ابتدا میں ایک ایس ایم ایس بھیجنے کے 3 روپے چارج ہوتے تھے۔اور موبائل میں کارڈ ڈالا جاتا تھا جو کم از کم 500 روپے کا ملتا تھا۔ پھر ایس ایم ایس سستے ہونے لگے۔ یہاں تک کہ ایک روپے میں ایک میسج بھیجا جانے لگا۔ ایس ایم ایس کا دور آیا تو ہمارے فون میں صرف 30 ایس ایم ایس محفوظ کیے جا سکتے تھے۔ ہم نے کچھ شاعری اور کچھ سمبلز(علامات) سے بنے ہوئے جوک محفوظ کیے۔
پھر جب پیکج کا دور شروع ہوا تو 30 ایس ایم ایس کی گنجائش بہت ہی کم محسوس ہونے لگی۔ سو ہم نے ایس ایم ایس محفوظ کرنے کے لیے ڈائری بنائی۔ اس میں علامات والے ایس ایم ایس بھی لکھے اور احمد فراز کے نام سے گردش کرنے والی مزاحیہ شاعری بھی۔ اور پھر چشم فلک نے دیکھا کہ 12 روپے میں دن بھر لاتعداد ایس ایم ایس۔ اور پھر ماہانہ اور سالانہ پیکج۔ خود میں نے بھی یوفون کا سالانہ ایس ایم ایس پیکج لیا تھا۔ اور بہت لطف آتا تھا۔ دن بھر میسج بھیجے جاتے۔ کی پیڈ والے فون سے ایک ہاتھ سے بھی ٹائپ کیا جا سکتا تھا اور اساتذہ تو بنا دیکھے بھی پروف کی غلطی کے بغیر پیغام لکھ لیتے تھے۔
پھر سمارٹ فون آیا تو واٹس ایپ نے ایس ایم ایس کی جگہ لے لی۔ اب صرف کمپنیوں کے اور کمرشل ایس ایم ایس ہی آتے ہیں۔
واٹس ایپ میں بھی وہی میموری کا مسلہ ہے۔ اس میں بھی سارا ڈیٹا فون میں محفوظ ہوتا ہے۔ اور بے تحاشا گروپوں کی وجہ سے ہر وقت پیغامات کی ترسیل جاری رہتی ہے۔ تو ہم نے گروپوں کو سال بھر کے لیے سائلنٹ کر دیا۔ اس سے ہمیں احساس ہوا کہ سال تو جھٹ پٹ گزر جاتے ہیں۔ میرے لیے میموری کا مسلہ میرے ظرف کی وسعت سے بھی زیادہ سنگین ہے۔ سو میں کسی گروپ کا کوئی میڈیا ڈاون لوڈ نہیں کرتی جب تک کہ کوئی قتل کی دھمکی نہ ملے۔ اور عادی مجرموں کے فارورڈ میسیج کی بھی ہمیں بس اتنی ہی عادت ہے۔ لہذا ان کی بھی ڈاون لوڈنگ بند کر کے ان کو سائلنٹ پر لگا رکھا ہے۔ کچھ دوست (یعنی آپ) کے میسجز کو میں کبھی سائلنٹ اور نظرانداز نہیں کرتی۔ ہمیشہ ڈاون لوڈ کر کے عبرت وغیرہ حاصل کرنے کے لیے مزید دوستوں کو فارورڈ کر دیتی ہوں اس لیے آپ مجھ سے خفا نہ ہو جائیے گا۔
اس سارے ہنگامے میں ہم نے قریبا 20 سال تو گزارے ہی ہوں گے۔ ( یوں تو اس سے زیادہ ہیں۔ لیکن کچھ لوگ عمر کے بارے میں غلط باتیں سوچتے ہیں اس لیے ہم نے احتیاط کی ہے) اس عرصہ میں ہمیں بہت سے لوگوں سے واسطہ پڑا، بہت سے پیغامات سے علم میں اضافہ ہوا تو ہم نے یہ سیکھا کہ کس طرح کے میسجز نہیں بھیجنے چاہیں۔ ملٹی میڈیا پیغامات میں خون خرابا اور ظلم و ستم وغیرہ کی تصویریں تکلیف دیتی ہیں۔ کسی کمیونٹی کا مذاق اڑانا اور کسی بھی مذہب کے بارے میں اس کی اغلاط کی نشان دہی کرنا صرف دکھ درد اور توڑ ھوڑ کا باعث بنتا ہے۔ اشعار صرف سخن فہم دوستوں کو، لطائف صرف باذوق دوستوں کو، ذاتی باتیں صرف خود کو یا بیسٹ فرینڈ کو ہی بھیجی جا سکتی ہیں۔ غیبتیں سب کے ساتھ آپس میں، سکرین شات کا بڑا ذخیرہ گیلری میں، دوستوں کی بنا فلٹر والی اصلی شکلیں گروپوں میں شئیر کرنے سے آپ کی سوشل سینس مشتبہ ہو جاتی ہے۔ کسی کو چیٹ کا سکرین شاٹ بھیجیں تو ان کو ہماری گفتگو میں ہی کیڑے نظر آتے ہیں۔اور وہ عموما ہمیں قابل اعتماد دوستوں کی فہرست سے نکال دیتے ہیں۔
