جدید فزکس کے تناظر میں سٹیفن ہاکنگ کا نام کسی تعارف کا محتاج نہیں ہے- فزکس میں ان کی خدمات کے معترف تو تمام ہی فزسسٹ ہیں- لیکن عوام میں ان کی مقبولیت کا بڑا سبب یہ ہے کہ اگرچہ ایک جینیاتی بیماری کی وجہ سے ان کا تمام جسم مفلوج تھا لیکن پھر بھی وہ فزکس کے صف اول کے سائنس دان تھے، سینکڑوں سائنسی پپپرز کے مصنف تھے اور فزکس کی کم و بیش ہر بڑی کانفرنس میں شریک ہوتے تھے- عمر کے آخری عشرے میں ہاکنگ تقریباً تمام مشہور ٹی وی پروگرامز میں شرکت کر چکے تھے، کئی ٹی وی ڈاکیومنٹریز بنا چکے تھے، اور سائنس کو مقبول بنانے کے لیے کئی کتابیں لکھ چکے تھے- ان کی کتاب A brief history of time جدید فزکس کے نظریات پر دنیا کی مقبول ترین کتابوں میں شمار ہوتی ہے۔
ہاکنگ کا ایک ٹریڈ مارک وہ کمپیوٹر بھی ہے جو ان کی وہیل چیئر پر نصب تھا اور جس کی وساطت سے وہ لوگوں سے گفتگو کرتے تھے- ہمارے ہاں اس کمپیوٹر سے متعلق بہت سے بے سروپا قصے بھی مشہور ہیں اور اس سے متعلق کئی سازشی نظریات قائم کیے جا چکے ہیں- اکثر لوگوں کو یہ وہم ہے کہ یہ کمپیوٹر سٹیفن ہاکنگ کے خیالات کو پڑھ لیتا تھا حالانکہ یہ تصور درست نہیں ہے۔
سٹیفن ہاکنگ کو ALS کا مرض تھا جس میں موٹر نیورونز (یعنی وہ نیورونز جو ہمارے مسلز کو کنٹرول کرتے ہیں) ناکارہ ہو جاتے ہیں اور ان ناکارہ نیورونز کی وجہ سے مسلز تک دماغ کے احکامات نہیں پہنچ پاتے اور مسلز اپن کام کرنا چھوڑ دیتے ہیں- اس بیماری کی وجہ سے سٹیفن ہاکنگ حرکت نہیں کر سکتے تھے، ٹائپ نہیں کر سکتے تھے، اور بول نہیں سکتے تھے- لیکن خوش قسمتی سے ان کے پاس آنکھوں کا کنٹرول تھا اور چہرے پر گال کے کچھ مسلز پر بھی کنٹرول حاصل تھا- چنانچہ Intel کمپنی کے سی ای او (جو کہ خود بھی سائنس کے شیدائی تھے اور سٹیفن ہاکنگ سے بے حد متاثر تھے) نے اپنی کمپنی کے انجینیئرز کو سٹیفن ہاکنگ کے لیے ایک خصوصی کمپیوٹر بنانے کی ہدایت دی۔
اس کپمیوٹر کے cursor کو گال کی حرکات سے کنٹرول کیا جا سکتا تھا (جس طرح ہم ماؤس سے کرسر کو کنٹرول کرتے ہیں)- ایسا کرنے کے لیے سٹیفن ہاکنگ کی عینک کے فریم پر ایک ایسا سینسر لگایا گیا جو ہاکنگ کے گال کو چھوتا تھا اور گال کی حرکات کو ڈیٹیکٹ کر سکتا تھا- اس سینسر کو کمپیوٹر کے ساتھ کنیکٹ کیا گیا جس میں ایک خصوصی سافٹ ویر انسٹال کی گئی تھی جو اس سینسر کے سگنل کو ماؤس کے سگنل کی طرح پڑھ سکتی تھی- چنانچہ اس خصوصی سافٹ ویئر کی مدد سے ہاکنگ سکرین پر کرسر کو کنٹرول کر کے انگریزی کے حروف اور الفاظ پر کلک کر کے اپنے جوابات لکھ سکتے تھے- یہ ایسا ہی ہے جیسے کوئی شخص محض ایک انگلی سے ٹائپ کرے- اس طرح ٹائپ کرنا بے حد سست رفتار ہے لیکن اس کمپیوٹر میں مصنوعی ذہانت پر مبنی پروگرام بھی انسٹال کیا گیا تھا جو ہاکنگ کی ٹائپنگ سے یہ سیکھتا تھا کہ ہاکنگ کس موقع پر کونسے الفاظ زیادہ استعمال کرتے ہیں- یہ پروگرام ان ممکنہ الفاظ کی فہرست سکرین پر فراہم کرتا تھا جن میں سے ہاکنگ بہترین لفظ چن لیتے تھے- مشق کے ساتھ رفتہ رفتہ ہاکنگ کی ٹائپنگ سپیڈ بہتر سے بہتر ہوتی گئی اور وہ کسی بھی سوال کا جواب چند منٹ میں ٹائپ کرنے کے قابل ہو گئے۔
بالمشافہ گفتگو کے لیے ان کے ٹائپ کردہ جوابات کو ایک سپیچ سینتھیسائزر کو بھیجا جاتا تھا جو اس عبارت کو آواز میں منتقل کرتا اور کمپیوٹر کے سپیکر سے یہ آواز پلے کرتا- اس طرح ہاکنگ نہ صرف سائنسی پیپرز اور کتابیں لکھ پاتے تھے بلکہ کانفرنسوں اور ٹی وی انٹرویوز میں سوالات کے جواب بھی بروقت دے پاتے تھے- جس طرح وقت گذرنے کے ساتھ ساتھ ہاکنگ کی ٹائپنگ سپیڈ بہتر ہوتی گئی وہیں انٹل کمپنی کے انجینیرز کے لیے یہ کمپیوٹر مصنوعی ذہانت کو بہتر بنانے کا ایک بہترین پلیٹ فارم بھی ثابت ہوا- یہ ٹیم اس کمپیوٹر کی پرفارمنس کو ہر وقت مانیٹر کرتی رہی اور مصنوعی ذہانت کے الگورتھمز کو بہتر سے بہتر بناتی گئی جس سے ہاکنگ کی ٹائپنگ کی رفتار وقت کے ساتھ مزید بہتر ہونے لگی۔
