انسانوں کی طرح کٹل فش بھی دور رس نتائج کے تصور کو سمجھتی ہے اور مستقبل میں بہتر انعام کی توقع میں اپنی جبلت پر کنٹرول کر کے سامنے موجود کمتر انعام کو نظر انداز کر دیتی ہے۔

کٹل فش کی ارتقائی تاریخ انسانوں سے بالکل مختلف ہے- اپنے نام کٹل فش کے باوجود یہ جانور مچھلی نہیں ہے، فقاری جانور (یعنی ریڑھ کی ہڈی رکھنے والے جانور) بھی نہیں ہے بلکہ آکٹوپس کے خاندان سیفلوپاڈ سے تعلق رکھتی ہے جن کے اجداد کم از کم پچاس کروڑ سال پہلے ہمارے اجداد سے الگ ہو چکے تھے- کٹل فش کی فزیالوجی میملز سے بالکل مختلف ہے- کٹل فش کے تین دل ہوتے ہیں اور ان کے جسم میں ہڈی نہیں ہوتی سوائے ایک سخت چونچ کے جس سے یہ کیکڑوں، چھوٹی مچھلیوں وغیرہ کا شکار کرتی ہے- ان کی جلد بھی انسانوں سے بالکل مختلف ہے- ان کی جلد پر جگہ جگہ چھوٹے چھوٹے مسل ہوتے ہیں جنہیں کٹل فش کنٹرول کر کے اپنی جلد کو کبھی بے حد سپاٹ اور کبھی بے حد ناہموار بنا سکتی ہے- آکٹوپس کی طرح کٹل فش اپنی جلد کا رنگ بھی تبدیل کر سکتی ہے

کٹل فش بے انتہا ذہین جانور ہے- لیکن اس کی تمام تر ذہانت جینیاتی طور پر اینکوڈ ہوتی ہے- کٹل فشل پیدائشی ذہین ہوتی ہے لیکن انسانوں کی طرح دوسروں کو دیکھ کر نہیں سیکھتی یعنی ان میں کلچر موجود نہیں ہے

سٹینفورڈ یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے انسانی بچوں پر کئی تجربات کیے جنہیں مارش میلو تجربات کہا جاتا ہے- مارش میلو امریکہ میں بچوں کی پسندیدہ مٹھائی ہے- اس تجربے میں چھوٹے بچوں کو ایک مارش میلو دی گئی اور یہ کہا گیا کہ اگر وہ یہ مارش میلو نہ کھائیں تو آدھے گھنٹے کے بعد انہیں دو مارش میلو ملیں گی- اس کے بعد سائنس دان کمرے سے نکل گئے اور بچہ کمرے میں اکیلا رہ گیا- اس تجربے میں دیکھا گیا کہ تین سے چار سال کے بچے تو فوراً ہی مارش میلو کھا جاتے لیکن پانچ چھ سال کی عمر کے بچوں میں کئی بچوں نے اکیلے ہونے کے باوجود (یعنی جب انہیں کوئی نہیں دیکھ رہا تھا) مارش میلو نہیں کھائی اور یوں دو مارش میلو کے مستحق ٹھہرے-

یہ تجربہ کئی سائنس دانوں نے دہرایا ہے اور ہر دفعہ یہی نتیجہ نکلا کے چھ سال سے کم عمر کے بچے delayed gratification کے تصور کو سمجھنے کے قابل نہیں ہوتے لیکن چھ سال کے بچوں میں زیادہ تر بچے یہ سمجھ جاتے ہیں کہ اگر وہ اپنے اوپر کنٹرول رکھیں تو انہیں بہتر انعام ملے گا- یہی تجربہ کچھ ذہین جانوروں پر بھی کیا گیا ہے اور یہ دیکھا گیا ہے کہ چمپنزی اچھے انعام کے لیے دو منٹ تک سامنے پڑے کمتر انعام کو نظر انداز کر سکتے ہیں لیکن اس سے زیادہ دیر انتظار نہیں کر سکتے

