اب میں کچھ بات امریکہ کی ابتدا کے حوالے سے کرنا چاہوں گا کیونکہ اس دور کا ہمارے آج کے سوچنے کے انداز اور کام کرنے کے طریقے پر گہرا اثر ہے۔ اسلیے یہ ممکن نہیں کہ ہم یہ بات کریں کہ ہم یہاں تک کیسے پہنچے لیکن اس دور کی بات نہ کریں۔ امریکا کی بنیاد کا سہرا ملکہ الزبتھ اول کے سرجاتا ہے۔ وہ ہماری بانی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ آپ چاہ رہے تھے کہ میں جارج کا نام لوں۔ جارج اول، دوم یا سوم (برطانوی بادشاہوں) کا نہیں بلکہ جارج واشنگٹن کا۔ اگر وہ بادشاہ ہوتا تو جارج چہارم ہوتا۔ لیکن اب جارج چہارم ایک اور برطانوی بادشاہ کو کہا جاتا ہے۔
تو سوال یہ ہے کہ الزبتھ اول کا اس سب میں کیا کردار ہے؟ وہ ان دو یورپی حکمرانوں میں سے ہے جو تقریبا ایک ہی دور سے ہیں لیکن جن کی وجہ سے یورپ کی سمت ہمیشہ کے لیے بدل گئی۔ دوسری حکمران قسطیلیہ اور لیون کی ملکہ ازابیلا ہے۔ تو حیران کن طور پر یورپ میں عیسائیت کے عروج کے بعد پہلی دفعہ جن دو خواتین نے حکومت کی، انہوں نے یورپ کو مکمل طور پر بدل دیا۔ یہ دونوں وہ عظیم بصیرت رکھنے والی ہستیاں ہیں جنہوں نے یورپ کا رخ ایک مختلف سمت میں موڑ دیا۔ یہ کہ وہ عورتیں بھی ہیں اور ان دونوں کے عزائم حیران کن تھے۔
ازابیلا نے جدید سپین کی بنیاد رکھی۔ وہاں چھوٹی چھوٹی ریاستیں تھیں، جن کو اس نے خواہ قتل و غارت سے اور خواہ شادی سے، جیسے بھی اکٹھا کیا، اور سپین کی سلطنت قائم کی۔ یہاں تک کہ اس نے اپنے شوہر فرڈیننڈ سے عہد لیا کہ اس کا نام پہلے آئے گا۔ اسلیے فرڈیننڈ اور ازابیلا نہیں بلکہ ازابیلا اور فرڈیننڈ لکھا اور پڑھا جاتا ہے۔ اس نے فرڈیننڈ سے یہ معاہدہ بھی کیا کہ ہم میں سے جو بھی پہلے مرا، تو ہماری پہلی اولاد خودبخود سپین پر حکومت کرنے والی پہلی حکمران بن جائے گی۔ یعنی میں قسطیلیہ اور لیون کی ملکہ کہلاؤں گی اور تم آراگون کے بادشاہ۔ ہم میں سے جو بھی مرا، دوسرا خود بخود ریٹائر ہو جائے گا اور اقتدار منتقل کر دے گا۔ لیکن جب وہ مری، تو اس کے شوہر نے حکومت پر قبضہ کی کوشش کی اور اپنی ہی بیٹی جوآنا کو گرفتار کروا دیا۔ قصہ مختصر یہ کہ جوآنا جیت گئی اور اور سپین کی پہلی فرمانروا بنی۔ تو اگر آپ دیکھیں تو یہ بصیرت پہلی دفعہ ازابیلا کے حصے میں آئی کہ اس نے سوچا کہ سپین نام کی ایک ریاست ہو گی، اور وہ ریاست اب پانچ سو سال پرانی ہے۔
اس سب میں خواب کا ایک حصہ سپین کو ایک بہت بڑی سلطنت بنانا بھی تھا۔ اور اس کی شروعات بھی اس نے اسی سال کر دی جس سال سپین وجود میں آیا۔ اس نے غرناطہ پر جنوری سنہ چودہ سو بانوے میں قبضہ کیا اور چند ہی ماہ بعد کولمبس کو بحر اوقیانوس (اٹلانٹک) پار کرنے کا بیڑہ دیا۔ یہ اتنا بڑا کارنامہ تھا، اور اس کی وجہ سے واضح طور پر دنیا اتنی بدل گئی کہ اس کے بارے میں اب بات کرنا ہی فضول ہے۔ لیکن جو بات سب سے اہم ہے وہ یہ کہ غریب مسکین یورپ، جہاں نہ ٹیکنالوجی تھی نہ ترقی نہ فہم و فراست، وہ کچھ ہی عرصہ میں ارجنٹینا سے الاسکا تک دو براعظموں کی دولت لوٹ کر انتہائی امیر ہو گیا۔
سپین کے ملاح امریکہ کی دولت لوٹ کر یورپ لا رہے تھے، لیکن دولت کا صرف یہی ایک ذریعہ نہیں تھا۔ فلپ دوم کے دور تک، یعنی صرف پچاس سالوں میں وہ صرف سپین کا ہی بادشاہ نہیں تھا۔ پرتگال، جرمنی، اٹلی، نیدرلینڈ، بیلجیئم، لگزمبرگ، سب پر اس کی حکومت تھی۔ یعنی یورپ کا زیادہ تر حصہ، اور تقریبا پورا شمالی و جنوبی امریکہ اس کے ماتحت تھا اور ایشیا اور افریقہ میں بھی اس کی کالونیاں تھیں۔ اور ان تمام علاقوں کی دولت اکٹھی ہو کر یورپ آ رہی تھی۔ روم کی سلطنت کے زوال کے بعد کئی صدیوں سے یورپ نے کبھی انتی دولت نہیں دیکھی تھی۔
الزبتھ اس سے چند دہائیاں بعد آئی۔ اس کی آنکھوں میں بھی بڑے بڑے خواب تھے۔ لیکن خواب دیکھنے والے زیادہ تر لوگ کبھی کچھ حاصل نہیں کر پاتے۔ وہ سارا وقت بادلوں کو تکتے گزار دیتے ہیں۔ لیکن ازابیلا اور الزبتھ دونوں ہی نہ صرف خواب دیکھتی تھیں بلکہ انہوں نے ان خوابوں کو حقیقت بھی بنا دیا، جو حیران کن اور دلچسپ ہے۔ البتہ ازابیلا اپنی فتوحات کو دیکھ کر آگے کا منصوبہ بنا رہی تھی، یعنی اس کا آگے کا پلان اس کی زندگی کے واقعات سے جڑا تھا۔ لیکن الزبتھ کے پاس ابھی کچھ نہیں تھا۔ وہ سو ڈیڑھ سو سال میں برطانیہ کو سپر پاور بنتے دیکھ رہی تھی۔ اس کے خیال میں وہ ایک منصوبے کی بنیاد رکھ رہی تھی جس نے اس کے مرنے کے بہت بعد پایہ تکمیل کو پہنچنا تھا۔
ہم میں سے زیادہ تر لوگ اپنی زندگی سے آگے کی چیزیں سوچنے کے عادی نہیں ہوتے۔ مثلا کسی ایسے سیاست دان کو ذہن میں لائیں جو اگلے الیکشن کا نہ سوچ رہا ہو بلکہ اپنے مرنے کے بھی بہت بعد کی پلاننگ کر رہا ہو، سو دو سو سال بعد کی۔ ہمارے یہاں تو کوئی سیاست دان دو سال سے آگے کا ہی منصوبہ بنا لے تو ہمیں مسحور کن خوشی ہو گی اور ہم اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھیں گے۔ کیونکہ عام طور پر تھوڑے ہی عرصے بعد الیکشن آ جاتے ہیں اور اسلیے سیاست دان مجبور ہوتے ہیں کہ وہ ایسے پراجیکٹس شروع کریں جو ووٹر کو ووٹنگ بوتھ پر جاتے ہوئے نظر بھی آئیں۔ جس سیاست دان نے چند سالوں میں واضح نظر آنے والے کام کیے اسی کو ووٹ ملیں گے۔ تو ایسے میں بیس سال بعد یا الیکشن سے کچھ ہی دیر بعد مکمل ہونے والا منصوبہ بھی فضول ہے۔
