یاد رکھیں دوائیں مختلف کیمیکل کمپاونڈز ہوتے ہیں زیادہ تر نامیاتی مگر غیر نامیاتی بھی ہوتے ہیں۔ ان ادویات میں دوسرے کیمیکلز بھی شامل ہوتے ہیں جیسے بائنڈرز جو گولیوں کو جوڑ کر رکھتے ہیں ڈائیز یعنی رنگ کوٹنگز جو مختلف مقاصد کے لیے استعمال ہوتی ہیں جیسے کچھ ادویات معدے میں حل نہیں ہوتیں آنتوں میں جا کر حل ہوتی ہیں انٹیریک کوٹنگ کی وجہ سے۔ اب اصل دوا/ڈرگ/کمپاونڈ جو کہ بیماری کے خلاف اپنا کام دکھاتی ہے اس کے علاوہ استعمال ہونے والے تمام کیمیکلز ایکسیپیئنٹ کہلاتے ہیں اور یہ عموما جسم میں کسی اثر بغیر باہر خارج ہو جاتے ہیں۔ جبکہ موثر کمپاونڈز یا ایکٹو انگریڈیئنٹ یا ڈرگ یا دوا جیسے پیناڈول میں اسیٹومینافین/پراسیٹامول یا ڈسپرین میں موجود اسپرین وغیرہ کی ایک سٹیبیلیٹی یا استحکام کا عرصہ ہوتا ہے جس کے بعد اس کے بانڈز ٹوٹ کر یہ کسی اور ساخت یا کمپاونڈ میں تبدیل ہو جاتے ہیں۔

یہ استحکام بہت سی چیزوں پر منحصر ہوتا ہے۔ جیسے درجہ حرارت، ہیومیڈیٹی، پیکنگ وغیرہ۔ فارماسیوٹیکل آر اینڈ ڈی میں ہم ادویات کو نارمل اور سخت حالات دونوں میں رکھ کر چیک کرتے ہیں کچھ لچھ عرصے بعد کہ آیا ایکٹو کمپاونڈ یا ڈرگ کی مقدار ضروری مقدار کے برابر ہی ہے یا اس سے کم ہے۔ اب ہوتا یہ ہے کہ کچھ ڈرگز ٹوٹ کر صرف غیر موثر ہو جاتی ہیں جبکہ کچھ ٹوٹ کر مضر یا زہریلے کمپاونڈز میں تبدیل ہو جاتی ہیں۔

اب جو ادویات صرف غیر موثر ہوتی ہیں ان میں اوپر بیان کیے گئے تجربات سے ایک ایسے محفوظ وقت کا تعین کیا جاتا ہے جب تک دوا میں پیک کے اوپر لکھی گئی مقدار موجود رہتی ہے۔ جیسا کہ دو سال یا پانچ سال۔ اچھی یا بین الاقوامی کمپنیوں کی ادویات کی سٹیبیلیٹی زیادہ عرصے تک قائم رہتی ہے۔ لوکل کمپنیز کی ادویات پر چونکہ کم ریسرچ ہوتی ہے اور وہ سستی بھی ہوتی ہیں تو کم وقت ہوتا ہے۔

اب کیا دوا ایکسپائری ڈیٹ کے بعد استعمال کرنا درست ہے؟

ایسا نہیں ہوتا کہ دوا اگلے دن ہی غیر موثر ہو جائے یا کوئی سوئچ لگا ہے۔ مگر جو محفوظ وقت دوا کے اوپر لکھا ہوتا ہے وہ پیکنگ سمیت عمومی روم ٹمپریچر کے حساب سے دوا کی سٹیبیلیٹی کا وقت ہوتا ہے۔ اس میں پہلے سے سب مارجن شامل ہوتے ہیں۔ آپ ایک دو ہفتے بعد یا ایک دو ماہ تک بھی وہ دوا استعمال تو کر سکتے ہیں مگر اس کے دو نقصانات یا رسک ہیں۔

۱۔ ڈرگ کی جو مقدار آپ کو چاہیے یا جو معالج نے آپ کے جسم کے استعمال کے لیے بتائی ہے آپ کو اس سے کم مقدار کی دوا سے حاصل ہو گی جس کے باعث آپ کی بیماری طول پکڑ سکتی ہے۔ اینٹی بائیوٹکس کی صورت میں کم مقدار بیکٹیریا فنگس وغیرہ کو مارنے کے بجائے ریزسٹنٹ یا مزید طاقتور بنا سکتی ہے۔

۲۔ اگر کوئی دوا زہریلے کمپاونڈز میں تبدیل ہوتی ہے تو وہ کوئی اور نقصان بھی پہنچا سکتی ہے۔ جس کا آپ کو علم نہیں ہو سکتا۔

نتیجہ: ہر ماہ اپنا دواوں کا کیبینیٹ چیک کریں اور وہ ادویات جو جلدی ایکسپائر ہونے والی ہیں یا ہو چکی ہیں ان کو پھینک دیں۔ بچت کے چکر میں اپنی جان کو داو پر مت لگائیں۔ سر درد وغیرہ کی صورت میں قریبی فارمیسی یا کسی بھی دکان سے فورا دوا خریدی جا سکتی ہے۔ دیگر ایمرجنسیز میں ہسپتال جائیں خود معالج نہ بنیں۔ اگر کوئی جان بچانے والی دوا ہے جیسے نائٹروگلیسرین وغیرہ تو آپ اور آپ کے گھر والوں پر زیادہ ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ ایسی ادویات ہمیشہ چیک کر کے فریش رکھیں۔

ایکسپائر دوا قطعی طور پر استعمال نہ کریں۔ ایک آدھ دن ہفتے سے فرق نہیں پڑتا مگر یہ رسک لینے کی کوئی ضرورت بھی نہیں۔ کیا پتا آپ کے گھر کا ٹمپریچر، روشنی اور نمی وغیرہ اس دوا کو پہلے سے ڈی کمپوز کر چکے ہوں۔ بلکہ ایکسپائر ہونے والی ادویات کو ایک دو ماہ پہلے ہی پراپر طریقے سے تلف کر دیں۔

یہاں یہ بات بھی یاد رکھیں کہ ادویات کو پانی میں مت بہائیں یا پھینکیں بلکہ کچرے میں پھینیکیں۔ ورنہ یہ آبی حیات، مال مویشی، حتی کہ انسانوں کے لیے بھی ڈائریکٹ یا کاشتکاری کے ذریعے سبزیوں پھلوں کے ذریعے آپ کو نقصان پہنچا سکتی ہیں۔

اپنی صحت اور جان کو بچت سے آگے جانیں!

Dr. Akif Khan

ڈاکٹر عاکف خان کیمسٹری میں پی ایچ ڈی ہیں اور چودہ سال سے انڈسٹری اور اکیڈیمیا سے وابستہ ہیں۔ ان کی ریسرچ میڈیکل ڈائگناسٹک، کینسر، ماحول اور انرجی ایپلیکشنز کے لیے نینومیٹیریلز بنانے پر ہے جن پر پچاس کے قریب ریسرچ مقالے چھاپ چکے ہیں۔ آپ ان سے اس سی میل ایڈریس پر رابطہ کر سکتے ہیں: [email protected]