ایجوکیشن کا مقصد یہ نہیں ہوتا کہ آپ یاد کر لیں کہ فلاں مکھی کا سائنی نام یہ ہے، فلاں کیڑے کے دل کے اتنے خانے ہیں اور فلاں پروٹین میں اتنے امینو ایسڈ ہوتے ہیں۔ دکھ اور افسوس اس بات کا ہے کہ اکثر طلبا سولہ سال کی ایجوکیشن میں اس سے زیادہ کچھ نہیں سیکھ پاتے۔ دنیا میں اس (رٹے ہوئے) علم کی ردی جتنی اہمیت بھی نہیں ہے۔ یعنی زیرو سکوپ ہے۔

ایجوکیشن کے دوران آپ کو بہت سے متعلقہ سکلز سکھائے جاتے ہیں۔ مثلا میٹرک میں آپ کو گراف بنانے سے واسطہ پڑا ہو گا۔ کبھی نہ کبھی آپ کو ڈیٹا کلیکشن سکھائی گئی ہو گی۔ ڈیٹا کی بنیاد پر فیصلے کرنا سکھایا گیا ہو گا، معلومات کی درستگی کو پرکھنا سکھایا گیا ہو گا، اپنی آبزرویشن کو اچھی طرح بیان کرنا سکھایا گیا ہو گا۔ وغیرہ وغیرہ۔ کسی سٹوڈنٹ نے سیکھا یا نہیں سیکھا یہ الگ بات ہے، لیکن دنیا میں اصل ڈیمانڈ ان چیزوں کی ہوتی ہے۔ آپ نے سائنس پڑھی ہو یا معاشیات اگر آپ کے پاس اس قسم کے سکلز ہیں تو آپ کو نہ کسی سفارش کی ضرورت ہے، نہ کسی کی منتیں کرنے کی۔ کام خود چل کر آپ کے پاس آتا ہے۔

اگر آپ کے پاس ماسٹرز کے برابر ڈگری ہے تو آپ اس ملک کے ٹاپ دو تین فیصد پڑھے لکھے لوگوں میں ہیں۔ یعنی ہر سو میں سے ستانوے اٹھانوے لوگ ایسے ہیں جو اتنی تعلیم نہیں رکھتے۔ اگر ان میں سے بیس پچیس بھی آپ سے یہ علم لینا چاہیں تو مبارک ہو، آپ ان کے استاد بن سکتے ہیں۔ یہ سب سے زیادہ عام دستیاب نوکری ہے۔ آسانی سے ہر جگہ مل جاتی ہے۔

اس کے علاوہ کسی بھی شعبے میں ماسٹرز کے بعد عموما تین چار شعبے ضرور ہوتے ہیں جن میں آپ طبع آزمائی کر سکتے ہیں۔ مثلا اگر آپ نے حیاتیات میں ماسٹرز کیا ہے تو آپ ماہی پروری (فشریز)، ماحولیات (اینوائرمنٹ)، زراعت، جنگلات، جنگلی حیات، صحت وغیرہ کے محکموں میں نوکری کے لئے اہل ہوں گے۔ اس کے علاوہ آپ کے پاس تین چانس صوبائی سول سروس، تین چانس وفاقی سول سروس، تین چانس لیکچرر، اور تین چانس ایجوکیٹر بھرتی ہونے کے ہیں۔ یعنی چھے چانس سول سروس، چھے تعلیم و تعلم اور کئی اور محمکموں میں نوکری کی گنجائش ہے۔ پندرہ سے بیس چانسز بعد بھی کسی کو نوکری نہیں ملتی تو پھر اس میں قصور کس کا ہوا؟

اور ایسا بھی پاکستان میں ہی ہوتا ہے کہ لوگ ماسٹر کر کے ڈائریکٹ افسر لگ جاتے ہیں۔ زیادہ تر ترقی یافتہ دنیا میں ماسٹر کرنے کے بعد آپ کو انٹری لیول (بغیر ایکسپیرئنس) جاب بطور اسسٹنٹ ملتی ہے جو چائے لانے سے لے کر رپورٹیں وغیرہ تیار کرنے تک کا سارا کام کرتے ہیں۔ تین سے پانچ سال سیکھنے کے بعد ان کو تین چار اسسٹنٹس کے اوپر مینیجر یا سپر وائزر لگایا جاتا ہے جس پر وہ پانچ دس سال مزید گزارتے ہیں۔ پھر پندرہ سے بیس سال تجربہ حاصل کرنے کے بعد ان کو ایگزیکٹو لیول کی نوکری ملتی ہے جس میں ان کی ذمہ داری اہم فیصلے کرنا ہوتی ہے۔