ایک بات تو طے ہے کہ 2020 کے بعد اندھا دھند میسیج فارورڈ کرنے والوں کو قید با مشقت ہونی چاہیے۔ اب تک جن لوگوں نے یہ نہیں سیکھا کہ کوئی پیغام پڑھ کر اس کی تصدیق کر کے اپنی ذمہ داری سے آگے بھیجنا ہے، وہ پڑھا لکھا ہی نہیں ہو سکتا۔ خاص طور پر وہ لوگ جو ہر غیر متعلق بات کو خبر تصور کرتے ہیں اور اس سے سب کا شعور منور کرتے ہیں، ان کو بلاک کرنا لازمی قرار دیا جانا چاہیے۔ وہ فن کار جو نہ صرف فن کا نمونہ بھیجتے ہیں بلکہ اس پر ہماری ماہرانہ، نقادانہ یعنی صرف تعریفی مقالہ چاہتے ہیں ان کو تو بلا تکلف ہلاک کرنا جائز ہونا چاہیے۔ اب تو زوم میٹنگز کے اس قدر دعوت نامے آتے ہیں کہ ہمیں بعض اوقات سیکرٹری کی ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اگر ہماری شرکت کے بغیر گزارا ہوتا ہو تو پلیز ہمیں نظرانداز کر دیا کریں ۔
ہمارے انباکس کو سکون کی سانس لینے کا اتنا ہی حق ہے جتنا کہ آپ کو۔ دن رات میسج آنے کا شور، اہم پیغام کے مس ہونے کا خوف اور نئے میسیج کو پڑھنے کا تجسس ہمیں کسی اور کام میں لگن سے مصروف نہیں ہونے دیتا۔ یہی وجہ ہے کہ سیل فون نہ ہمیں کتاب پڑھنے دیتا ہے اور نہ کچن میں کھانا ہی ہم یک سوئی سے پکا سکتے ہیں۔ اس کا گناہ ہم سب کے سر۔۔ جو محض تفنن طبع کی خاطر بے تکے اور بے کار پیغامات رینڈم وقت پر بہت سے لوگوں کو کاپی پیسٹ کر کے بھیجنے کے عادی ہیں۔ ہماری اعلی سے اعلی بات کی داد بھی صرف ایک شخص ہی دے سکتا ہے۔ اور وہ ایک شخص ہر میسیج کی کیٹیگری کے حساب سے بدلنا ہی چاہیے۔ عشاق کو بھی ہر پیغام بھیجیں تو وہ بھی نظرانداز کرنا ہی سیکھیں گے اور کسی سے کوئی کیا توقع رکھے اس کے بعد۔ عشاق کے دل میں تو 10 ماؤں کے برابر محبت ہوتی ہے۔
اب دیکھ لیں کتنا اچھا مضمون سوجھا تھا۔ لیکن کسی نے غیبت بھیج کر خیال کا پرندا ہی اڑا دیا۔ سب سے دلچسپ گفتگو یہی ہے حالاں کہ اس کے نقصانات سب سے زیادہ ہیں۔ لیکن اس سے میں کل توبہ کروں گی۔اب اجازت دیں 2 منٹ سے زیادہ دیر ہوجائے تو لوگ ناراض ہو جاتے ہیں اور شب بخیر کہہ کر اگنور پر لگا دیتے ہیں۔ پھر ملیں گے۔

Safia Kaosar

نام تو میرا آپ جان ہی گئے ہیں۔کالج میں اردو پڑھاتی ہوں جس میں ذرا بھی محنت نہیں لگتی اس لیے محنت پسندی کی تسکین کے لیے کبھی لکھ لیتی ہوں، کبھی بول لیتی ہوں، گھر والے کسی صورت میں نہیں سنتے۔ اس لیے دوستوں کے مجمعوں میں بات کہنے کے موقع تلاش کرتی ہوں ویسے اصل مومن کی طرح کم آمیز اور سچے مسلمان کی طرح سادہ دل ہوں۔ My Email : [email protected]