جذبات کی دنیا میں سب سے آسان مگر دیرپا سودا غریب اور محروم کی وفاداری ہے، کچھ افلاس کے مارے ہوئے، کچھ جذباتی محرومیوں کے ستائے ہوئے،ہر طرح کی غربت عام ہے معاشی ہو، علمی، ذہنی یا جزباتی، یہ لوگ کبھی روٹی کے چند ٹکڑوں،کچھ رقم، چند خودساختہ افکار، زرا سی مصنوعی اپنائیت،نام نہاد عزت،توجہ، اور برابری کے نام پہ جان تک قربان کر سکتے ہیں،اور اس تھوڑی سی سرمایہ کاری سے کمانے والے” کثیر منافع ” کماتے ہیں ،انکے پاس انکی واحد متاع وفاداری ہوتی ہے جس کو یہ عمر بھر بیچتے ہیں غلامی کے عوض، کبھی اس چوکھٹ کبھی اس در، کیونکہ یہ غلام ابن غلام کسی آقا کے بنا پنپنے کے تصورسے ہی کانپتے ہیں. یہ غلامی پیسے تک محدود نہیں، کچھ ان میں ایسے بھی ہیں جو  علمی، ذہنی، جذباتی غلامی کے بنے بنائے شاہکار ہیں، جن کے سر سوائے جھکنے کے اور کچھ نہیں جانتے، ان  کے آقا ان پہ جی بھر کر ہنسا کرتے ہیں، کیونکہ یہ اسی استحصال کے قابل ہیں، یہ “غلام “لازم ہیں،،آقاؤں کی تخلیق کو جواز فراہم کرنے کے لیے،اور “غلام” ان باتوں سے بے خبر ہاتھ باندھے سر جھکائے اپنے اپنے آقاؤں کے اشارے کے منتظر ہیں ہمیشہ کی طرح، اگر تمثیل کو سچ مان لیا جائے تو انسانوں میں بھی کچھ شیر مانند ہیں، اور کچھ۔۔۔۔۔سر اٹھا کے جینے کی ہمیشہ ایک قیمت ہوتی ہے،جس کی ادائیگی کا متحمل ہر ایک نہیں ہو سکتا۔

پہلا ورق

طاہرہ حسین