شجر کہانی محض درختوں سے مکالمہ ہی نہیں بلکہ ادبی چاشنی سے لبریز،علم ،محبت اور گیان کا ہمیشہ جاری رہنے والا سفر ہے۔مصنف برادر ڈاکٹر اسد سلیم شیخ اس قحط الرجال کے دور میں ایسی سدا بہاراور مشفق شخصیت ہیں جن سے نسبت ہم جیسے کوتاہ علموں کو بھی معتبر کر دیتی ہے۔آپ دور حاضر کے منجھے ہوئے استاد،نامور ادیب،مشاق و ماہر تاریخ نگار،سفر نامہ نگار،اور جویائے تحقیق ہیں۔آپ کی بے پناہ تحقیقی،تاریخی اور ادیبانہ خدمات پر 2005 میں حکومت پاکستان نے صدارتی ایوارڈ”اعزاز فضیلت” سے نوازا۔اس کے علاوہ “تحریک پاکستان میڈل”،”ہاشم شاہ ایوارڈ”اور “دیوان سنگھ مفتون”ایوارڈز سے بھی نوازے گئے۔ان کی بلند ادبی و تاریخی قدوقامت یقیناً کسی تعارف کی محتاج نہیں۔
جنوری میں مجھ ناچیز کو فورم پر ممبر آف دی ایئر قرار دیاگیا جو میرے لیے نہایت حوصلہ افزا امر تھا،برادر معظم کی طرف سے ان کی کتاب ” شجر کہانی” کا ہدیہ موصول ہوا،جو کہ میرے لیے بہت عزت وشرف کا باعث ہے۔یہ ہدیہ دراصل کسی تحیر کدے کا دروازہ ہے،جو وا ہوتے ہی ایک طلسم ہوشربا سامنے آجاتا ہے۔اور عقل حیراں ہوجاتی ہے کہ فطرت نے کیسے بے پناہ گن سے صاحب کتاب کو متصف کیا ہے،پروردگار کی ایسی عطا کم ادیبوں کو ہی نصیب ہوتی ہے۔کتاب کا اسلوب بڑا ادبی ہے،مصنف دلچسپ اور جاندار اسلوب کے سب قرینوں سے بخوبی آگاہ ہیں۔تاریخ کے میدان کے تو وہ بذات خود شہسوار ہیں سو درختوں کے تعارف کے ساتھ ساتھ اس خطے کی تاریخ کے مستند حوالے وواقعات ساتھ ساتھ چلتے ہیں۔اپنے ملک کی تہذیب وثقافت کی خوشبو مصنف کے شخصی اظہار کو مہکائے رکھتی ہے۔درختوں کے پیرائے میں علاقائ رسم ورواج،زبان و ثقافت ،معاشرتی عکاسی کی بڑی زندہ مثالیں موجود ہیں۔
مصنف کو اپنی زمین،تاریخ،معاشرت اور تہزیب و تمدن سے عشق ہے اور یہ عشق کتاب کی ایک ایک سطر میں رچا ہوا ہے،یہ رچاؤ قاری کے دل کو اپنی گرفت میں لے لیتا ہے۔درختوں کا تعارف کرواتے سن کے طبی خواص یوں بیان کیے گئے ہیں جیسے مصنف کوئ سائینسدان ہوں،ذرا “ارجن” سے مکالمے میں اس کی بیان کردہ خصوصیات ملاحظہ فرمائیں۔
“میرے اجزاء خون کی نالیوں کو مضبوط بناتے ہیں۔میری چھال سے بنا قہوہ چکنائی اور پروٹین کو جمنے نہیں دیتا اور یوں آپ کی رگوں میں خون دوڑتا پھرتا ہے”
مصنف فطرتا انسان دوست اور نرم خو ہیں۔پرندوں اور درختوں سےبھی انسانوں جیسی شفقت کا مظاہرہ کرتے ہیں۔”ارجن ” سے ہی گفتگو کرتے ہوئے اپنی فطرت دوستی کا اظہار کچھ یوں فرماتے ہیں،
