڑے گی۔ ان کو صرف بس کے پچھلے حصے میں بیٹھنے اور بس کے پچھلے دروازے سے داخل ہونے کی اجازت تھی۔ ان پر گوروں کے نلکے سے پانی پینے، ان کا واش روم استعمال کرنے، دکانوں میں جوتے کا سائز چیک کرنے، ہوٹل میں گوروں کے برتنوں میں کھانا کھانے، ان کے علاقے میں گھر بنانے، ووٹ ڈالنے اور دیگر بہت سے معاملات پر پابندی تھی۔ وہ جانتی تھی کہ گزشتہ چند دنوں سے بہت سی لڑکیاں سیٹ نہ دینے کی پاداش میں جیل کی ہوا کھا چکی ہیں۔ اور آج اس نے یہ قدم اٹھانے کا ارادہ کر لیا تھا۔ “جو تم نے کرنا ہے کرو”، اس نے تسلی سے ڈرائیور کو کہا۔ ڈرائیور تیزی سے بس سے اتر گیا اور سامنے موجود فون بوتھ سے پولیس کو فون کرنے لگا۔
بس میں موجود درجنوں آنکھیں اس کو غصے، حیرت، پریشانی اور کہیں کہیں رشک کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ گھور رہی تھیں۔ اکثر لوگوں کو علم تھا کہ قانون کی اس طرح کھلم کھلا خلاف ورزی کا نتیجہ نہ صرف اسے بلکہ اس جیسے بہت سے دوسروں کو کتنے بھیانک انداز میں بھگتنا پڑ سکتا ہے۔ لیکن پھر بھی بہت سی انکھوں میں اس کے لیے تعریف اور محبت بھی موجود ہو گی۔ کئی اس کی جگہ اپنی پرچھائی ڈھونڈ رہے ہوں گے کہ کاش یہ قدم وہ اٹھا سکتے۔ تاہم اس بھرے مجمعے میں وہ بالکل اکیلی تھی اور کوئی ایک آواز بھی اس کے حق میں نہ نکل سکی اور سب اس کو سولی چڑھتے دیکھتے رہے اور اپنی مجبوریوں کو دل ہی دل میں کوستے رہے۔
کچھ دیر میں پولیس آ گئی۔ پولیس افسر نے ڈرائیور سے کہا کہ وہ تو کالوں کے سیکشن میں بیٹھی ہے، جس پر ڈرائیور نے بورڈ اتار کر دو سیٹ پیچھے لٹکا دیا۔ “مسئلہ سیٹ کا نہیں اس کے برتاؤ کا ہے”۔ یہ کہتے ہوئے ڈرائیور اس سے مخاطب ہوا: “تم اٹھتی کیوں نہیں؟” جس پر وہ بولی “مجھے نہیں لگتا کہ مجھے اٹھنا چاہیئے”۔ یہ سن کر ڈرائیور پولیس والے کی طرف دیکھنے لگا جیسے کہہ رہا ہو “دیکھا، یہ باغی ہے” جس پر پولیس والے نے اسے ہتھکڑی لگائی اور تھانے لے گیا۔
روزا پارکس کا سیٹ نہ چھوڑنے کا یہ واقعہ امریکہ کی تاریخ میں انتہائی اہم واقعات میں سے ایک ہے۔ اس کے بعد سے منٹگمری شہر کے سیاہ فام امریکیوں نے ایک سال سے زائد عرصہ تک پبلک بسوں کا بائیکاٹ کیا اور روزانہ میلوں پیدل چل کر اپنے کام کی جگہوں تک جاتے آتے رہے۔ سیٹ نہ چھوڑنے کے اس چھوٹے سے احتجاج کے پسِ منظر میں سیاسی افق پر ایک نئی شخصیت ابھری جسے دنیا آج مارٹن لوتھر کنگ جونیئر کے نام سے جانتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ اگر روزا پارکس اس روز سیٹ چھوڑ دیتی تو شاید مارٹن لوتھر کنگ کو بھی کوئی نہ جانتا۔ اسکو اور اس کے شوہر کو نوکری سے نکال دیا گیا، اسکے گھر پر بم پھینکے گئے، اسے سزا سنائی گئی، اسے جان سے مارنے کی دھمکیاں دی جاتی رہیں اور دنیا جانتی تھی کہ یہ دھمکیاں حقیقت بنتے دیر نہیں لگے گی لیکن وہ ثابت قدم رہی یہاں تک کہ امریکی سپریم کورٹ نے گوروں اور کالوں کے امتیازی قوانین کو کالعدم قرار دے دیا۔ امریکی صدر بل کلنٹن نے گزشتہ صدی کے آخری سٹیٹ آف دی یونین خطاب میں اس کے اعزاز میں کہا کہ “وہ خاتون اول کے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی ہیں اور ان کی مرضی ہے کہ وہ اپنی سیٹ سے اٹھیں یا نہ اٹھیں”۔
وہ مرنے کے بعد آج بھی کروڑوں دلوں میں زندہ ہے۔ اس کے حالاتِ زندگی، اس دور کا عمومی ماحول اور لوگوں کے روئیے آپ اس فلم میں دیکھ سکتے ہیں:
وجہِ نوشت: یہ تحریر سفارش نہ ماننے پر حسن شہریار کو امتحانی ڈیوٹی سے ہٹائے جانے کے پسِ منظر میں لکھی گئی۔