ملیریا اور مچھر:
اس دنیا میں بہت سے ایسے پیراسائٹس موجود ہیں، جن کی گزر بسر مکمل اپنے میزبان پر ہوتی ہے۔۔۔ وہ اس کے بغیر گزارا نہیں کر سکتے ۔۔۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں جن کی گزر بسر اپنے میزبان سے باہر بھی ہوجاتی ہے۔۔۔ لیکن کچھ پیراسائٹ ایسے بھی ہوتے ہیں جو باہر اپنی زندگی کا سائیکل چلا ہی نہیں سکتے۔۔۔ انکو ہمیشہ اپنے میزبان میں ہی رہنا ہوتا ہے، یعنی میزبان سے باہر ان کا نظر آنا مشکل ہے۔۔۔ وہیں سے یہ اپنی انرجی بھی لیتے ہیں اور وہیں اپنی نسل بھی بڑھاتے ہیں۔۔۔
انہیں پیراسائٹس میں سے ایک طرح کے پیراسائٹ ملیریا کے ہیں، جنہیں ہم “پلازموڈیم” کہتے ہیں۔۔۔ یہ وہ پیراسائٹ ہیں جن کی اپنی زندگی کبھی میزبان کے جسم سے باہر ہوتی ہی نہیں ہے۔۔۔ خاص بات یہ ہے کہ یہ پیراسائٹس ایک سے زیادہ میزبان تو رکھتے ہیں، لیکن ایک سے دوسرے میں جانے کے لیے کبھی جسم سے باہر نہیں نکلتے۔۔۔ بلکہ انکو کم از کم ایک میزبان ایسا ضرور چاہیے ہوتا ہے جو ان کو ڈائریکٹ ان کے دوسرے میزبان سے لے لے۔۔۔ یعنی اس طرح کی ٹرانسفر ہو کہ جسم سے باہر نا نکلنا پڑے۔۔۔ اگر پلازموڈیم انسان میں بیماری پھیلاتا ہے، تو ایک میزبان تو انسان ہوگیا۔۔۔ تو دوسرا ایسا کونسا میزبان ہوگا، جو پلازموڈیم کو بغیر باہر نکلے انسانی جسم سے اٹھا لے؟؟؟ جی ہاں آپ ٹھیک سمجھے۔۔۔ یہ میزبان مچھر ہے۔۔۔ مچھر کی بھی ایک مخصوص قسم ہے جو پلازموڈیم کی میزبان ہو سکتی ہے، جسے اینوفلیز (anopheles) کہتے ہیں۔۔۔ سب مچھر پلازموڈیم کے میزبان نہیں ہوسکتے ۔۔ اور اینوفلیز میں بھی صرف فیمیل ہی اس مچھر کی ٹرانسفر کی وجہ ہوسکتی ہے۔۔ سوال ہے کہ کیوں؟؟ اس لیے کہ صرف فیمیل کا ہی ڈائریکٹ واسطہ انسانی جسم سے پڑتا کے۔۔۔ میل “خون نہیں چوستا” 😜۔۔ فیمیل کو اپنے انڈوں کی خوراک کے لیے انسانی خون کی پروٹینز چاہیے ہوتی ہیں۔۔۔ اس وجہ سے وہ انسانی خون لیتے لیتے پلازموڈیم انسان سے اٹھا بھی لیتی ہے، اور اس کو ٹرانسفر بھی کردیتی ہے۔۔۔
پلازموڈیم کئی اشکال میں پایا جاتا ہے۔۔۔ اس کی وہ شکل جو اینوفلیز میں پائی جاتی ہے، اصل میں وہ بالکل بے ضرر ہوتی ہے۔۔۔ یہ شکل سپوروزوائٹ (sporozoite) کہلاتی ہے۔۔۔ یہ سپوروزوائٹ مچھر کے تھوک کے گلینڈز میں موجود ہوتا ہے۔۔۔ جب مادہ مچھر اپنا ڈنگ کھال میں گھسا کر خون میں لے جاتی ہے تو خون کا جمنے نا دینے کے لیے اس کے ساتھ تھوک بھی نکالتی ہے جس کی وجہ اصل میں پلازموڈیم ٹرانسفر کرنا نہیں ہوتی۔۔۔ بلکہ مادہ مچھر کے تھوک میں anticoagulant ہوتا ہے جو خون کو جمنے نا دینے کے لیے ہوتا ہے۔۔۔ اسی تھوک کے ساتھ سپوروزوائٹ جو مچھر کے اندر بنا ہے، انسانی خون میں چلا جاتا ہے لیکن جب تک یہ جگر میں نہیں جاتا یہ بے ضرر ہے۔۔۔ اسی وجہ سے سائنسدان کوشش یہ کرتے ہیں کہ وہ ویکسین بنائیں جو خاص طور پر سپوروزوائٹ کے خلاف ہو۔۔۔ کیوں اگر یہ جگر میں جا کے اپنی اگلی شکل میروزوائٹ (merozoite) میں بدل گیا، پھر انفیکشن کو نہیں روکا جا سکتا۔۔۔ اس لیے سپوروزوائٹ کے خلاف ویکسین بنتی ہے۔۔۔ یہ سپوروزوائٹ خون میں سے ہوتا ہوا جگر میں داخل ہوتا ہے اور جگر کے خلیوں میں میروزوائٹ بن جاتا ہے۔۔۔ اب ملیریا کی انفیکشن کا آغاز ہوتا ہے ۔۔ یہ میروزوائٹ دو کام کر سکتے ہیں
1. یہ اب خون کے خلیوں میں داخل ہونگے اور وہاں asexually اپنی نسل بڑھائیں گے اور سرخ خلیوں کو توڑنا شروع کرینگے۔۔۔ اس کی وجہ سے ہمیں ملیریا میں ٹھنڈ محسوس ہوتی ہے۔۔۔
2. یہ ایک خاص قسم کا خلیہ بنائیں گے جو مچھر میں جا کر سپرم اور بیضے (egg) میں بدل جائیگا۔۔۔ اس خلیے کو gametocyte کہتے ہیں۔۔۔ یہ سپرم اور بیضہ مچھر کے اندر جا کر سپوروزوائٹ پھر سے بنائیگا۔۔۔ اور وہ سپوروزوائٹ مچھر کے تھوک کے گلینڈز میں آ جائیگا۔۔۔ اور دوبارہ اس سائیکل کا آغاز ہوگا۔۔۔
تو اس سائیکل کے دو حصے ہوگئے۔۔۔ یعنی دو میزبان
1. انسان میں: جہاں وہ میروزوائٹ اور gametocyte بناتا ہے
2. مچھر میں بے ضرر شکل یعنی سپوروزوائٹ جو سپرم اور بیضے سے مل کے بنتی ہے۔۔۔

ایک سوال اور اس کا ازالہ:
پلازموڈیم سے مچھر کو نقصان کیوں نہیں ہوتا؟؟؟
جواب:
اگر پلازموڈیم فیمیل اینوفلیز میں موجود ہے، تو وہ جس شکل میں وہاں پلا بڑھا ہے اس شکل میں وہ بیماری نہیں پھیلا سکتا۔۔ یعنی سپوروزوائٹ۔۔۔ سپوروزوائٹ جب اس مچھر کے کاٹنے سے انسانی خون میں شامل ہوتے ہیں، تو تب بھی ابھی وہ ملیریا کی وجہ نہیں بنتے۔۔۔ لیکن اگر یہ سپوروزوائٹ جگر میں پہنچ جاتے ہیں، تو وہاں کے خلیوں میں اپنی شکل تبدیل کر کے میروزوائٹ بن جاتے ہیں۔۔۔ یہ میروزوائٹ اصل میں وہ شکل ہے جو اب ملیریا کی وجہ بنے گی۔۔۔ یہی میروزوائٹ اپنی gametocyte بھی خون میں شامل کرتے ہیں، جو اگلا مچھر ہمارے خون کے ساتھ اپنے نظام انہظام میں لے جاتا ہے اور وہاں اگلا سپوروزوائٹ (بے ضرر شکل کا) بنتا ہے۔۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے، کہ اگر مچھر میروزوائٹ کو اٹھا لے، تو کیا ہوگا۔۔۔ ایک تو وہ میروزوائٹ جاتا ہی معدہ میں ہے، لیکن اگر وہاں سے کراس کر جاۓ تو؟؟ مچھر کے اندر خون نہیں ہوتا بلکہ ایک دوسرا مادہ ہوتا ہے جسے ہیمولمف کہتے ہیں۔۔۔ اس کے خلیوں کو ہیموسائٹس کہتے ہیں۔۔۔ ایک تو ان ہیموسائٹس کا اپنا دفاعی نظام بھی ہوتا ہے۔۔۔ دوسرا یہ کہ مچھر کا اپنا اصل دفاعی نظام میروزوائٹ کے خلاف کامیابی سے ایکشن کر سکتا ہے جس کہ وجہ سے انفیکشن نہیں ہوسکتا۔۔۔

تحریر: حنان عبدالخالق

Hannan A. Khaliq

Zoology/Biology Lecturer Topics of interest: All Zoology/Biology but especially Evolution, Physiology, Genetics, Microbiology, Ecology M.Phil Zoology (Specialization in Ecology) from University of The Punjab Quaid E Azam Campus