دس اکتوبر ساری دنیا میں دماغی صحت کے حوالے سے آگہی کے دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق دنیا میں ہر آٹھ میں سے ایک شخص نفسیاتی مسائل کا شکار ہے۔ لیکن اس کے باوجود اس اہم مسئلے کی طرف لوگوں کی توجہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ بالخصوص غریب ممالک میں بڑے ہسپتالوں میں بھی دماغی مسائل کے شکار افراد کی مدد کے لیے ڈاکٹروں، ادویات، عملے، تکنیکی مہارت اور وسائل کی شدید کمی ہے۔ ایک طرف جہاں مدد بالکل دستیاب نہیں تو دوسری طرف جو لوگ ایسے مسائل میں گھرے ہوں، معاشرہ ان کا مسئلہ مزید خراب کرنے پر بضد نظر آتا ہے۔ ایسے افراد جہاں دوسروں سے زیادہ حساس ہوتے ہیں وہیں لوگ ان کو عموما حقارت، طنز اور تضحیک کا نشانہ بناتے ہیں۔

میرا تعلق چونکہ تعلیم کے شعبہ سے ہے، تو اسلئے میں اکثر اساتذہ کے درمیان ہونے والی گفت و شنید پر نظر رکھتا ہوں۔ اپنی اگلی نسل کی ذہنی آبیاری کی اہم ذمہ داری ہمارے اساتذہ کے کندھے پر ہے۔ تاہم جب ذہنی صحت اور تعلیمی اداروں کے مسائل کا تذکرہ ہو تو مجھے حیرت ہوتی ہے کہ اس میں کہیں بھی طلبا کے مسائل کی بات ہی نہیں ہوتی۔ بہت کم لوگ اس اہم موضوع پر بات کرتے ہیں اور اکثر صرف یہ کہہ کر گونگلوؤں سے مٹی جھاڑتے نظر آتے ہیں کہ اس حوالے سے کچھ بھی کرنا ان کے اختیار میں نہیں۔ جو کرنا ہے اوپر والے کریں۔ کچھ سال پہلے اس حوالے سے حکام بالا کی طرف سے ہدایات جاری کی گئیں کہ سرکاری تعلیمی اداروں میں ماہرینِ نفسیات عارضی بنیادوں پر بھرتی کیے جائیں جو کم سے کم کچھ وقت کے لیے ہی صحیح، اداروں میں طلبا کے مسائل سننے، تشخیص اور علاج کے لیے دستیاب ہوں۔ یہ یقینا ایک خوش آئند بات تھی تاہم ایسا ہوتا کہیں نظر نہیں آیا۔

کچھ دن پہلے فیس بک پر ایک امریکی استاد کا اپنی کلاس میں ایک تجربہ دیکھا تو خیال آیا کہ کیوں نہ یہ تجربہ میں خود بھی کر کے دیکھوں۔ تجربہ کی تفصیل کچھ یوں ہے کہ کلاس میں بچوں کو ایک پرچہ حل کرنے کے لیے دیا گیا جس میں تین سوال تھے۔ بچوں کو ہدایت کی گئی کہ جونہی ان کو ایک سوال حل کرنے کو کہا جائے تو جواب لکھنے کے بعد فورا اپنا ہاتھ کھڑا کر دیں۔ سوالیہ پرچے میں صرف تین الفاظ لکھے تھے جن کے حروف تہجی کی ترتیب خراب کر دی گئی تھی۔ بچوں نے اس میں سے حروف کی ترتیب درست کر کے صحیح لفظ معلوم کرنا تھا۔ مثلا لفظ استاد کی ترتیب خراب کر کے “دتاسا” لکھ دیا۔ استاد نے کلاس کو پہلا سوال حل کرنے کو کہا۔ کلاس میں تقریبا آدھے بچوں نے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ پھر دوسرا سوال حل کرنے کو کہا گیا۔ کچھ ہی دیر میں دوبارہ آدھے بچوں نے ہاتھ کھڑے کر دیے۔ باقی بچے حیرت سے ان کو دیکھنے لگے کیونکہ ان کو کچھ سمجھ نہیں آ رہا تھا کہ سوال کیسے حل کرنا ہے۔ پھر تیسرا سوال کرنے کو کہا گیا تو دوبارہ وہی منظر تھا کہ جن بچوں نے پہلے ہاتھ کھڑے کر دیے تھے انہوں نے ہی دوبارہ درست جواب معلوم کر لیا۔