ہمارے یہاں ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ عموما طلبا کو والدین وہ کام نہیں کرنے دیتے جس کا ان کو شوق ہوتا ہے۔ والدین کا عمومی جملہ یہی ہوتا ہے کہ فلاں کام میں وقت ضائع کرنے کے بجائے پڑھائی پر دھیان دو۔ اور پڑھائی میں بھی مضمون ان کی مرضی کا ہوتا ہے طالبعلم کی مرضی کا نہیں۔ گویا پڑھائی کوئی ایسی چیز ہے جو شوق کی ضد اور قاتل ہے۔ یہاں سے سارا مسئلہ شروع ہو جاتا ہے۔ مثلا میرے والدین نے مجھے کمپیوٹر پڑھنے نہیں دیا تھا پھر بھی آج میری چھوٹی سی آئی ٹی کمپنی ہے۔ اگر مجھے فیلڈ سلیکٹ کرنے کی آزادی ہوتی تو شاید میں زیادہ شوق سے کام کر رہا ہوتا۔ میں تو والدین کی مرضی کے مضمون میں چل گیا (جو میری سیکنڈ چوائس تھی، اور میں ان کا شکرگزار ہوں) لیکن بہت سے نہیں چل پاتے۔

کئی لڑکوں کا شوق کھیل کود، گانا، فیشن، موبائل اور کمپیوٹرز اور ایکٹنگ وغیرہ ہوتے ہیں لیکن کوئی انکو گائیڈ کرنے والا نہیں ہوتا کہ وہ فزیکل ایجوکیشن، لسانیات، فیشن ڈیزائن، آئی ٹی،اور لٹریچر وغیرہ کو اپنا کیریئر بنا سکتے ہیں جس سے شوق اور تعلیم دونوں ساتھ ساتھ چل سکتے ہیں۔ میری کلاس میں کئی لڑکے بیالوجی اس وجہ سے پڑھ رہے ہوتے ہیں کہ ان کو جانور پالنے کا شوق ہوتا ہے۔ طوطوں کی بریڈنگ، مرغوں کی خوراک، بلیاں کتے وغیرہ۔ لیکن کون سا باپ ہے جو اپنے بیٹے کو ڈاکٹری چھوڑ کر ویٹرنری یا اینیمل ہزبینڈری میں جانے کی اجازت دے دے حالانکہ یہ ساری فیلڈز دنیا میں ملٹی بلین ڈالر کی انڈسٹریز ہیں۔ والدین بچے پر اپنی ذمہ داریوں اور ناکامیوں کابوجھ ڈال کر اور پھر طعن و تشنیع کر کر کے ہر چیز سے دلبرداشتہ اور لاتعلق کر دیتے ہیں۔ یوں وہ جو بھی کام کررہا ہوتا ہے اس سے تنگ اور اوازار ہی رہتا ہے۔ مجبورا ساری زندگی اسی گھٹن میں گزارنی پڑتی ہے۔ سارا مسئلہ کیریئر کونسلنگ اور شوق کو پروان چڑھنے دینے کا ہے۔

لیکن سولہ سال پڑھنے کے بعد اگر آپ کی سیکھنے کی صلاحیت بالکل مر نہیں گئی اور آپ کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں تو میرا مشورہ یہ ہے کہ اپنے آپ کو ایسی چیزوں میں پابند نہ کریں۔ آج کل حکومت ڈجیٹل فری لانسنگ کو بہت سپورٹ کر رہی ہے۔ کئی پروگرام اس حوالے سے چل رہے ہیں جیسے ڈجی سکلز، ای روزگار اور نیشنل سکلز ڈویلپمنٹ پروگرام۔ کوئی چھوٹی موٹی نوکری پر گزارہ کریں اور ان میں سے کسی پروگرام میں داخلہ لے لیں۔ اگر آپ میں واقعی دم خم ہے تو آپ ایک سال سے بھی کم عرصے میں نوکری سے جان چھڑا لیں گے اور تین سے پانچ سال کے عرصے میں آپ کے نیچے کم سے کم دس پندرہ ملازم کام کر رہے ہوں گے۔ وہاں آپ کو خود سمجھ آ جائے گا کہ اپنے سکلز کو کیسے جانچنا ہے اور ان کی ڈیمانڈ کہاں ہے، کون سے سکلز کی آپ میں کمی ہے اور کمی کو کیسے پورا کر کے آگے بڑھنا ہے۔ پچھلے سال تقریبا پچھتر ہزار نوجوانوں نے تقریبا آٹھ لاکھ سالانہ اوسطا کمائے ہیں اس طریقے سے، یعنی سترہویں گریڈ سے تقریبا دوگنا۔ اس سال لوگوں کی تعداد اس سے بھی زیادہ ہو جائے گی۔ ڈجی سکلز کی ویب سائٹ پر لوگوں نے سال کے کروڑوں بھی کمائے ہیں (پروفائل وہاں دیکھ سکتے ہیں)۔

اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ عمودی ترقی پذیری اور آمدنی میں مساوات کے اعتبار سے پاکستان دنیا کے کئی ترقی یافتہ ممالک (یہاں تک کہ امریکہ) سے بھی بہتر ہے۔ یعنی اگر آپ کے والد ایک مزدور تھے اور کسی امریکی لڑکے کے والد مزدور تھے تو قوی امکان ہے کہ امریکی لڑکا مزدوری ہی کرے گا لیکن آپ اپنے والد کی نسبت زیادہ آمدنی والا کام کر سکیں گے۔ دنیا کو ڈیمانڈ آپ کے سکل کی ہے، جو کتاب میں لکھا ہے وہ آج سب ہی کے پاس ایک کلک پر دستیاب ہے۔ اب یہ آپ پر منحصر ہے کہ آپ میں کتنی قابلیت ہے۔

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech