پہلا سوال کیا آگاہی دینے سے عزت و احترام مل سکتا ہے؟

یومِ اساتذۂ بین الاقوامی سطح پر اساتذۂ کو سماج میں عزت و احترام دلوانے کے لیے 5 اکتوبر کو منایا جاتا ہے۔ عزت و احترام کے حوالے سے میرا نکتہ نگاہ الگ ہے۔ میرے خیال سے عزت و احترام کا تعلق کسی پیشے، عہدے یا پوزیشن کے ساتھ نہیں ہوتا بلکہ شخص اور شخص کے کردار کے ساتھ ہوتا ہے۔ آپ جس بھی پوسٹ پر ہو اگر آپ اپنی تفویض کردہ ذمہ داریاں احسن طریقے سے نبھاتے ہو۔ اپنے دائرہ کار اور اختیار میں رہتے ہو تو خواہ آپ صفائی والے ہو آپ کی عزت و تکریم ہوگی اور آپ کا ضمیر مطمئن رہے گا۔ اگر آپ اپنا تفویض کردہ کام نہ کرو، دوسروں پر تنقید کرتے رہو۔ کام چوری اور کاہلی آپ کا شیوہ ہو۔ بد عنوانی کی آپ کو لت لگی ہوئی ہو تو آپ خواہ ملک کے کسی پرائم عہدے پر بھی ہو تو عزت و تکریم سے خالی ہو۔ سو ثابت ہوا کہ عزت و تکریم آگاہی دینے یا دن منانے سے پیدا نہیں ہوتی۔

دوسرا سوال کیا استاد معمار قوم ہوتا ہے؟

کیا قوم کی تعمیر فقط استاد کے ہاتھ میں ہوتی ہے؟ تو اس کا جواب ہاں ہے۔ ہاں فقط استاد ہی قوم کو سیدھی یا غلط راہ پر ڈال سکتا ہے۔ مگر سوچنا یہ ہے کہ کون سا استاد؟ استاد تو کئی طرح کے ہیں۔ ماں باپ خود اپنے بچوں کے استاد ہوتے ہیں۔ وہ اگر آپس میں ہمہ وقت مشکوک رہتے ہوں۔ بات بات پر سیخ پا ہوتے ہوں۔ اخلاقی طور پہ کرپٹ ہوں تو بچے نفسیاتی مریض ہی ہوں گے۔ وہ عجیب جنونیت کا شکار ہوں گے۔ دوسرا استاد گلی محلہ، سماج اور صحبت ہے۔ جیسی صحبت ویسا بچہ۔ تیسرا استاد مذہبی پیشوا ہے۔ جو خود جنونی، انتہاپسند اور شرپسند ہوتا ہے اور اتباع کرنے والے کو بھی ویسا ہی بنا دیتا ہے۔ آپ کو نہیں یقین تو مدارس سے فارغ ہونے والے نوے فیصد اشخاص کی شخصیت پرکھ لیں ایسے ہی ہوں گے۔ اگر آپ کو میری اس رائے سے اختلاف ہے تو خود کو بھی اسی کیٹیگری میں شامل کرلیں۔ چوتھا استاد میڈیا اور سوشل میڈیا ہے۔ دن رات ناچ گانا، ذہنی و اخلاقی پستی و بے راہروی میڈیا کے ذریعے مسلسل ناپختہ ذہنوں میں کوٹ کوٹ کر بھری جا رہی ہو تو وہ اس سب کو ہی صلاحیت، ذہانت اور عزت کا معیار مانیں گے۔ فقط سکول، کالج یا مدرسے میں ایک مضمون پڑھانے والے پر حملہ آور ہو جانا قطعاً درست اپروچ نہیں ہے۔ مجھے کوئی ایک استاد دکھا دیں جو شاگردوں کو جھوٹ بولنا، دھوکہ دینا، گالیاں دینا، دو نمبری کرنا، ننگی فلمیں دیکھنا، فحش سیکس چیٹ کرنا سکھاتا ہو۔ نہیں ملے گا۔ وہ یہ سب کہاں سے سیکھ جاتے ہیں؟ یہ سب ماں باپ، رشتے دار، کزنز، سماج، میڈیا، جینز اور ہارمونز سکھاتے ہیں۔ استاد ایسا کچھ نہیں سکھاتا سو خدارا استاد کو بخش دیں۔