الزبتھ کا مسئلہ یہ تھا کہ انگلستان یورپ کا سب سے تاریکی میں ڈوبا ہوا علاقہ تھا۔ کوئی وہاں غلطی سے بھی جانے کو تیار نہیں ہوتا تھا۔ نہ کوئی ان کے ساتھ تجارت کو تیار تھا۔ ان کے پاس اون تھی لیکن وہ اون آج کی اون جیسی نہیں ہوتی تھی۔ اس دور میں آپ اون کو دھو نہیں سکتے تھے کیونکہ دھونے سے وہ سکڑ جاتی تھی۔ اج کی اون اس لحاظ سے بہتر ہے کہ وہ دھونے سے سکڑتی نہیں ہے۔ تو کپڑے نہ دھونے کی وجہ سے پہننے والے میں سے شدید بدبو آتی تھی۔ اور اوپر سے اس سے خارش ہوتی تھی اور آپ مسلسل خارش کرتے رہتے تھے اور دیکھنے والے کو لگتا تھا کہ یہ سالوں سے نہایا نہیں ہے۔
کوئی بھی اون خریدنے کو تیار نہیں تھا۔ اس کے برعکس کپاس (کاٹن) دنیا میں دستیاب تھا جو اتنا نہیں سکڑتا۔ آپ اس کو بار بار دھو سکتے تھے۔ اور اس کے علاوہ لینن اور ریشم بھی دستیاب تھے۔ یعنی دنیا میں بہت سے متبادل دستیاب تھے لیکن انگلستان میں نہیں۔ وہاں غربت اتنی تھی کہ لوگ لینن خرید نہیں سکتے تھے اور کپاس کے لیے وہاں کا موسم موزوں نہیں ہے۔
تو مسئلہ یہ تھا کہ اگر آپ نے ڈیڑھ سو سال میں سپر پاور بننا ہے تو آپ اس کے لیے دولت کہاں سے لائیں گے؟ دوسرا مسئلہ یہ تھا کہ انگلستان کے پاس بحری بیڑہ بھی نہیں تھا۔ کیونکہ اگر آپ کا ملک ایک جزیرہ ہے تو آگے جانے کے لیے آپ کو بحری بیڑہ لازمی چاہیئے۔ اگر روس یا کوئی اور ملک ہوتا تو وہ اپنے اردگرد کے علاقے فتح کرتے، وہاں کے لوگوں کو غلام بناتے اور دولت اکٹھی کرتے، لیکن یہاں آپ جزیرے پر محدود ہیں۔ تو کہیں اور جانے کے لیے پہلے کشتیاں اور جہاز چاہیئیں۔
تو آپ کہیں گے کہ وہ کوئی جنگل کاٹ کر کشتیاں کیوں نہیں بنا لیتے؟ مسئلہ یہ تھا کہ وہاں جنگل نہیں تھے۔ رومیوں نے سارے جنگل پہلے ہی کاٹ لیے تھے۔ اور رومیوں نے فرانس اور ترکی اور دیگر یورپی ممالک کے جنگل بھی صاف کر دیے تھے اور ترکی نے تو ابھی اسی کی دہائی میں وہ جنگل دوبارہ لگائے ہیں۔ جو تھوڑے بہت جنگلات انگلستان میں تھے وہ کم عمر تھے اور گھر بنانے اور آگ جلانے کے لیے ہی بمشکل کافی تھے۔ لیکن بحری بیڑہ بنانے کے لیے آپ کو بڑے بڑے اور پرانے درختوں کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک حل یہ بھی ہو سکتا ہے کہ سمندر پار کینیڈا اور امریکہ میں نوآبادیاں بنائیں، وہاں کے باشندوں کو قتل کریں اور جنگل کاٹ لائیں، لیکن اس کے لیے بھی بیڑے کی ضروت ہے اور ابھی ہم تاریخ کے اس موڑ تک نہیں پہنچے۔
تو اس مسئلے کا حل الزبتھ کو اس کے باپ ہنری ہشتم نے دیا جب اس نے انگلستان کو کیتھولک چرچ سے الگ کر لیا۔ اس وقت تک انگلستان کی ایک چوتھائی سے زیادہ زمین کیتھولک چرچ کی ملکیت تھی۔ تو ہنری نے چرچ کی تمام زمین ضبط کر لی اور انگلستان کے ایک چوتھائی رقبے کا مالک بن گیا۔ جب کبھی ہنری کو کسی منصوبے کے لیے سرمائے کی ضرورت پڑتی تو وہ تھوڑی سی زمین بیچ کر جو چاہتا کر لیتا۔ پہلے اسے پارلیمنٹ کے پاس جا کر قانون بنوانا پڑتا تھا اور اگر وہ راضی نہ ہوتے تو منصوبہ رک جاتا۔ لیکن اب وہ سیدھا زمین بیچ کر بغیر پارلیمان کی مشاورت یا مرضی کے بھی کام کر سکتا تھا۔ یوں وہ انگلستان کا مطلق العنان بادشاہ بن گیا کیونکہ اس کو اپنی مرضی پوری کرنے کے لیے پارلیمان کی رضامندی کی ضرورت نہیں تھی۔ یہاں تک کہ وہ پارلیمان کے ممبرز کو قتل بھی کر سکتا تھا جیسا کہ اس نے این بولین کے ساتھ کیا (جو اس کی بیوی بھی تھی) کہ اس پر دیگر پالیمنٹ ممبران کے ساتھ ناجائز تعلقات کا الزام لگا کر قتل کروا دیا اورساتھ ہی اپنے مخالف ممبران پارلیمنٹ کو بھی۔ اس نے اپنی دو بیویوں کو قتل کروایا اور تیسری سے جان چھڑانے کے لیے اسے طلاق دی، اور جب چرچ نے اجازت نہ دی تو اس نے ایک نیا چرچ کھڑا کر لیا۔ اس نے پانچ بیویوں سے جان چھڑانے کے پانچ مختلف طریقے ڈھونڈے یہاں تک کہ پانچوں سے پہلے خود مر گیا۔
الزبتھ کو اپنے باپ کی نسبت کم زمین ملی کیونکہ اس نے اپنی بیوی کو قتل کر دیا تھا، اور ایک خطیر رقم محل بنانے پر خرچ کر دی اور اس کے بعد الزبتھ سے بڑی خردماغ بہن (بلڈی میری) کا پانچ سالہ خونیں دور تھا۔ بہر حال الزبتھ کے پاس بہت کم زمین رہ گئی تھی۔ جتنی زمین آپ بیچتے جائیں اتنی ہی باقی زمین کی مارکیٹ ویلیو خراب ہوتی جاتی ہے اور آپ کو فی ایکڑ پہلے جیسے رقم نہیں ملتی۔ خیر، جو تھوڑی بہت زمین باقی بچی اس سے الزبتھ نے سویڈن اور روس کے ساتھ معاہدے کیے اور ان کو لکڑی سمندر پار کر کے انگلستان پہنچانے کا ٹھیکہ دیا۔ اس لکڑی سے اس نے بحری بیڑہ تیار کیا۔ یہ بہت بڑا تو نہیں تھا لیکن بہر حال اب انگلستان کے پاس بڑی تجارتی کشتیاں تھیں۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ انگلستان کس چیز کی تجارت کرے؟ الزبتھ کا جواب تھا کپاس۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ انگلستان میں پہلے سے اون کی صنعت موجود تھی، تو اس کا خیال تھا کہ لوگ آسانی سے اون سے کپاس پر منتقل ہو جائیں گے۔ ان کے بنانے کا طریقہ تھوڑا مختلف ہے لیکن جو تکنیکی مہارت پہلے سے موجود ہے وہ کسی حد تک کارآمد ہو گی۔ لیکن اب مسئلہ یہ تھا کہ اس وقت تک دنیا میں دو ملک کپاس پیدا کرتے تھے، مصر اور برصغیر۔ اور یہ دونوں مسلمانوں کے ماتحت تھے۔ برصغیر میں مغل اور مصر میں مملوکوں کی حکومت تھی اور مسئلہ یہ تھا کہ عیسائی ممالک مسلمانوں سے تجارت نہیں کرنا چاہتے تھے۔ گرچہ مسلمانوں کو اس پر اعتراض نہیں تھا، چنانچہ جب پرامن وینس کے ملاح اسکندیہ، مصر سے تجارت کرنے پر آمادہ ہوئے تو مصریوں نے انہیں خوش آمدید کہا کیونکہ تجارت میں دونوں کا فائدہ ہوتا ہے لیکن عیسائی حکومتیں اس پر راضی نہ تھیں۔ تو یہ مسئلہ تب حل ہوا جب سپین کے کارٹیز نے میکسیکو پر قبضہ کر لیا۔
(جاری ہے)
یہ مضمون ڈاکٹر رائے کاساگرانڈا کے لیکچر کا ترجمہ ہے جو آسٹن کمیونٹی کالج، ٹیکساس میں پولیٹیکل سائنس کے پروفیسر ہیں۔