میں اپنے پچھلے بلاگ میں کشمیر کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لیتے ہوئے پاکستان کے پاس موجود آپشنز بتا چکا ہوں اور تلخ حقیقت یہی ہے کہ پاکستان کی حالت اُس شیر کی سی ہے جسے ایک طرف بڑی شدت کے ساتھ جکڑ کر باندھا جا رہا ہے تو دوسری جانب بھوک کہ مارے اس کی قوت جواب دینے کے قریب ہے۔ ایک بات تو واضح ہوجانی چاہیئے کہ پاکستان کی حالت اس وقت دنیا کے نقار خانے میں طوطی کی سی ہےاور بھارتی ناقوس کے سامنے اس طوطی کو کسی نے نہیں پوچھنا ، آپ تمام عالمی خبر رساں تنظیموں کو ٹھا کے دیکھ لیں اب تک چین کے علاوہ کسی بھی شمالی جنوبی مشرقی مغربی ملک کی طرف سے کوئی خاص بیان نہیں ملے گا ۔ اس کڑوی سچائی کا ادراک کرتے ہوئے حکومت ِپاکستان اور سول و ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو نہایت سنجیدگی کے ساتھ آئندہ کے لئے اس کا سدباب کرنے کی ضرورت ہے۔
اب بات کرتے ہیں کہ اس گھمبیر صورت حال میں کشمیری کیا کر سکتے ہیں۔ پہلی بات تو یہ کہ کشمیریوں کا خوف بالکل بجا ہے انتہا پسند ہندو سرکار جہاں ایک طرف رام راج والے اکھنڈ بھارت بنانے میں کوشاں ہے وہیں وہ بھارتی مسلمانوں کو اپنا شہری تو کجا انسان بھی ماننے میں تذبذب کا شکار نظر آرہی ہے۔ پوری بھارت میں گائے کی حفاظت کے نام پر شروع ہوئی ماب لینچنگ یا ہجومی قتل و غارت گری ایک نئی کروٹ لیتے ہوئے اب کھلم کھلا اقلیتوں کے مذاہب کو نشانہ بنانا شروع کو گئی ہے۔ جہاں اب کسی راہ چلتے مسلمان کو پکڑ کرمارتے پیٹتے ‘جےشری رام’ کا نعرہ لگوانا ایک نیا فیشن بن چکا ہے وہیں اب گھروں کے اندر بھی مسلمان خود کو غیر محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔
آیئے دیکھتے ہیں کہ اس صورتحال میں کشمیریوں کے لئے مستقبل کا لائحہ عمل کیا ہونا چاہئے۔
سب سے پہلا کام کشمیر کی تمام سیاسی لیڈرشپ کو اکھٹا ہونا ہوگا، اگر اب بھی اکھٹے نہیں ہوئے تو نہ تو کسی کی کوئی کرسی ہوگی اور نہ ہی کوئی وزیر اعلیٰ۔ لیڈرشپ کا اتفاق اور اتحاد ہی آپ کی بقا کا واحد ذریعہ ہے۔ تمام رہنما مل کے بیٹھیں اور اپنی جدوجہد کا مستقبل کا راستہ طے کریں، تاریخ سے رہنمائی حاصل کیجئے مشرقی تیمور، جنوبی سوڈان، شمالی آئرلینڈ اور کوسوو کے ساتھ ساتھ اسکارٹ لینڈ اور کاٹالونیہ کی مثالوں کا مطالعہ کیجئے ان کی غلطیوں اور کامیابیوں سے سیکھئے۔اس سلسلے میں آپ کی ناکامی کشمیری شہداء کے خون کا داغ آپ کے دامن پر اتنا ہی گہرا کردے گی جتنا کہ بھارتی فوج اور دلی سرکار کی تلک میں ہے۔
دوسرا اہم کام دلی سرکار کے اس قدم کو سپریم کورٹ میں چیلنج کیجئے۔ اگرچہ مجھے امید نہیں ہے کہ آپ کو ‘اسٹے’ سے زیادہ کوئی ریلیف مل سکتا ہے، مگر کوشش لازمی ہے۔
دفعہ 35 اے کی تنسیخ آپ کو کسی کو اپنا مکان یا زمین بیچنے پر مجبور نہیں کرسکتی ہے۔ فلسطین سے عبرت حاصل کیجئے اور یہ عہد کر لیں کے اپنی مادرِ وطن کے ایک انچ کو بھی کسی غیر کشمیری کو چاہے وہ مسلمان ہو یا ہندو ، سکھ ہو یا عیسائی ہرگز نہیں بیچیں گے۔ فلسطین میں جہاں عام لوگوں نے اپنی املاک یہودیوں کو مہنگے داموں بیچیں وہیں اس وقت کی انگریز انتظامیہ نے بھی سرکاری زمین ریوڑیوں کی طرح صیہونیوں میں بانٹی، کیا آپ یہی غلطی دوہرانے کے متحمل ہوسکتے ہیں؟ زرا سوچئے!
نوکری چاہے سرکاری ہو یا پرائیویٹ اپنے کشمیری بھائیوں کو ترجیح دیں۔ کوئی مزدور بھی چاہیئے ہو تو کسی کشمیری کو ہی ملازمت دیں باہر سے آئے ہوے کو نہیں۔
ریاستی حکومت اور انتظامیہ میں اپنی موجودگی لازمی رکھیں، کسی بھی قسم کے انتخاب کا بائیکاٹ کا مطلب اپنے دشمن کو فری ہٹ دینا ہے۔ اگر آپ اپنے خطے کی حکومت اور انتظامیہ میں موجود نہیں ہونگے تو کون آپ کے قومی مفادات کا تحفظ کرے گا؟ ایسی قانون سازی کریں کہ اسمبلی کی غیر موجودگی میں گورنر راج میں ہونے والے تمام اقدامات کی توثیق اگلی آنے والی اسمبلی سے کروانا لازمی ہو۔
یہ فیصلے آپ نے ایک قوم بن کر صدقِ دل سے کرنے ہیں اور اگر آپ ایسا کر لیتے ہیں تو یقین جانیئے بقول فیض صاحب
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
لمبی ہے غم کی شام مگر شام ہی تو ہے