سائنس دانوں کا خیال ہے کہ ذہانت، شعور، اور مستقبل کے تصور کی سمجھ سوشل جانوروں میں پیدا ہوئی جو قبیلوں کی صورت میں رہتے ہیں- اس ماحول میں رہنے کے لیے دوسروں کے رویے کی پیش گوئی کرنے کی قابلیت بے حد اہم ہے- اپنے رویے کو کنٹرول کرنا اور دور رس نتائج کے لیے فوری انعام کو نظر انداز کرنا ذہانت کی ایک بڑی نشانی ہے

سائنس دانوں نے مارش میلو تجربے کو کٹل فش پر آزمانے کا فیصلہ کیا اور اس تجربے کو کٹل فش کے ماحول کے مطابق ری ڈیزائن کیا گیا- لیکن تجربہ کا مقصد اب بھی یہی دیکھنا تھا کہ کٹل فش مستقبل میں بہتر انعام کی امید پر فوری انعام کو رد کر سکتی ہے یا نہیں- کٹل فشل زندہ شرمپ کا شکار بہت شوق سے کرتی ہیں اور مردہ شرمپ کھانا پسند نہیں کرتیں- سائنس دانوں نے کٹل فش کے سامنے دو ڈبے رکھے اور انہیں اس بات کی ٹریننگ دی کہ ایک ڈبے میں ہمیشہ مردہ شرمپ اور دوسرے ڈبے میں زندہ شرمپ ملتے ہیں لیکن زندہ شرمپ کے ڈبے کا دروازہ چند منٹ انتظار کے بعد کھلتا ہے جبکہ مردہ شرمپ کے ڈبے کا درواہ تجربے کے آغاز میں ہی کھول دیا جاتا ہے- اس کے علاوہ انہیں یہ بھی سکھایا گیا کہ جونہی وہ ایک ڈبے میں موجود شرمپ کا شکار کریں گی دوسرے ڈبے میں موجود شرمپ اٹھا لیا جائے گا- گویا اگر وہ فوری طور پر مردہ شرمپ کا شکار کرتی ہین تو انہیں زندہ شرمپ نہیں مل پائے گا

اس تجربے میں سائنس دانوں نے مشاہدہ کیا کہ کٹل فش مردہ شرمپ کو نظر انداز کر دیتی ہے حالانکہ اسے علم ہے کہ وہ مردہ شرمپ کو کھا سکتی ہے- لیکن وہ چند منٹ تک انتظار کرتی ہے اور زندہ شرم کے ڈبے کا دروازہ کھلنے کا انتظار کرتی ہے

کم از کم کٹل فش کے بارے میں سائنس دانوں کا یہ خیال درست ثابت نہیں ہوا کہ اس قسم کے پیچیدہ رویے کا ارتقاء صرف سوشل جانوروں میں ہی ممکن ہے- کٹل فش سوشل جانور نہیں ہے لیکن بلا کا ذہین جانور ہے- سائنس دانوں کا خیال ہے کہ کٹل فش میں ذہانت کے ارتقاء کے لیے شدید ارتقائی پریشر تھا کیونکہ ان میں ہڈی نہیں ہوتی اور یہ آسانی سے دوسرے جانوروں کا نوالہ بن جاتے ہیں- ان کے پاس ارتقائی طور ہر اپنے بچاؤ کے لیے اور خوراک حاصل کرنے کے لیے ذہانت بڑھانے کے علاوہ اور کوئی آپشن نہیں تھی

کٹل فش سوشل جانور نہیں ہیں اور آکٹوپس کی طرح تمام عمر تنہا گذارتے ہیں- اس لیے کٹل فشل میں اس قدر ذہانت اور اپنے رویے کو کنٹرول کرنے کی قابلیت حیرت انگیز ہے۔ اگر کٹل فش اس قدر ذہین ہیں تو سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ان میں شعور بھی ہے؟ ابھی تک سائنس دانوں کے پاس جانوروں میں شعور کی موجودگی ٹیسٹ کرنے کا کوئی طریقہ موجود نہیں ہے اس لیے فی الحال اس سوال کا جواب دینا ممکن نہیں ہے۔

ویڈیو کا لنک

Can this Cuttlefish Pass an Intelligence Test Designed for Children?

