اس وقت ملک بھر میں اندازاً ڈیڑھ سے دو ہزار کے قریب پی ایچ ڈیز بیروزگار ہیں۔ جبکہ یونیورسٹیز اور ایچ ای سی بوجوہ انہیں کھپانے سے قاصر ہیں۔
دو دہائیوں پہلے نئی صدی کی شروعات پر ڈاکٹر عطا الرحمٰن کی زیرِ قیادت پاکستان میں اعلیٰ تعلیم کا ایک انقلاب آیا۔ اعلیٰ تعلیمی کمیشن یا ایچ ای سی کے قیام کے ساتھ ہی ملک بھر سے طلبا کو اعلیٰ تعلیم کےلیے اندرون و بیرونِ ملک وظائف دیے گئے۔ جامعات میں اساتذہ کی تنخواہوں میں اضافہ کیا گیا اور جدید آلات و تحقیقی پراجکٹس کےلیے بے نظیر سرمایہ کاری کی گئی۔ ان اقدامات کے نتیجے میں برپا ہونے والے انقلاب کی تعریف دنیا بھر میں کی گئی اور ان اقدامات کو بھارت جیسے ممالک میں نہ صرف غور کے ساتھ پرکھا گیا بلکہ ان کو اپنانے کی کوششیں بھی کی گئیں۔
سیاسی منظرنامے کی تبدیلی، معاشی عدم استحکام اور انتظامی نااہلی کی بدولت ڈیڑھ دہائی قبل کا انقلاب اب اپنے ثمرات سمیٹنے کی صلاحیتوں سے محروم ہوچکا ہے۔ اس وقت ملک بھر میں اندازاً ڈیڑھ سے دو ہزار کے قریب پی ایچ ڈیز بیروزگار ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن میں سے ہر ایک پر حکومتِ پاکستان نے لاکھوں کی سرمایہ کاری کی ہوئی ہے، مگر موجودہ صورتحال میں ان سے کوئی فائدہ اٹھانے کا کوئی ارادہ یا عزم فی الحال کہیں نظر نہیں آرہا۔ ان پی ایچ ڈیز کو وظائف دیتے وقت ان سے ایچ ای سی نے ڈگری مکمل ہونے کے بعد وظیفے کے بدلے میں پاکستان میں پانچ سال نوکری کرنے کی شرط عائد کی تھی۔ یہ شرط نہ تو اس وقت نامناسب تھی اور نہ ہی اب ہے۔ کیونکہ اگر ریاستِ پاکستان کسی شخص کو پڑھاتی ہے تو اس کی پہلی ذمے داری اس کا اپنا ملک ہی ہونی چاہیے۔ یہی وجہ تھی کہ نہ تو پہلے کوئی اس شرط کا مخالف تھا اور نہ آج ہے۔
سوال یہ ہے کہ اگر ان اشخاص پر ہونے والی لاکھوں کی سرمایہ کاری کا فائدہ حاصل نہ ہورہا ہو تو اس صورت میں کیا کیا جانا چاہیے؟ ان پی ایچ ڈیز کو حکومتِ پاکستان نے اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کےلیے تیار کیا تھا مگر جب کہ اب ان کی صلاحیتوں سے استفادہ کا موقع ہے تو حکومت ان کو شرط کے مطابق نوکری دینے سے قاصر ہے۔
دوسری جانب آج کل صورتحال یہ ہے کہ جامعات شدید مالی بحران کا شکار ہیں۔ بعض اوقات تو تنخواہ اور پنشن تک دینے کےلیے پیسے دستیاب نہیں ہوتے ہیں۔ ابھی حال ہی میں خیبرپختونخوا کی سب سے بڑی اور پاکستان کی سب سے پہلی یونیورسٹی جامعہ پشاور نے صوبائی حکومت سے مالی مدد کی درخواست کی ہے تاکہ فروری 2020 کی تنخواہوں اور پنشنوں کی ادائیگی بروقت ممکن ہوسکے۔ یہی صورتحال گزشتہ برس جولائی اگست کے دوران بھی پیش آئی تھی اور اس وقت صوبائی حکومت نے ترقیوں اور نئی بھرتیوں پر عارضی پابندی عائد کردی تھی۔ اگرچہ وہ بین تو اٹھایا جاچکا ہے مگر اس وقت بھی ملک بھر میں جامعات میں بھرتی کا عمل سست روی کا شکار ہے۔
