پچھلے مضمون میں ہم نے جینوم کی نقول کی تیاری کے عمل کے دوران ہونے پیدا ہونے والی میوٹیشنز کا ذکر کیا تھا۔ میوٹیشنز محض غلط تحریر کے سبب ہی نہیں ہوتی ہیں بلکہ اس کے علاوہ بھی کئی اور عوامل ہیں جو کہ ہم ہوں یا وائرس کسی بھی جاندار کے جینوم میں موجود معلومات میں تبدیلیاں  کرواتے ہیں۔ آج ہم نہ صرف ان عوامل کے بارے میں جانئیں گے بلکہ پروف ریڈنگ کی صلاحیت جو کہ وائرسوں کے علاوہ  باقی تقریباً تمام ہی جانداروں میں پائی جاتی ہے اس پہ بھی گفتگو کریں گے۔

بلاگ کا پہلا حصہ یہاں سے پڑھیے: میوٹیشنز، کورونا وائرس اور ڈارون

جیسا کہ پچھلی بار ہم نے جانا تھا کہ ہمارے جینوم  میں ہونے والی تبدیلیاں یا میوٹیشنز ہر وقت ہو رہی ہوتی ہیں۔ انسانوں  اور باقی کے تمام جانداروں (جن میں کچھ وائرس بھی شامل ہیں جیسے ہیپاٹائیٹس بی  اور پولیو وغیرہ) کا جینوم ڈی این اے نامی مالیکیول پہ مشتمل ہوتا ہے  جبکہ کچھ وائرس (مثلاً انفلواینزا، ایڈز، ہیپاٹائیٹس سی اور ڈینگی وغیرہ )ایسے ہیں  جن کا جینوم آر این اے مالیکیول کا بنا ہوا ہوتا ہے۔ ان دونوں مالیکیولز کی کیمیائی ترکیب بہت معمولی سے فرق کے ساتھ ایک ہی ہے  اور ان کا کام بھی بالکل ایک جیسا ہے۔  مجموعی طور پہ ڈی این اے کی ایک دوسرے پہ لپٹی ہوئی دو لڑیاں ہوتی ہیں  جبکہ آراین اے میں صرف ایک ہی لڑی ہوتی ہے جیسا کہ آپ تصاویر میں دیکھ سکتے ہیں۔

ہم، کورونا وائرس اور میوٹیشنز کا سددِباب (گزشتہ سے پیوستہ) 1

اس مضمون میں اب میں ڈی این اے اور آراین اے کی بجائے صرف جینوم کی اصطلاح استعمال کرونگا جس سے مراد یہ دونوں ہی ہونگے۔ جیسا کہ ہم جان چکے ہیں کے جینوم میں تبدیلیاں موٹیشنز کہلاتی ہیں اور ان کا اثر ان کے حامل جانداروں پہ پڑتا ہے۔ ان تبدیلیوں کے کئی مختلف عوامل ہوتے ہیں جن میں سر فہرست: سورج کی روشنی میں موجود الٹراوائیلٹ شعائیں، سگریٹ کے دھوئیں میں شامل کینسر کا سبب بننے والے اجزاء، ہمارے اپنے جسم میں پیدا ہونے والے کچھ کیمیائی عناصر، تابکاری، اور تو اور بعض صورتوں میں کچھ مخصوص جراثیم اور وائرس بھی ہمارے جینوم کے دشمن واقع ہوتے ہیں۔

ان تمام عوامل و عناصر کو عمومی طور پر دو اقسام میں تقسیم کیا جاتا ہے ؛ اول  وہ تمام عناصر جو کہ ہمارے جسم کے اندر پیدا ہوتے ہیں اور دوم بیرونی عناصر۔ ان میں زیادہ تر کے خلاف ہمارے جسم کے خلیات میں مدافعت کی صلاحیت ہوتی ہے یعنی یہ ہمارے جینوم میں کوئی تبدیلی کرنے سے پہلے ہی ٹھکانے لگا دئیے جاتے ہیں ،لیکن کبھی کبھار یہ عناصر خلیات کی مدافعت  پہ حاوی ہوکر ہمارے جینوم میں من مانی تبدیلیاں کرنے میں مشغول ہو جاتے ہیں۔اس صورت میں جینوم کو پہنچنے والے نقصان کی مرمت اور اس کو اصلی حالت میں بحال کرنے کی صلاحیت بھی ہمارے خلیات کو حاصل ہوتی ہے۔ لیکن اس مرمت اور بحالی کی بھی ایک حد ہوتی ہے اور اگر پہنچنے والا نقصان بہت زیادہ ہو تو پھر مرمت بھی کام نہیں آتی۔

