ڈگڈگی کی تیز آواز کے ساتھ ہی ایک زوردار چابک پڑا، ایک،دو، تین..چل موتی، شاباش، ایک ،تیزلہجہ،چابک کے پڑتے ہی اسکے بھرے پیروں اور بے ڈول جسم نے رقص کرنا شروع کردیا،تماشائی تالیاں بجانے لگے، واہ، بہت خوب، وہ ایک بھدا سیاہ ریچھ تھا،اس نے چھوٹی چھوٹی سرخ آنکھوں سے منہ اٹھا کر سب تماشائیوں کو دیکھنے کی کوشش کی، دو سیکنڈ کے لیے اسکا رقص رکا، ایک زوردار چابک پڑا،اسکے ناک میں موجود نکیل کو زور سے کھینچا گیا، ایک اور آواز پڑی، واہ بہت خوب رقص، ،بھوک، تکلیف سے بلبلاتے اس نے تماشائیوں کی طرف  دیکھا،”انسانو”میں بھوکا ہوں، پیاسا ہوں، میرے پیر زخمی ہیں، اذیت میں ہوں،، مجھے بچا لو، وہ رونے لگا، دہائی دینے لگا، تماشائیوں کی تالیاں زوردار ہوتی گئیں

ہجوم میں سےایک لڑکی نے کہا، بابا کیا ریچھ رو رہا ہے؟نہیں بیٹا، مگر میں دیکھ سکتی ہوں بابا یہ روتا ہے، ،یہ خونخوار جانور ہے بیٹا، محسوسات سے عاری،مگر اسکی آنکھیں تو،،، لڑکی نے سوچا، بابا ہم اسکو بچا لیں؟ نہیں،یہ اسکا                   کام ہے،یہ یہاں بالکل ٹھیک ہے، ،وہ یہ سن کر آسمان کی طرف دیکھنے لگا، تو رب ہے نا؟ بتا میری تخلیق کا مقصد کیا ہے؟ ایک اور تازیانہ پڑا، اس نے مداری کے ڈبے میں بڑھتے کھنکھناتےسکوں کو دیکھا، قدم تیز ہونے لگے۔۔۔۔اس نے “انسانوں” کو التجا بھری نظروں سے دیکھا ۔۔۔اور پھر سے ناچنے لگا،

تماشائیوں” سے احساس کی امید رکھنا بےسود ہے،،موتی سمجھ گیا تھا “

پہلا ورق

طاہرہ حسین