ایک طرف تو جامعات کے پاس قابل اساتذہ کی کمی ہے تو دوسری طرف تنخواہوں کےلیے پیسے بھی میسر نہیں ہیں۔ اس کی وجہ درحقیقت گزشتہ بجٹ برائے مالی سال 2019-2020 میں وفاقی حکومت کی جانب سے ایچ ای سی کے درخواست کردہ بجٹ میں تقریباً آدھے کی منظوری ہے۔ اب یہ بات سمجھنے کی کوشش کیجئے کہ سرکاری جامعات کی اکثریت منافع نہیں کماتی ہے، جبکہ انھیں اپنے اخراجات پورے کرنے کےلیے بذریعہ ایچ ای سی، حکومت سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ گزشتہ حکومت تک ایچ ای سی ملک بھر کی تمام تر جامعات کو ان کے بجٹ کا پچاس فیصد تک فراہم کررہا تھا، مگر گزشتہ بجٹ میں لگائے گئے کٹ کے بعد سے جہاں ایچ ای سی کے اپنے کئی پروگرام متاثر ہوئے ہیں، وہیں اس بجٹ کٹ کا اثر جامعات پر بھی پڑا ہے۔ جو کہ مالی بحران کا شکار ہوکر اپنے اخراجات اٹھانے سے قاصر ہیں۔
ایچ ای سی کے متاثر ہونے والے پروگرامز میں جہاں ایک طرف تو وظائف پر اثر پڑا ہے، وہیں آئی پی ایف پی بھی متاثر ہوا ہے۔ مذکورہ پروگرام نئے پی ایچ ڈیز کو ایک سال کےلیے جامعات میں اسسٹنٹ پروفیسر کے عہدے پر تعینات کرتا تھا اور اس پی ایچ ڈی کی ایک سال کی تنخواہ بھی ایچ ای سی ہی دیتا تھا۔ اس پروگرام سے نہ صرف نئے پی ایچ ڈیز کو نوکری کے حصول میں آسانی تھی بلکہ جامعات کو بھی ایک سال کےلیے اچھے اور قابل اساتذہ و محققین کی خدمات بغیر کسی خرچ کے میسر ہوتی تھیں۔ ایچ ای سی کے اعداد و شمار کے مطابق اب تک ستر فیصد سے زائد آئی پی ایف پی فیلوز کو ان کی جامعات نے ایک سال کی مدت کے بعد عارضی یا مستقل نوکری کے ذریعے فیکلٹی میں شامل کیا ہے۔
اس وقت حالت یہ ہے کہ گزشتہ برس اگست سے ایچ ای سی نے آئی پی ایف پی کے تحت کوئی نئی تعیناتی نہیں کی ہے جس کے باعث جامعات اساتذہ کی کمی کو پوری کرنے کےلیے وزیٹنگ فیکلٹی کے نام پر دیہاڑی دار پی ایچ ڈیز بھرتی کر رہی ہیں۔ ایک بات جان لیجیے کہ پی ایچ ڈی کی ڈگری محض ایک ڈگری نہیں ہوتی بلکہ برسوں کی محنت و مشقت کا نچوڑ ہوتی ہے۔ پی ایچ ڈی کے سفر کے دوران ایک محقق شبانہ روز مطالعہ، مشاہدہ اور تجربات کی مدد سے کہیں بیماریوں کا علاج دریافت کرتا ہے تو کہیں نت نئی مصنوعات و اخترعات تخلیق کرتا ہے۔ اس کےلیے وہ کبھی بارہ بارہ گھنٹے تو کبھی بیس بیس گھنٹے بھی لیبارٹریوں میں کھپتا رہتا ہے۔ کسی پی ایچ ڈی کےلیے وزیٹنگ فیکلٹی تعیناتی، ریاستِ پاکستان کی اس پر ہونے والی سرمایہ کاری ضایع کردینے کے مترادف ہے۔ اس لیے کہ اس پی ایچ ڈی کو تیار ہی اسی غرض سے کیا گیا ہے کہ وہ اعلیٰ تعلیم و تحقیق میں اپنا حصہ ڈالے، نہ کہ اپنے روزمرہ کے اخراجات پورے کرنے کےلیے دربدر کی ٹھوکریں کھاتا پھرے۔
گلے شکووں سے ہٹ کر اگر اس معاملے کے حل کی بات کی جائے تو ایک چیز روزِ روشن کی طرح عیاں ہے کہ اس تمام تر معاملے کی جڑ ایچ ای سی کے بجٹ کی کٹوتی ہے۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ ایچ ای سی کو اس کا تجویز کردہ بجٹ فراہم کرنے کے انتظامات کرے۔ اس طرح کافی معاملات تسلی بخش طور پر حل ہوسکتے ہیں۔