اس حد کو جاننے سے پہلے نقصان کی نوعیت اور اقسام کو سمجھ لیتے ہیں۔ کسی بھی جاندار کے جینوم کو دو طرح کا نقصان ہو سکتا ہے ،اگر جینوم کو ایک کتاب یا فائل تصور کر لیا جائے تو  ان دونوں اقسام کو سمجھنا نہایت آسان ہو جائے گا۔ جینوم کو فائل یا کتاب سمجھنے کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ آپ فائل کے اندر موجود الفاظ اور تحریر کو ہمارے جینوم میں موجود جینز اور دیگر جنیاتی معلومات سے تشبیہ دے سکتے ہیں۔

  ہم، کورونا وائرس اور میوٹیشنز کا سددِباب (گزشتہ سے پیوستہ) 2

تصور کریں کہ آپ اپنے دفتر سے کوئی ضروری فائل اپنے گھر لئے آتے ہیں  کچھ مزید کام کرنے کے لئےگھر لے کر آتے ہیں ، اور آپ کی غیر موجودگی میں یہ فائل بچوں کے ہاتھ چڑھ جاتی ہے۔ ان ظاہر سی بات ہے کہ اس فائل کو دو طرح سے نقصان پہنچ سکتا ہے۔ پہلی صورت  تو یہ کہ کوئی اس فائل کی تحریر میں تحریف کردے یعنی بچوں نے پنسل پکڑ کر اس کے صفحات پہ پوری آرٹ گیلری بناڈالی ہو، جگہ بہ جگہ ایبسٹریکٹAbstract  آرٹ کے نمونے تو کہیں کاٹون اور شکلیں، لکھی ہوئی تحریر کا حلیہ ہی  بگاڑ دیں گی۔ اگرچہ فائل اپنی جگہ موجود ہےمگر اب اس کے اندر موجود معلومات آپ کے کسی کام کی نہیں رہی  جب تک کہ  آپ ربر کی مدد سے آرٹ کے ان تمام گراں قدر نمونوں کو مٹا نہ دیں۔ الٹراوائیلٹ شعائیں اور ہمارے جسم میں پیدا ہونے والے کچھ کیمیکلز ہمارے جینوم کے ساتھ کچھ ایسا ہی سلوک کرتے ہیں کہ وہ ہماری جینز میں موجود معلومات میں خلل ڈال کر انھیں پڑھنے کے قابل نہیں رہنے دیتے ہیں۔

ہم، کورونا وائرس اور میوٹیشنز کا سددِباب (گزشتہ سے پیوستہ) 3

اس قسم کے نقصان کے ازالے کے لئے تین قسم کے نظام ہمارے خلیات میں پائے جاتے ہیں ۔ انہیں بیس ایکسیژن رپئیر Base Excision Repair, نیکلئوٹائیڈ ایکسیژن رپئیر Nucleotide Excision Repair ، اور مس میچ رپئیر Miss Match Repair، کہتے ہیں۔ یہاں ان کی زیادہ تفصیل میں جانے کا موقع نہیں  لیکن اختصار کے ساتھ یہ جان لیں کہ ہمارے خلیات میں کچھ پروٹینز ایسے ہوتے ہیں جو کہ جینو م کا ہر وقت مشاہدہ کرتے رہتے ہیں اور اس میں نظر آنےوالی کسی بھی تبدیلی کو فوری طور پہ رپورٹ کرتے ہیں۔  اس رپورٹ کے نتیجہ میں اوپر بتائے گئے رپئیرسسٹمز میں سے متعلقہ سسٹم فوری طور پہ حرکت میں آتا ہے اور جینوم میں موجود غلطی یا تبدیلی والے حصہ کو قینچی کی طرح سے کاٹ کر دوبارہ سے سے ٹھیک کردیتا ہے۔

ہم، کورونا وائرس اور میوٹیشنز کا سددِباب (گزشتہ سے پیوستہ) 4

یہی بنیادی طور پہ وہ پروف ریڈنگ کی صلاحیت ہے جس ہم نے پچھلے مضمون میں پڑھا تھا۔ جب بھی کوئی خلیہ تقسیم  ہوکر دو نئے خلیے بناتا ہے تو وہ اپنے جینوم کی دو کاپیاں تیار کرتا ہے ۔ اس سے پہلے کہ وہ تقسیم ہو ان تیار شدہ کاپیوں کی پروف ریڈنگ کے لئے یہ رپئیرسسٹمز حرکت میں آتے ہیں اور انھیں جہاں جہاں کوئی غلطی یا سقم نظر آتا ہے یہ اسے ٹھیک کرتے چلے جاتے ہیں۔