Witness a hungry, color-changing cuttlefish take part in an oddly adorable, psychological test. Following days of training, the cuttlefish is faced with the decision to strike and devour one of two tempting prey: Will it wait for the live crayfish or immediately strike the shrimp? Its intriguing behavior is challenging our understanding of the origins of intelligence.

This groundbreaking experiment was adapted from the Stanford Marshmallow Test, originally designed for children.

PRODUCTION CREDITS:

Produced, Directed, and Narrated by Greg Kestin
Senior Digital Producer: Ari Daniel

Executive Producers: Julia Cort and Chris Schmidt
Consultants: Aaron Blaisdell, Josep Call
Camera: Greg Kestin, Shaun Hepple, Emily Zendt

READ more in the research paper “Cuttlefish exert self-control in a delay of gratification task” https://royalsocietypublishing.org/doi/10.1098/rspb.2020.3161

Authors:
Alexandra K. Schnell
Nicola S. Clayton
Markus Boeckle
Micaela Rivera
Roger T. Hanlon

Special Thanks:
Tina Newberry
Kelly Sowers
Joe Porter
Mitchell Salley
Brennan Schaefer
P.J. Donahoe
Edward Thomson
Sara Cooper
Kendra Buresch
Chris Matulis
Denise Semedo
E.J. Masicampo
Timothy Huang

Music: APM
Sound Effects: Freesound.org
Stock footage: Videoblocks, Pond 5, Shutterstock

Funding by: Foundational Questions Institute Franklin Fetzer Fund

This project was supported by grant number FQXi-RFP-1822 from the Foundational Questions Institute and Fetzer Franklin Fund, a donor advised fund of Silicon Valley Community Foundation.

© WGBH Educational Foundation 2021

Witness a hungry, color-changing cuttlefish take part in an oddly adorable, psychological test. Following days of training, the cuttlefish is faced with the decision to strike and devour one of two tempting prey: Will it wait for the live crayfish or immediately strike the shrimp? Its intriguing behavior is challenging our understanding of the origins of intelligence.

This groundbreaking experiment was adapted from the Stanford Marshmallow Test, originally designed for children.

PRODUCTION CREDITS:

Produced, Directed, and Narrated by Greg Kestin
Senior Digital Producer: Ari Daniel

Executive Producers: Julia Cort and Chris Schmidt
Consultants: Aaron Blaisdell, Josep Call
Camera: Greg Kestin, Shaun Hepple, Emily Zendt

READ more in the research paper “Cuttlefish exert self-control in a delay of gratification task” https://royalsocietypublishing.org/doi/10.1098/rspb.2020.3161

Authors:
Alexandra K. Schnell
Nicola S. Clayton
Markus Boeckle
Micaela Rivera
Roger T. Hanlon

Special Thanks:
Tina Newberry
Kelly Sowers
Joe Porter
Mitchell Salley
Brennan Schaefer
P.J. Donahoe
Edward Thomson
Sara Cooper
Kendra Buresch
Chris Matulis
Denise Semedo
E.J. Masicampo
Timothy Huang

Music: APM
Sound Effects: Freesound.org
Stock footage: Videoblocks, Pond 5, Shutterstock

Funding by: Foundational Questions Institute Franklin Fetzer Fund

This project was supported by grant number FQXi-RFP-1822 from the Foundational Questions Institute and Fetzer Franklin Fund, a donor advised fund of Silicon Valley Community Foundation.

© WGBH Educational Foundation 2021