”مجھے ہمیشہ سے ریاضی پڑھنے کا شوق تھا۔ لیکن قسمت کا کرنا یہ ہوا کہ میں نے ایف ایس سی میں پری میڈیکل رکھی اور ریاضی مزید پڑھنے کا موقع نہ ملا۔ پھر (ساٹھ سال کی عمر میں) مجھے خان اکیڈمی کے بارے میں پتہ لگا اور اس آئیڈیا نے مجھے کافی حیران کیا۔ میں نے اپنے پرانے شوق کو ایک دفعہ پھر تازہ کرنے کا سوچا۔ چنانچہ میں نے خان اکیڈمی کی ویب سائٹ پر کیلکولس کی مشقیں کرنا شروع کیں۔ جہاں کہیں مسئلہ ہوتا میں پھر واپس جا کر دوبارہ سے شروع کردیتا تھا۔ یہ صلاحیت کہ ایک طالبعلم جب چاہے اپنی مرضی کے وقت پر استاد سے دوبارہ سے وہی موضوع اسی توجہ اور تندہی سے سن سکے، پرانے سسٹم میں ایک بہت بڑی تبدیلی ہے۔“
یہ کہنا تھا اسلامی جمہوریہ پاکستان کے صدر ڈاکٹر عارف علوی صاحب کا۔ وہ لاہور میں ایشین اسوسی ایشن آف اوپن یونیورسٹیز کی کانفرنس کی اختتامی تقریب سے خطاب کر رہے تھے جس میں بارہ ایشیائی ریاستوں کے ایک سو بارہ مندوبین نے شرکت کی۔ وہ کہتے ہیں کہ اس ذاتی تجربے کے بعد انہوں نے اپنے حلقے میں پہلی جماعت کے تیس طلبا کو تجربے کے طور پر کچھ ٹیبلٹس دلوائیں اور ایک سال بعد دیکھا تو ان طلبا کی تعلیمی کارکردگی رٹا لگانے والے طلبا سے کئی گنا بہتر تھی۔
انٹرنیشل کونسل فار اوپن اینڈ ڈسٹینس لرننگ کے سربراہ ڈاکٹر روری مک گریل کا اس موقع پر کہنا تھا کہ آج کینیڈا میں ایک بھی یونیورسٹی ایسی نہیں جو طلبا کو گھر بیٹھے نت نئے کورسز سیکھنے کی سہولت نہ دیتی ہو۔ ان کے مطابق ٹیکنالوجی اتنی تیزی سے زندگیوں میں تبدیلیاں لا رہی ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں بیٹھے پالیسی میکر اور تعلیم دان بھی مسلسل اس کوشش میں مغز کھپا رہے ہوتے ہیں کہ ان نئے ٹولز کو سسٹم میں مزید بہتری کے لئے کیسے استعمال کیا جائے۔ ترقی پذیر ممالک کو بھی ان نئی سہولیات کا زیادہ سے زیادہ سمجھ داری کے ساتھ فائدہ اٹھانا چاہیئے۔ بلکہ یہ کہنا غلط نہیں ہو گا کہ ترقی پذیر ممالک کے لئے ٹیکنالوجی کا درست اور بروقت استعمال زیادہ ضروری ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ کو لگتا ہے کہ آپ کو سب کچھ ٹھیک ٹھیک سمجھ آ گیا ہے (یعنی آپ نے پرفیکٹ سسٹم بنا لیا ہے جس میں بہتری کی کوئی ضرورت نہیں) تو اس کا مطلب ہے کہ آپ کو کچھ سمجھ نہیں آیا۔