ہم، کورونا وائرس اور میوٹیشنز کا سددِباب (گزشتہ سے پیوستہ) 5

یہ تو تھی   پہلے قسم کی غلطی  اب دوسری قسم کے نقصان کو سمجھنے کے لیے آپ کو دوبارہ دفتر سے ایک نئی فائل گھر لانی پڑے گی، لیکن اس بار آپ نے خیال رکھا اور بچوں کے ہاتھ پین یا پینسل نہیں لگنے دیئے۔  اب بچے تو ہیں شرارتی اور انہیں کھیلنے کے لئے اور کچھ نہیں ملا تو دوبارہ آپ کی فائل کی شامت آئی اور اب کی بار انھوں نے آرٹ سے انجئنیرنگ کا سفر طے کرتے ہوئے فائل کے کاغذ پھاڑ پھاڑ کر  جہاز اور کشتیاں بنانے شروع کردیئے۔ جب تک آپ کو اطلاع ملتی آدھی  فائل گھر کے کونوں میں بکھر چکی تھی، اور اگر کوئی زیادہ شرارتی بچہ ہو تو پھر تو پوری فائل کا اللہ ہی حافظ سمجھئے۔  اب آپ زیادہ سے زیادہ اتنا ہی کر سکتے ہیں کہ جتنے صفحات آپ کو مل سکیں آپ انھیں جمع کر کے دوبارہ ترتیب سے فائل میں لگانے کی کوشش کریں۔  لیکن اگر کوئی صفحہ نہیں ملتا آپ کو تو پھر اس پہ لکھی تحریر اگر آپ کی یاداشت یا پھر اس کی نقل آفس میں موجود نہیں تو پھر آپ اس معلومات کو ہمیشہ کے لئے کھودیں گے۔

ہم، کورونا وائرس اور میوٹیشنز کا سددِباب (گزشتہ سے پیوستہ) 6

ہمارے جینوم کے ساتھ بعینہ یہی معاملہ ہوتا ہے۔ بہت سے تابکار اور کیمیائی عناصر ہمارے جینوم کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔

ہم، کورونا وائرس اور میوٹیشنز کا سددِباب (گزشتہ سے پیوستہ) 7

اس نقصان کی شدت کی وجہ سے عمومی طور پہ ہمارے خلیات کے پاس اس کا کوئی علاج نہیں ہوتا ہے۔ آپ نے سن یا پڑھ رکھا ہوگا کہ جب جاپان پہ امریکہ نے ایٹم بم گرائے تھے تو  کچھ لوگوں کی ہلاکت تو فوری طور پہ دھماکے کے اثرات کی وجہ سے ہوگئی تھی جبکہ وہ لوگ جو دھماکے سے تو بچ گئے تھے  اگلے چند ایام میں انھیں شدید بیماری کا سامنا کرنا پڑا اور وہ بھی تابکاری کی تاب نہ لاسکے اور ان کی بھی اموات انہی چند دونوں میں ہوگئی تھیں۔

ہم، کورونا وائرس اور میوٹیشنز کا سددِباب (گزشتہ سے پیوستہ) 8

جبکہ وہ بدقسمت جو کہ فوری طور پہ موت سے تو بچ گئے تھے ان کی زندگی پہ مستقل بیماری اور معذوری کا سایہ ہی رہا، اور یہی وجہ ہے کہ غیر ضروری ایکس رے کرنے سے بھی اجتناب کرنا چاہیئے کیونکہ اس میں بھی تابکاری کی بہت ہلکی مقدار استعمال ہوتی ہے۔

ہم، کورونا وائرس اور میوٹیشنز کا سددِباب (گزشتہ سے پیوستہ) 9

اسی تابکاری کا ایک فائدہ مندپہلو یہ بھی ہے کہ جب ہم وائرس کو اس کا نشانہ بناتے ہیں تو حسبِ توقع اس کے جینوم میں بھی وہی توڑ پھوڑ ہوتی ہے اور اس کے نتیجہ میں وائرس اپنی افزائشِ نسل اور بیماری پھیلانے والی صلاحیتوں سے محروم ہو جاتاہے۔ آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ یہ تو توپ سے مچھر مارنے والی بات ہوگئی کہ وائرس اور بیماری تو ایک طرف رہی یہاں تو مریض کو اپنی جان کے لالے پڑجائی گے اگر اس کو تابکاری کا سامنا کرنا پڑے۔ حضورِ والا آپ کی بات بالکل بجا ہے، کینسر کے علاوہ  تابکاری ( اور وہ بھی انتہائی احتیاط کے ساتھ ) کا علاج معلاجہ کے ساتھ کوئی براہِ راست تعلق نہیں ہے  البتہ تشخیص وغیرہ میں اس کا استعمال ضرور ہوتا ہے۔ لیکن یہاں سب سے اہم بات وائرس کے حوالے سے یہ ہے کہ تابکاری کا شکار وائرس جو کہ اب نہ تو اپنی تعداد بڑھا سکتا ہے اور نہ ہی کسی کو بیمار، ایسے وائرس کو ہم بطور ویکسین بھی استعمال کرسکتے ہیں اور کرتے ہیں۔

(جاری ہے)

ہم، کورونا وائرس اور میوٹیشنز کا سددِباب (گزشتہ سے پیوستہ) 10

Dr. Muhammad Ibrahim Rashid Sherkoti

Hi, I am a Ph.D. in biotechnology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am interested in biotechnology, infectious diseases and entrepreneurship. You can contact me on my Twitter @MIR_Sherkoti.