دوسری اہم بات جو سمجھنے کی ہے، وہ یہ کہ حکومت، ایچ ای سی، سرکاری اور پرائیوٹ جامعات کی ایک استعداد ہے فیکلٹی جذب کرنے کی۔ اس سے زیادہ جو بھی پی ایچ ڈیز ہوں گے وہ کاروبار، نوکری اور باقی سب کچھ تو کرسکیں گے مگر وہ کام نہیں جس کےلیے ان پر سرمایہ کاری کی گئی ہے۔ اس سرمایہ کاری کا ریٹرن حاصل کرنا ضروری ہے اور لازمی نہیں کہ یہ ریٹرن محض ہیومن ریسورس کی شکل میں ہی حاصل ہو۔ پاکستان ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کے زمانے سے آج تک لیبر ایکسپورٹ کرنے والا ملک ہے۔ آج اگر سمندر پار پاکستانیوں کی تعلیم اور پیشے کی فہرست مرتب کی جائے تو ان میں ایک غالب اکثریت کم تعلیم یافتہ ہنرمندوں ہوگی۔ مگر ذوالفقار علی بھٹو مرحوم کو پچاس برس گزرنے کے بعد آج پاکستان کے پاس پڑھے لکھے ہنرمند افراد کی کھیپ موجود ہے، جس کا فائدہ اس وقت ہم کماحقہ نہیں اٹھا رہے ہیں۔ کیا یہ مناسب نہیں ہوگا کہ اس کھیپ کی برآمد اور اس سے حاصل ہونے والے فوائد پر سوچ بچار کی جائے؟
سب سے پہلا فائدہ تو بیرون ملک سے آنے والے ترسیلاتِ زر میں اضافہ کی شکل میں ہوگا۔ مگر اس سے بھی اہم ایک فائدہ اور ہے۔ یہ فائدہ دنیا بھر میں پاکستان کا سافٹ امیج ابھارنے میں ان پی ایچ ڈیز کے کردار کی شکل میں آئے گا۔
اس وقت اگر دیکھا جائے تو گوگل سے لے کر ٹویٹر، فیس بک اور دیگر تمام تر بڑی بڑی ملٹی نیشنل کمپنیز میں چینی اور بھارتی نژاد افراد کلیدی عہدوں پر فائز ہیں۔ ان لوگوں کو بیجنگ، شنگھائی، دلی یا بمبئی میں نوکریاں نہیں ملی تھیں، بلکہ ان کی اکثریت ان طلبا پر مشتمل تھی جن کو امریکا و یورپ اعلیٰ تعلیم کےلیے بھیجا گیا تھا۔ انھوں نے وہاں اپنی تعلیم مکمل کی۔ جو اپنے ملک واپس آنا چاہتے تھے وہ واپس آگئے، جب کہ باقی وہیں کی یونیورسٹیز اور ان بڑی بڑی کمنیوں میں اچھے عہدوں پر براجمان ہوتے گئے۔ ان تعیناتیوں کے اثرات کے بارے میں اگر آپ کو کوئی شبہ ہو تو صرف اتنا جان لیجیے کہ گزشتہ اگست میں جب بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو ’قانونی‘ طور پر ہڑپ کرنے کا اعلان کیا تھا تو اس وقت پاکستانیوں کی جانب سے ٹویٹر و فیس بک کی پیالیوں میں اٹھائے گئے طوفان کی روک تھام میں بھارتی حکومت کی ڈپلومیسی سے زیادہ اہم کردار ٹویٹر اور فیس بک میں ملازم بھارتی نوجوانوں نے ادا کیا تھا۔ جنہوں نے اپنے تعصب کی بنیاد پر ہزاروں لاکھوں پوسٹوں کو ڈیلیٹ اور ریموو کیا (اگر آپ کو یقین نہیں آتا تو اپنی ٹویٹر فیڈ دیکھ لیجئے۔ گزشتہ اگست کی آپ کی کشمیر کے حوالے سے کی گئی کئی ٹویٹس آپ کے علم میں آئے بغیر ہی ڈیلیٹ ہوچکی ہوں گی)۔
یوتھ کے حوالے سے کئی باتیں کی جاتی ہیں مگر یوتھ کے اس اہم طبقے کو آج کل بالکل فراموش کردیا گیا ہے۔ موجودہ ناگفتہ بہ اقتصادی صورتحال میں ایک طرف حکومت کے پاس عوام کی فلاح و ترقی کےلیے مالی اسباب کی کمی ہے، وہیں پرائیویٹ سیکٹر میں تحقیقی کلچر کے نہ ہونے کے باعث پڑھے لکھے نوجوانوں کو مواقع کی شدید کمی کا سامنا ہے۔ ایسی صورتحال میں اگر اس ’برین کو اسپوائیل‘ ہونے سے نہیں بچایا جاسکتا تو بہتر یہی ہے کہ اسے ’ڈرین‘ ہی ہوجانے دیا جائے۔