انسان کی یہ فطرت ہے کہ ہم نئی چیزوں سے خوف زدہ ہوتے ہیں۔ ہمیں بچپن ہی سے نئے لوگوں، مقامات یا نہ سمجھ آنے والی چیزوں سے دور رہنا سکھایا جاتا ہے۔ ناکامی کا خوف ہمیں نئے مشاہدات اور تجربات سے دور رکھتا ہے کیونکہ ایک عرصہ تک یہ خوف انسان کی بقا کے لئے انتہائی ضروری بھی تھا۔ ایسے میں ”آئینِ نو سے ڈرنا، طرزِ کُہن پہ اَڑنا“ کوئی انہونی بات نہیں۔ تاہم آج کی جدید دنیا میں ”ثبات ایک تغیر کو ہے زمانے میں“۔ اس ظمن میں صدر صاحب کا کہنا تھا کہ 2013 کا الیکشن جیتنے کے بعد جب وہ اسمبلی میں اپنا لیپ ٹاپ لے کر گئے تو اس وقت کے سپیکر صاحب نے لیپ ٹاپ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ اس کو اسمبلی میں لانا غیر قانونی ہے۔ صدر صاحب کو چونکہ شروع ہی سے ٹیکنالوجی پر انحصار کی عادت تھی اور ان کا سارا ریکارڈ ہی لیپ ٹاپ میں تھا تو انہوں نے مسئلہ کو اسمبلی میں اٹھایا اور اس سلسلے میں قانون میں ترمیم کروانے اور لیپ ٹاپ اسمبلی میں لانے کی اجازت حاصل کرنے میں چھے ماہ کا عرصہ لگ گیا۔ بتانے کا مقصد یہ تھا کہ ہماری روایتی قدامت پسندی اوراس سلسلے میں سسٹم میں تبدیلی کے خلاف پائی جانے والی مزاحمت ایک بڑا مسئلہ ہے۔ دفتروں میں کلرکوں کی فائلیں بغیر پہیوں کے حرکت نہیں کرتیں اور سسٹم (یا سوسائٹی مجموعی طور پر) اپنے آپ میں تبدیلی کی کوئی خاص گنجائش نہیں دیتا۔
ایسے میں ڈسٹنس اور آن لائن لرننگ تعلیم کی دنیا میں ایک انقلاب لانے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ آن لائن دنیا میں آپ انفارمیشن کے آزادانہ بہاؤ کو روک نہیں سکتے۔ چنانچہ جہاں زیادہ معلومات دستیاب ہیں وہاں سے ضرورت کی جگہ اور وقت پر معلومات بہم پہنچائی جا سکتی ہیں۔ زمانہ قدیم میں صاحب کتاب کی حیثیت اور اہمیت کو پرنٹنگ پریس نے کم کر دیا تھا اور آج کی ڈجیٹل ایج ایک دفعہ پھر علم پر مخصوص گروہوں کی اجارہ داری ختم کرنے جا رہی ہے۔ اس سلسلے میں ہم سب کو چاہیئے کہ نئے زمانے کے اطوار و اسلوب سیکھیں اور ان سے زیادہ سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کریں۔
اس کانفرنس کے دوران مجھ انجان پر یہ انکشاف بھی ہوا کہ ورچوئل یونیورسٹی حکومت پاکستان کے تعاون سے بیس لاکھ لوگوں کو کمپیوٹر ٹیکنالوجی سے متعارف کروا کر آن لائن کاروبار (فری لانسنگ) کی ٹریننگ دے چکی ہے۔ اب اس پروگرام کے دوسرے بیچ کی رجسٹریشن ان کی ویب سائٹ digiskills.pk پر جاری ہے۔ یہ کورسز مفت دستیاب ہیں اور آپ اپنے پی سی یا موبائل پر کلاسز لے سکتے ہیں۔ یہ کورسز خواتین، سٹوڈنٹس اور پارٹ ٹائم جاب ڈھونڈنے والوں کے لئے انتہائی موضوں ہیں جن سے مستفیذ ہو کر آپ گھر بیٹھے ڈالروں میں کمائی کر سکتے ہیں۔ یہاں درجن سے زائد کورسز دستیاب ہیں جن میں سے آپ کوئی سے دو ایک وقت میں کر سکتے ہیں۔ میری آپ سب سے گزارش ہے کہ خود بھی ان کورسز سے فائدہ اٹھائیں اور دیگر طلبا کو بھی اس کی اہمیت اور افادیت کے بارے میں بتائیں۔ اس دفعہ کورس شروع ہونے کے پہلے دن ہی چند گھنٹوں میں پچاس ہزار سے زیادہ لوگوں نے سائن اپ کیا ہے۔ امید ہے کہ اگلے دو چار دنوں میں باقی سیٹیں پر ہو جائیں گی۔ بہت سے لوگ اس پلیٹ فارم سے ہزاروں ڈالر (لاکھوں روپے ماہانہ) کما رہے ہیں۔ سائن اپ کا طریقہ اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے۔