“میں نے اپنے گھر اور اوپری منزل کے برآمدوں اور چھتوں کے لکڑی کے بالوں میں کئ کھلی جگہیں چھوڑ رکھی ہیں تاکہ وہاں چڑیاں آکر بسیرا کریں۔وہاں کالے اور بھورے رنگ کی چڑیاں رہتی ہیں اور فجر کے وقت جب ہر طرف سکون اوروسکوت ہوتاہے،ان کی اچانک چہچہاہٹ کی آوازیں بہت مسحور کن ہوتی ہیں “
کتاب میں منظر نگاری بہت کمال کی کی گئ ہے، سکھ چین سے مکالمے میں یہ سطور ملاحظہ ہوں،
“سکھ چین واقعی میں نے تمہارا یہ منظر کئ بار دیکھا ہے!تمہارے منفرد سبزرنگ اور اس سے چھن کر آتی ہوئ سحر انگیز روشنی ،اپنے اندر ایک جادو سا لیے ہوتی ہے۔جس سے بچنا محال ہے”
ضرورت پڑھنے پر ساتھ ساتھ تاریخی واقعات کا بیان تو اس کتاب کی جان ہیں،اور ہم جیسے کم علموں کے لیے اپنی جہالت دور کرنے کے لیےکسی علمی خزانے کے ہاتھ لگ جانے سے کم نہیں۔ نوجوان نسل تک بڑے آسان انداز میں تاریخ سے لو لگانے کی کوشش کی گئ ہے۔چند مستند اور عام فہم حوالے ملاحظہ فرمائیں۔
“چند سال بعد جب انہوں نے حالات اپنے قابو میں کر لیے تو انہوں نے اپنی بیگمات کو بھی کوئٹہ بلا لیا تاکہ ساتھ ساتھ زندگی بسر کر سکیں۔بیگمات کو کویٹہ بہت خوبصورت لگا۔ایک روزوہ تانگوں پر سوار اس کے مختلف بازاروں کی طرف چل پڑے۔تانگوں کے سامنے یہی توت جو کسی وقت چین سے لائے گئے تھے اور کچھ سال پہلے انگریزوں نے ان کو سڑکوں کے کناروں پر لگوایا تھا دیوار چین بن گئے تھے۔جب یہ درخت بڑے ہوئے تو شہتوت سڑکوں پر گرنے لگے اور انگریزی حکام کے تانگے پھسلنے لگے۔لہذا سڑک کے کنارے تمہاری نسل کو کاٹ دیا گیا تاکہ گوروں کے گھوڑے نہ پھسل سکیں”
(اپنا گراں ہووے توتاں دی چھاں ہووے،صفحہ نمبر 24)
“آزادی وطن کے اس جری بہادر رائے احمد خان کا سر شہادت کے بعد،گوگیرہ بنگلہ لایا گیا اور لوگوں میں خوف وہراس پیدا کرنے کے لیے شارع عام پر ایک درخت کے ساتھ لٹکا دیا گیا___یہ درخت تو شاید کسی اور نسل کا تھا مگر اس کے اردگرد جن درختوں نے مرد حریت کی شہادت کا منظر دیکھا وہ اوکاں کے تھے”
(تمہیں اوکاں کہوں یا فراش،صفحہ نمبر120)
کتاب جگہ جگہ صاحب کتاب کے وسیع المطالعہ ہونے کی گواہی دیتی ہے۔ایسی مثالیں جابجا ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ تاریخ کے یہ مرد میدان،ادب سے بے پناہ شغف رکھتے ہیں اور تقریباً سب بڑے ادیب وشعراءکا مطالعہ کر چکے ہیں۔”قامت جاناں ___ سرو “کے بیان میں معروف ادیب اور سفرنامہ نگار مستنصر حسین تارڑ کے سفرنامے”نیویارک کے سورنگ “میں ہونے والے سرو کے درخت کا ذکر انہی کے الفاظ میں کچھ یوں حوالہ پیش کیا گیا ہے,
“ونسٹن فان گوگ(واں گوخ)ایک ایسا مصور ہے جس کی تصویروں نے اوائل عمری میں ہیں میرے بدن کے کنوارپن میں خواہشوں کے فتور بھر دیے_____________اور آج پھر ان تصویروں کو دیکھتا تھا تو ایک ہیجان میں مبتلا ہوتا تھا۔۔۔اس کا پاگل پن مجھ پر اثر کرتا تھا”
درختوں کے طرح طرح کے قصے بیان کرتے ہوئے کبھی کبھار مصنف بڑا پر لطف ناسٹلجیائ انداز اختیار کرتے ہیں،پیپل جیسے گیانی کا ذکر کرتے ہوئے انہیں اپنے بچپن میں چنے بیچنے والے چاچا سردارا کی یاد ستانے لگتی ہے جو اس درخت کے پتوں میں ابلے ہوئے چنے لپیٹ کر دیتا تھا۔وہ پیپل کو بتاتے ہیں کہ ،”اس وقت بھی ہم تمہارے پتوں پر پھیلی ہوئ لکیریں غور سے دیکھتے تھے اور ان کو اپنے ہاتھوں کی لکیروں بسے ملایا کرتے تھے”
کتاب میں کچھ چونکا دینے والے اقوال،کہاوتوں اور ضرب الامثال کا ذکر بھی بڑا برموقع اور برمحل کیا گیا ہے۔”درختوں کا بھگوان “نیم”___ دھی دھریک ” سے یہ مثال ملاحظہ فرمائیں،
“ان لوگوں میں یہ کہاوت مشہور ہے کہ کرشنا اپنے آپ کو انسانوں کے درمیان اسی طرح بھگوان بناتے ہیں،جس طرح درختوں میں نیم کا پیڑ بھگوان ہو تاہے”
“بکائن کی بات سن کر مجھے داماد رسول صلی اللّٰہ علیہ وسلم ،حضرت علی علیہ السلام کا قول یاد آگیا کہ ,
” اتنے انسان بھوک سے نہیں کریں گے جتنا زیادہ کھا کر” ۔۔۔”
اسی میں شامل پنجابی وسیب کی ایک مشہور کہاوت”دھی دھریک،تے پتر امب”
“تمہیں اوکاں کہوں یا فراش” میں رائے احمد خان کا گھوڑی اور جوان مانگنے پر انگریزوں کو جواب,
“صاحب یہاں کوئ بھی اپنا گھوڑا،عورت اور زمین نہیں چھوڑتا”
شجر کہانی سے بعض حیران کن امور کا بھی علم ہوا کہ تعصبات کا شکار صرف انسان ہی نہیں درخت بھی بنائے جاسکتے ہیں،
۔”درختوں کا بھگوان “نیم”___ دھی دھریک ” سے یہ مثال ملاحظہ فرمائیں،
“مگر میرے بزرگوں کی اولاد میں میری کچھ سہیلیاں ہیں،وہ بتاتی ہیں کہ امریکی ان سے نسلی تعصب برتتے ہیں۔وہ انہیں اجنبی درخت سمجھتے ہیں کیوں کہ وہ یورپی نہیں”
الغرض قصہ مختصر،شجر کہانی صرف درختوں سے مکالمہ ہی نہیں،ادبی مٹھاس،ستھرے شعری ذوق،اہم تاریخی واقعات،سیاسی وسماجی شعورکی بڑی اعلیٰ مثال ہے،جو پڑھنے والے کا دامن گوناگوں علمی تحیرات سے بھر دیتی ہے،اور آدمی اس طلسم ہوش ربا کے سحر میں عرصہ دراز تک مقید رہتاہے۔میرے لیے تو یہ علمی تبرک،میرے وجدان کی جلا اور تربیت کا باعث ہے۔اب میرےپاس اپنی بیٹی فاطمہ کو سنانے کے لیے ہر پیڑ کی کہانی موجود ہے۔