اس کے بعد استاد نے بچوں سے معذرت کی کیونکہ آدھے بچوں کو سوالیہ پرچہ میں ایسے حروف لکھ کر دیے گئے تھے جن سے کوئی لفظ بنانا ناممکن تھا۔ لیکن دلچسپ بات یہ تھی کی جن بچوں کو ناممکن والا سوالیہ پرچہ دیا گیا تھا ان کے سوال کا تیسرا جزو وہی تھا جو باقی سب کا تھا اور انتہائی آسان لفظ (امریکن) تھا۔ حیران کن طور پر جن بچوں نے پہلے دو سوالوں کے جواب ڈھونڈ لیے وہ تیسرا سوال بھی اتنی ہی آسانی سے حل کرنے میں کامیاب رہے۔ تاہم جن بچوں کو استاد کی شرارت کی وجہ سے پہلے دو سوال حل کرنے میں مشکل پیش آئی وہ تیسرا سوال حل کرنے میں مکمل طور پر ناکام رہے۔ جب ان سے وجہ پوچھی گئی تو ان کا کہنا تھا کہ وہ دوسرے بچوں کو کامیاب ہوتا دیکھ کر خود کو نالائق، احمق، سست اور پریشان محسوس کر رہے تھے جس کی وجہ سے وہ آسان سوال پر بھی توجہ نہیں دے سکے گرچہ ان کی ذہنی صلاحیت باقیوں سے کسی طرح بھی کم نہ تھی۔

Learned Helplessness

میرے لیے یہ تجربہ خاصا دلچسپ تھا اسلیے میں نے اپنی نئی کلاس کے پہلے دن اس کو کرنے کا پلان بنایا۔ اندر سے ایک کمینی سی خواہش تھی کہ شاید میری کلاس کا نتیجہ ایسا نہیں ہو گا اور بچے میری یہ چالاکی پکڑ لیں گے۔ لیکن حیران کن طور پر دو کلاسز میں اسی کے قریب لڑکوں پر کیے ہوئے تجربے کے نتائج وہی تھے جو دنیا کی دوسری طرف کلاس روم میں تھے۔ اس تجربے سے معلوم ہوتا ہے کہ گرچہ بچوں کو بتا دیا گیا تھا کہ ہم صرف ایک کھیل کھیل رہے ہیں اور اس سے ان کی صحت، گریڈ یا کسی اور چیز پر کوئی فرق نہیں پڑتا، لیکن اس کے باوجود صرف دو چھوٹے سے سوالوں کو حل کرنے میں ناکامی کے بعد وہ دماغی طور پر اتنے پریشان ہو گئے کہ آسان سوال پر بھی توجہ نہیں دے پائے۔ اب یہ سوچئے کہ ایک بے مقصد کھیل کا یہ نتیجہ ہے تو روز روز کی ڈانٹ ڈپٹ، ٹیسٹوں میں نمبر کم آنے، والدین کی کھینچا تانی، گھریلو حالات، معاشی مسائل اور دیگر تمام عناصر ان معصوم بچوں کے دماغوں پر کیا اثرات مرتب کرتے ہوں گے؟ جس کو ایک دفعہ مار پڑتی ہے، وہ آئندہ بھی مار کھاتا رہے گا۔ جو ایک دفعہ ناکام ہو گیا، وہ آئندہ بھی ناکامی کو قبول کر لے گا، جس کو ایک دفعہ خاموش کروا دیا گیا وہ آئندہ بولنے کی جرات نہیں کرے گا، جس پر ایک دفعہ ظلم ہوا وہ آئندہ بھی ظلم سہتا رہے گا۔ یہ ایک خوفناک تصور ہے۔

اس حوالے سے مجھے اپنا ایک انتہائی عزیز طالبعلم یاد آ جاتا ہے جس کا قصہ میں اکثر موقعوں پر دوستوں کے گوش گزار کرتا ہوں۔ جب نئی کلاس آتی ہے تو میرا طریقہ واردات یہ ہوتا ہے کہ شروع کے پانچ دس لیکچر بہت جاندار دیتا ہوں، ساتھ کسی حد تک ایموشنل بلیک میل اور موٹیویشنل لیکچر دے کر بچوں کو گرویدہ بنانے کی کوشش کرتا ہوں۔ جب بھی نئی کلاس آتی ہے تو استاد کسی حد تک اندر سے خوفزدہ محسوس کرتا ہے کہ کوئی لڑکا بد تمیزی نہ کر دے یا کوئی ایسی بات نہ ہو جائے جس سے کلاس پر کنٹرول کرنا مشکل ہو جائے۔ اسلئے اکثر اساتذہ شروع میں نظم و ضبط پر کوئی کمپرومائز نہیں کرتے۔

