وہ ایک سادہ لوح خاتون تھیں اور زندگی کے بیس سال میں نے ان کو ایک ہی دھن میں مگن پایا: جنت حاصل کرنے کی جدوجہد۔ میری دادی کا سارا دن مختلف فرض اور نفل نمازیں ادا کرنے اور قرآن پڑھنے میں گزر جاتا تھا۔ میں نے جب نیا نیا سکول جانا شروع کیا اور ”الف بے پے“ پڑھنی آ گئی تو چھٹی والے دن اکثر وہ قرآن پڑھتے ہوئے مجھے اپنے پاس بلاتیں اور پوچھتیں کہ بتاؤ اس میں ”ن“ کہاں لکھا ہے اور ”ب“ کہاں ہے۔ میں انگلی سے اشارہ کرتا تو وہ اتنی شاباش دیتیں کہ میں خوشی سے نہال ہو جاتا۔ پورے گھر میں ڈھنڈورا پیٹا جاتا کہ لڑکے کو پڑھنا آ گیا ہے۔ مجھے بتاتیں کہ تم نے دس نیکیاں جیت لی ہیں صرف ایک حرف پڑھ کر۔ میں اس چھوٹے سے کام پر حیران بھی ہوتا کہ بھئی شاباش لینے کا یہ تو بہت ہی آسان طریقہ ہے۔ اور پھر میں بہانے بہانے سے جان بوجھ کر ان کے پاس جاتا کہ کب وہ میری طرف متوجہ ہوں اور مجھے دس نیکیوں کے ساتھ ڈھیروں شاباش حاصل کرنے کا شرف حاصل ہو۔ میں بڑا ہوتا گیا لیکن شاباش کا یہ سلسلہ ایسے ہی چلتا رہا۔ کبھی نعت پڑھنے پر، کبھی کوئی سورۃ یاد کرنے پر اور کبھی ناظرہ قرآن پڑھنے یا کسی دینی کتاب پڑھ کر سنانے پر اتنی شاباش ملتی کہ مجھے کھیل کود میں مزا ہی نہیں آتا تھا۔
آپ مانیں نہ مانیں، میری دادی اور فیس بک میں ایک قدر مشترک تھی۔ وہ جانتی تھیں کہ ایک چھوٹے سے کام پر ضرورت سے زیادہ شاباش ملنے پر انسان اس روش پر پکا ہو جاتا ہے اور بار بار اسی کو دوہراتا ہے۔ اس طرح حوصلہ افزائی کر کے انسان سے بڑے بڑے کام کروائے جا سکتے ہیں۔ فیس بک بھی بالکل ایسے ہی کام کرتی ہے۔ آپ نے کوئی ایک جملہ یا ایک تصویر اپ لوڈ کی۔ کچھ ہی منٹوں میں ایک دوست کا لائک (شاباش) آ گیا۔ کسی نے کمنٹ کر دیا آپ خوشی سے جواب دیتے گئے، لائک پر لائک آتے گئے اور آپ اسی میں مگن رہے یہاں تک کہ گھنٹوں گزر گئے اور آپ خوشی میں اتنے مست رہے کہ آپ کو وقت گزرنے کا اندازہ ہی نہیں ہوا۔ ایک دن کے اس تجربہ نے اگلے دن آپ کو دوبارہ ایسی ہی کوئی پوسٹ کرنے کے لئے متحرک کیا۔ اور یوں روز روز فیس بک پر وقت گزارنا آپ کا دلپسند مشغلہ بن گیا۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہوتا ہے؟ اس سوال کا جواب آپ کے دماغ میں پیدا ہونے والے کچھ کیمیکلز اور جسم کی لاکھوں سال پرانی تاریخ میں چھپا ہوا ہے۔ جب ہم کچھ ایسے کام کرتے ہیں جن کو ہمارا دماغ فائدہ مند سمجھتا ہے تو اس کے نتیجے میں دماغ میں کچھ کیمیکلز پیدا ہوتے ہیں۔ یہ کیمیکل ہمارے اندر خوشی کا احساس پیدا کرتے ہیں۔ اور یہ خوشی ہمارے دماغ کو پابند کرتی ہے کہ آئندہ بھی اسی کام کو دوبارہ کیا جائے تاکہ دوبارہ یہ کیمیکل پیدا ہوں اور دوبارہ خوشی کا احساس ہو۔ مثال کے طور پر لاکھوں سال پہلے جب انسان جنگل میں رہتے تھے، تو فرض کریں کہ دو بچے آپس میں کھیل رہے تھے۔ کھیلتے ہوئے وہ جنگل میں درختوں پر چڑھ رہے تھے۔ ایسے میں اچانک ایک کو درخت پر گھونسلے میں کچھ انڈے نظر آئے۔ ان انڈوں سے ان بچوں نے اپنی بھوک مٹائی۔ اب بھوک مٹنے کا یہ احساس دماغ میں ایک کیمیکل ڈوپامین پیدا کرتا ہے۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ کیمیکل پیدا ہونے سے بالکل پہلے بچہ جو کام کر رہا تھا اس کی یاد پکی ہو جاتی ہے۔ اور آئندہ وہ بچہ اس راستے اور درخت پر چڑھنے کے طریقے کو اچھی طرح ذہن نشین کر لیتا ہے تاکہ دوبارہ انڈے حاصل کیے جا سکیں۔ اسی طرح اگر وہ بچہ انڈے خود کھانے کے بجائے اکٹھے کر کے گھر والوں کو لا کر دیتا ہے اور گھر والوں سے شاباش وصول کرتا ہے تو ایسے میں اس کے دماغ میں ایک کیمیکل سیرو ٹونن پیدا ہوتا ہے جو بچے کے ذہن میں اہمیت کا احساس پیدا کرتا ہے۔ اسی طرح محبت میں مبتلا ہونے پر ایک کیمیکل آکسی ٹوسن پیدا ہوتا ہے جو تعلق کو مضبوط بناتا ہے۔
ماما، پاپا جیسے الفاظ بولنے سے لے کر اولمپکس میں گولڈ میڈل جیتنے تک ہم جو بھی کچھ اس دنیا میں سیکھتے یا کرتے ہیں وہ انہی کیمیکلز کی وجہ سے ممکن ہوتا ہے۔ اگر یہ کیمیکل ٹھیک طرح سے کام نہ کر رہے ہوں تو آپ کی یاد داشت بھی کام نہیں کرے گی۔ حیران کن طور پر کئی طرح کی منشیات دماغ میں بالکل ویسے ری ایکٹ کرتی ہیں جیسے یہ کیمیکل کرتے ہیں اور ان کے نتیجے میں دماغ میں بالکل اسی طرح خوشی کے جھوٹے جذبات پیدا ہوتے ہیں۔ فیس بک پر پوسٹس کے لائک، کمنٹ، ڈسکشن میں جیتنے کا احساس اور اسی طرح ویڈیو گیمز میں دشمن پر فتح حاصل کرنے اور زیادہ سکور بنانے پر بھی تھوڑی تھوڑی مقدار میں یہ کیمیکلز پیدا ہوتے ہیں جس کی وجہ سے منشیات کی طرح ہمیں فیس بک اور گیمز کی ایڈکشن ہو جاتی ہے۔ اگر کچھ دیر کے لئے آپ موبائل رکھ دیں تو دماغ بار بار اکساتا ہے کہ وہی کام کیا جائے جس سے یہ کیمیکل پیدا ہو رہے تھے۔ اس کو دماغ کا ریوارڈ سسٹم کہا جاتا ہے۔ اسی سسٹم کی وجہ سے مداری بندروں کو اور انگریز کتوں کو کرتب سکھاتے ہیں اور سائنسدان چوہوں کو بھول بھلیاں سے راستہ ڈھونڈنا، کبوتروں کو ٹیبل ٹینس کھیلنا اور چمپانزی کو جمع تفریق کرنا!
مزے کی بات یہ ہے کہ دماغ کے اس سسٹم کو آپ اپنے فائدے کے لئے کسی حد تک ”ہیک“ بھی کر سکتے ہیں۔ مثلا جب ٹیسٹ میں آپ کے اچھے نمبر آتے ہیں تو بھی یہی کیمیکلز پیدا ہوتے ہیں جو آپ کو زیادہ سے زیادہ محنت کرنے پر اکساتے ہیں۔ اسی طرح فیس بک پر کوئی چھوٹی موٹی پوسٹ کرنے کے بجائے اگر آپ کوئی نسبتاً زیادہ معلوماتی یا فکر انگیز پوسٹ کرنا شروع کر دیں توکچھ ہی وقت میں یہی سسٹم آپ کو نئے سے نئے اور زیادہ معلوماتی مواد کو ڈھونڈنے اور شیئر کرنے پر مجبور کر دے گا۔ میں نے آج سے دس سال پہلے یہ سلسلہ شروع کیا تھا اور اب مجھے اس کی اتنی عادت ہو گئی ہے کہ اس کے علاوہ مجھے کچھ سوجھتا ہی نہیں۔ اسی چکر میں میں نے اپنی ویب سائٹ اور یو ٹیوب چینل بھی بنا ڈالے تاکہ زیادہ سے زیادہ لائکس اور ویوز حاصل کیے جا سکیں۔ اپریل اور مئی کے مہینوں میں میری ویب سائٹ پر 70،000 سے زائد طلبا وزٹ کرتے ہیں اور میرے کئی لیکچرز دس دس ہزار دفعہ دیکھے جا چکے ہیں۔ ایسا کرنے سے میرے برین کا ریوارڈ سسٹم بھی خوش رہتا ہے اور بہت سے طلبا کا فائدہ بھی ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ امتحانات سے قبل اپریل مئی کے مہینوں میں تقریبا روز میری صبح کا آغاذ واٹس ایپ پر سٹوڈنٹس کی طرف سے بھیجے گئے شکرانے اور دعائیہ میسجز سے ہوتا ہے۔