آج کا دور ڈجیٹل لرننگ کا دور ہے۔ اکیسویں صدی کا کلاس روم اٹھارہویں صدی کے کلاس روم سے بہت حد تک مختلف نظر آنا چاہیئے۔ کسی موضوع پر لائبریری میں بیٹھ کر سینکڑوں کتابوں سے غبار اڑانے سے لے کر مطلوبہ علم تک رسائی کا سفر اب انگلی کی ایک جنبش تک سمٹ کر رہ گیا ہے۔ تعلیم کے میدان میں بالخصوص استاد کو ایک دفعہ پھر اپنا قائدانہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ”جہانِ تازہ کی افکارِ تازہ سے ہے نمود“۔ علم کے ماخذوں اور خزانوں تک آسان اور ہمہ وقت دسترس کے باوجود اگرہم اپنے دلچسپی کے موضوعات، مضمون، فیلڈ کی تازہ ترین اپ ڈیٹس اور عمومی علوم حاضرہ سے نابلد ہیں تو یہ ہماری انتہائی حد تک مجرمانہ غفلت اور معاملہ نہ فہمی کی بد ترین مثال ہو گی۔
زمانے کے انداز بدلے گئے
نیا راگ ہے، ساز بدلے گئے
خرد کو غلامی سے آزاد کر
جوانوں کو پیروں کا استاد کر
میں گزشتہ سات سال سے لوگوں کو آن لائن لرننگ کی طرف راغب کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ افسوس یہ ہے کہ ہمارے یہاں لوگ بھی اس روایتی جمود کا شکار ہیں اور کچھ کرنا نہیں چاہتے۔ اکثر لوگوں کا خیال ہوتا ہے کہ اگر وہ کوئی آن لائن کورس ڈیزائن کر بھی لیں تو اس کو دیکھے گا کون کیونکہ ان کے جاننے والے اور سٹوڈنٹس میں کوئی بھی انٹرنیٹ تک رسائی نہیں رکھتا۔ یہی بات لوگ مجھے تب بھی کہتے تھے جب سات سال پہلے میں نے اپنی ویب سائٹ EasyLearningHome.com شروع کی تھی۔ اس وقت ابھی پاکستان میں تھری جی انٹرنیٹ بھی نہ آیا تھا اور زیادہ تر لوگوں کے پاس انٹرنیٹ نہیں تھا۔ اس وقت بھی ایک سال سے کم عرصہ میں میری ویب سائٹ پورے پاکستان میں دیکھی گئی۔ آج اس ویب سائٹ پر ماہانہ ستر اسی ہزار پیج ہٹس ہوتی ہیں۔ اب حال ہی میں ہم نے ایک نئی ویب سائٹ TaleemKahani.com کے نام سے لانچ کی جس کا مقصد اساتذہ کو آن لائن ٹیچنگ اور بلاگنگ پلیٹ فارم مہیا کرنا ہے۔ آپ بھی اس کا حصہ بن سکتے ہیں۔ اب تک اس ویب سائٹ پر بھی لوگوں کا رد عمل حوصلہ افزا رہا ہے۔
کرونا وائرس کی وجہ سے ہونے والے لاک ڈاؤن نے بہت سے لوگوں اور بزنسز کو آن لائن سسٹمز کی طرف متوجہ کیا ہے۔ تاریخ گواہ ہے کہ انسانوں نے اپنے سامنے آنے والی آفات اور چیلنجز کا مقابلہ اپنی طاقت سے نہیں بلکہ ذہانت سے کیا ہے۔ امید ہے کہ یہ وبا ہمیں نئی جہتوں اور امکانات کی طرف سوچنے میں مدد دے گی۔ فارغ وقت کا فائدہ اٹھائیں ڈجی سکلز کے لرننگ مینجمنٹ سسٹم سے سمارٹ ڈجیٹل لرنر بنیں۔