اس بچے کا داخلہ تو اگست میں ہو گیا تھا لیکن وائس پرنسپل صاحب کی ضد کی وجہ سے اس کو اکتوبر تک کلاس میں بیٹھنے کی اجازت نہیں ملی۔ وہ کئی لحاظ سے دوسروں سے مختلف تھا۔ عجیب حرکتیں کرتا تھا، کبھی منہ سے آوازیں نکالتا کبھی الٹے سیدھے سوال کرتا۔ بولنے کا انداز بھی عجیب تھا جیسے سیریس نہیں ہے۔ باقی لڑکوں کی آپس میں دوستیاں ہو چکی تھیں، گروپ بن چکے تھے تو وہ اکیلا رہ گیا تھا اور سب اس کا مذاق اڑاتے تھے۔ میں نے کئی دفعہ کلاس میں آواز نکالنے پر اس کو سزا دی۔ جب بہت تنگ ہوا تو اس کے والد کو بلا لیا۔ وہ قریب ہی سرکاری سکول میں استاد تھے اور انتہائی شریف انسان تھے۔ خود بھی پریشان تھے اور اپنے بیٹے کی تمام غلطیوں کا ذمہ دار خود کو ٹھہراتے تھے کہ شاید وہ اس پر توجہ نہیں دے سکے۔ باتوں باتوں میں انہوں نے بتایا کہ اس کو آج کل منہ سے میوزک بنانے کا شوق چڑھا ہوا ہے۔ سارا وقت اس میں ضائع کرتا رہتا ہے۔ میں اکثر لڑکوں سے ان کے شوق پوچھتا رہتا ہوں لیکن عموما کوئی بھی کرکٹ کے سوا کوئی شوق نہیں بتا پاتا۔ پہلی دفعہ کوئی واقعی جنونی سٹوڈنٹ ملا تھا جو اپنے شوق کے چکر میں روز استادوں سے جھڑکیاں کھا رہا تھا۔

ایک دن کالج میں میٹنگ کی وجہ سے مجھے بلاوا آیا۔ کلاس کے دس پندرہ منٹ ابھی باقی تھے۔ میں ملٹی میڈیا پر علاء وردی کا گایا ہوا پہلا نشہ پہلا خمار لگا کر چلا گیا جس میں وہ اپنے جسم اور منہ سے سارا میوزک بناتا ہے۔ میری غیر موجودگی میں اس لڑکے نے کلاس میں خود پرفارم کر کے دکھایا۔ سارے لڑکے تو جیسے اس کے فین ہی ہو گئے۔ اس دن سے اس لڑکے کی عزت آسمان پر پہنچ گئی۔ پورے کالج میں خبر پھیل گئی، کبھی اس سے گیٹ پر روک کر فرمائش کی جاتی کبھی ایڈمن بلاک میں یہاں تک کہ فروری آتے آتے اس نے مادری زبان کی تقریب کے دوران سٹیج پر پرفارم کیا۔

ساتھ ہی اس کا کلاس میں رویہ یکسر بدل گیا۔ جو پہلے خود آوازیں نکالتا تھا اب ذرا سی آہٹ پر لڑکوں کو خاموشی کی تاکید کرنے لگا۔ روز کا پڑھایا سبق پڑھ کر، یاد کر کے اور انٹرنیٹ پر مختلف ذرائع سے ریسرچ کر کے آنے لگا اور اگلے روز کا سبق بھی خود پڑھنے لگا۔ کلاس میں وہ واحد لڑکا تھا جو میرے ایک ایک لفظ پر غور کرتا۔ میں نے ان دنوں اپنے کئی دوستوں سے اس بارے میں تذکرہ کیا کہ مجھے اپنے کیریئر کا سب سے بہترین سٹوڈنٹ ملا ہے۔ اس کی یاد داشت انتہائی کمال کی تھی اور دوسرے لڑکوں کی نسبت بہت جلدی بات کو سمجھ جاتا تھا۔ پھر اس میں انٹرنیٹ اور دیگر ذرائع سے موضوعات کے بارے میں مزید معلومات حاصل کرنے کی لگن تھی جو کسی اور طالبعلم میں اس طرح نہیں دیکھی میں نے۔