میرا سب اساتذۂ کو ایک ہی مشورہ ہے۔ عزت و تکریم کے متلاشی بن کر خود کو ہلکان مت کریں۔ اپنا سبجیکٹ پڑھائیں اور پوری ایمانداری سے پڑھائیں۔ روز کا ٹاپک تیار کر کے جائیں۔ اپنے سبجیکٹ سے ہٹ کے کسی کی کوئی تربیت نہ کریں۔ کسی کو نہ کہیں کہ سچ بولا کرے بس خود سچ بولنا شروع کر دیں۔ میں نے دیکھا ہے ہر سبجیکٹ کا ٹیچر مذہبی و سیاسی گائیڈ بنا ہوتا ہے۔ بھئی آپ کا یہ کام نہیں ہے۔ آپ بائیو، فزکس، کیمسٹری یا انگریزی جو بھی پڑھاتے ہیں بس وہی پڑھایا کریں۔ تاریخی و مذہبی حوالہ جات دینے سے معذرت کر لیا کریں۔ کہہ دیں کہ یہ میرا دائرہ کار ہی نہیں ہے۔ وہ اپنے مذہبی و مسلکی نظریات پہ کمپرومائز کبھی نہیں کرے گا اور آپ خواہ مخواہ متنازعہ ہو جائیں گے۔ میں آپ کو دو مثالیں دوں گا۔ دو سال قبل کالج میں ایک شاگرد میرے پاس چھٹی لینے آیا کہ محفلِ میلاد پہ جانا ہے میں نے اسے کہہ دیا کہ تمہارا کلاسز لینا زیادہ ضروری ہے اس نے پہلے کالج میں بات پھیلا دی کہ سر نے میلاد کی گستاخی کر دی ہے پھر شام کو اپنے امام مسجد سے کال کروادی۔ اس مولوی کا عجیب اٹیکنگ انداز تھا میں نے بڑی مشکل سے جان چھڑائی۔ دوسری مثال کل میں ویکسینیشن پڑھا رہا تھا تو ایک لڑکے نے پوچھا سر یہ ویکسین لگوانا حرام نہیں ہوتا؟ میں نے کہا حلال حرام بتانا میرا کام نہیں ہے یہ امام مسجد سے جا کے پوچھ لینا اس کے اس موضوع پر دس بیس پرچے نیچر میں چھپ چکے ہوں گے وہ بہتر گائیڈ کر دے گا۔ مجھ سے صرف اتنا سیکھ لو کہ ویکسینیشن ہوتی کیسے ہے؟ سو میرے پیارے اساتذۂ کرام بلکہ اکرام رہنے ہی دیجیے۔ کیا پڑی ہے اس اکرام کی۔ اکرام سے پیٹ بھرتا ہے کیا؟ سیاستدان، فوجی، بیوروکریٹ، صحافی اور دیگر شعبہ ہائے جات سے جڑے لوگ اس برائے نام اکرام کے بغیر خوش ہیں تو آپ بھی رہ لیجیے۔ اپنا کام کیجیے۔ اہل خانہ کو وقت دیجیے۔ کوئی بگڑا تگڑا سامنے آ جائے تو ممکنہ کارروائی کر ڈالیے۔ یہی زندگی جینے کا بہترین کلیہ ہے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ یہ سب آراء میری ذاتی ہیں۔ میرے ذاتی تجربات کا نچوڑ ہیں۔ کسی شخص کا ان سے متفق ہونا قطعاً ضروری نہیں ہے۔ مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا۔

Amjad Umer

M. Phil in Zoology (GCUF) Gold Medalist