اب سٹیفن ہاکنگ تو اس دنیا میں نہیں ہیں لیکن ان کے اس کمپیوٹر کی وجہ سے انٹل کمپنی کے انجینیرز نے مصنوعی ذہانت کو بہتر بنانے کے جو طریقے سیکھے اس کی مدد سے اس کمپیوٹر کو نہ صرف مزید بہتر بنایا جا رہا ہے بلکہ انٹل اب اس ہارڈ ویئر اور سافٹ ویئر پلیٹ فارم کو پبلک ڈومین میں شائع کر رہی ہے- پبلک ڈومین میں شائع کرنے کا مطلب یہ ہے کہ اگر کوئی شخص یا کمپنی معذور افراد کے لیے بہتر کمپیوٹرز بنانے کے لیے انٹل کے کمپیوٹر یا ہارڈویئر یا سافٹ ویئر استعمال کرنا چاہے تو اسے ایسا کرنے کے لیے انٹل سے قانونی اجازت لینے کی ضرورت نہیں رہے گی- اس قدم کا مقصد یہ ہے کہ مختلف قسم کی جسمانی یا ذہنی معذوری کے حامل افراد کے لیے کمپیوٹرز کو سپیشلائز کیا جا سکے اور کمپیوٹر کی مصنوعی ذہانت ہر معذور فرد کی خصوصی پرابلمز کو سمجھ سکے تاکہ اس شخص کے لیے کمپیوٹر کو کنٹرول کرنا آسان بنا سکے- اس کمپیوٹر کو صرف ٹائپنگ اور ورڈ پراسیسنگ کے لیے ہی استعمال نہیں کیا جائے گا بلکہ اس سے معذور افراد کی وہیل چیئر بھی چلائی جا سکے گی- معذور افراد کے لیے خصوصی ہارڈویئر بھی ڈیزائن کی جا رہی ہے جسے exoskeleton کہا جاتا ہے- جن افراد کی ٹانگیں کام نہیں کرتیں ان کی ڈانگوں پر یہ exoskeleton چڑھایا جائے گا جس میں کئی موٹریں لگی ہوں گی جو اس کمپیوٹر سے کنٹرول ہوں گی- ان موٹروں کے مصنوعی ذہانت پر مبنی کنٹرول سے یہ exoskeleton ان افراد کو پیدل چلنے میں مدد دے گا-
اسی طرح گونگے افراد اس کمپیوٹر کو بول چال کے لیے استعمال کر سکیں گے- نابینا افراد ایک خصوصی عینک استعمال کریں گے جس پر دو کیمرے لگے ہوں گے جن کا سگنل اس کمپیوٹر کو فیڈ کیا جائے گا- گویا اس کمپیوٹر کی مدد سے نابینا افراد بغیر کسی کی مدد کے چل پھر سکیں گے- بہرے افراد کے لیے یہ کمپیوٹر دوسرے لوگوں کی آوازوں کو سمجھ کر انہیں ٹیکسٹ کی صورت میں سکرین پر پیش کرے گا- چونکہ یہ پروگرام مصنوعی ذہانت پر مشتمل ہے اس لیے یہ کمپیوٹر اپنے ماحول سے سیکھے گا اور ہر کمپیوٹر اپنے ‘مالک’ کے لیے اس قدر سپیشلائزڈ ہو جائے گا کہ رفتہ رفتہ یہ کمپیوٹر اس شخص کی شخصیت کا ہی عکاس بن جائے گا-
مستقبل میں اس کمپیوٹر کو براہِ راست اس شخص کے دماغ کے ساتھ منسلک کر دیا جائے گا اور یوں معذور لوگ اس کمپیوٹر کو براہ راست اپنے دماغ سے کنٹرول کر پائیں گے- اس کے بعد یہ کمپیوٹر حقیقی طور پر ان معذور افراد کے جسم اور دماغ کا حصہ بن جائے گا اور ان کے جسم کے معذور حصوں کا کام خود سنبھال لے گا۔
بدقسمتی سے ہمارے ہاں کچھ حلقوں میں سٹیفن ہاکنگ اور ان کے کمپیوٹر سے متعلق بہت سے بے سروپا سازشی نظریات مشہور ہیں- مثال کے طور پر کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ سٹیفن ہاکنگ کا کوئی وجود ہی نہیں تھا- اس سازشی نظریے کے مطابق ہاکنگ کی کرسی پر کوئی ایکٹر بیٹھا ہوتا تھا جو معذوری کی ایکٹنگ کرتا تھا اور تمام جوابات کیمرے کے پیچھے بیٹھے سائنس دان دیتے تھے- جس تیزی سے انٹل کا یہ کمپیوٹر بہتر سے بہتر ہوتا جا رہا ہے، عین ممکن ہے کہ مستقبل میں جب سازشی نظریات کے حامل یہ لوگ بوڑھے ہوں گے اور ان کی کچھ حسیات کام کرنا چھوڑ دیں گی تو یہ حضرات اسی کمپیوٹر کو استعمال کرتے پائے جائیں گے۔