لیکن دوسرے اساتذہ اس کو بھی اسی حقارت کی چھڑی سے ہانکتے رہے جس سے وہ باقی سب کو ہانکتے ہیں۔ سیکنڈ ایئر میں وہ کلاس میرے پاس نہیں رہی۔ اور اس کو ایک دفعہ پھر روز روز سزائیں ملنے لگیں۔ کوئی اس کے بال ٹھیک کرنے کی دھن میں مگن تھا، کوئی اس کے باپ کو یہ سمجھانے کی کوشش کرتا کہ بچہ میری اکیڈمی میں پڑھے گا تو ٹھیک ہو گا۔  یہاں تک کہ وہ امتحان دینے سے مکمل طور پر باغی ہو گیا۔ کچھ دوستوں کی منتوں سے پیپر دینے چلا گیا لیکن پرچے میں سوالوں کے جواب دینے کے بجائے ہر استاد کے کے ظلم و ستم اور بے اعتنائیوں کی داستانیں لکھ آیا۔ اس کے بعد جن حالات سے اس معصوم جان کو گزرنا پڑا وہ میں یہاں لکھنے کی جرات نہیں کر سکتا۔

بچے حساس ہوتے ہیں، ان کو محبت اور توجہ کی ضرورت ہوتی ہے۔ ہمیں لگتا ہے کہ وہ بڑے ہو گئے ہیں کیونکہ ہم اس عمر میں شاید بڑے ہو گئے تھے (یا ہمیں ایسی غلط فہمی ہے)۔ بچوں کی ہماری باتوں پر توجہ نہ دینے کی ایک بڑی وجہ ہمارا لہجہ اور رویہ ہوتا ہے۔ ان کو اپنائیت دیں، ان کی بات سنیں، ان کی خواہشوں کو سمجھنے کی کوشش کریں تو وہ بہت کچھ کر سکتے ہیں۔ ہر بچہ حساس ہوتا ہے، جو ڈھیٹ نظر آ رہے ہوتے ہیں وہ زیادہ حساس ہوتے ہیں۔ ہم اپنی بے توجہی سے نہ جانے کتنے ہی قیمتی نگینے مٹی میں ملا رہے ہیں۔ نہ جانے کتنے ہی آئن سٹائن اور نیوٹن ہماری نالائقی کی سزا بھگت رہے ہیں۔ جو ہمارا مایہ ناز سرمایہ ہیں ہم ان پر ناکامی کے لیبل لگاتے نہیں تھکتے۔

واضح رہے کہ میری سوچ بھی ہمیشہ سے ایسی نہیں تھی۔ میں اپنے کالج اور کلاس میں سخت ترین رویہ رکھنے والا استاد مشہور تھا۔ لیکن یہ رویہ تب تبدیل کرنا پڑا جب مجھے اپنے اندر کی منافقت واضح نظر آنا شروع ہو گئی۔ میری بیٹی اس وقت تین سال کی تھی، کچھ باتیں کرنا شروع کیں، سیکھنے سکھانے کا سلسلہ شروع ہوا تو میں نے محسوس کیا کہ میں اس کی بات بہت تحمل سے سنتا ہوں، بار بار اس کو ایک ہی بات سمجھاتا ہوں، بالکل غصہ نہیں کرتا۔ لیکن دوسروں کے بچوں کے ساتھ میرا رویہ ایسا نہیں تھا۔ ان کے لیے میں جس قسم کے منفی الفاظ استعمال کر لیتا تھا وہ اپنی بیٹی کے لیے کرنے کا سوچ بھی نہیں سکتا تھا۔ ہم میں سے اکثر اسی منافقت کا شکار ہیں۔ جو رویہ اپنے بچوں سے روا نہیں رکھتے وہ دوسروں کے بچوں کے ساتھ آسانی سے کرتے ہیں۔ اپنا بچہ ناکام ہوتا نظر آئے تو ہم ہر حد تک اس کو کامیاب کروانے کی کوشش کرتے ہیں۔ اس کی پریشانی ہم سے دیکھی نہیں جاتی۔ لیکن دوسروں کے بچوں کے لیے ہم بہت سخت دل ہو جاتے ہیں۔

میری سات سال کی بیٹی اب میرا مذاق اڑاتی ہے کہ آپ کہتے ہیں کہ ماروں گا، لیکن مارتے نہیں ہیں۔

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech