پہلی قسط یہاں پڑھیں

دوسری قسط یہاں پڑھیں

پچھلی اقساط میں بات ہو چکی کہ کیسے ایک شرمیلی فطرت اور کم گو طبعیت  کے ساتھ میری ابتداء ہوئی اور دو واقعات نے  کس طرح میرا اپنے بارے میں یہ خیال کہ ‘میں مجھے پڑھانا نہیں پسند  یا میں ٹھیک سے نہیں پڑھا سکوں گا ‘  کیسے بدلا۔

خیر بی ایس سی کے بعد ایم فل میں داخلہ لیا اور اس میں تحقیقی مصروفیات  نے باقی کسی  اور کام کےلئے  وقت ہی نہیں چھوڑا کہ میری واحد ترجیح وقت پہ اپنی ڈگری مکمل کرنا تھی۔ لیکن پی ایچ ڈی میں مجھے اپنی سوپروائزر کے ساتھ بطور ٹیچینگ اسسٹنٹ کام کرنا تھا اپنی سکالرشپ  کی شرائط کے تحت۔  اس میں مجھے سال میں تین چار لیکچر دینے پڑ جاتے  لیکن زیادہ تر کام اپنے جونئر ز کے امتحان وغیرہ  لینا  اور پرچے چیک کرنا ہوتا تھا۔  ابھی تک بھی میں مکمل طور پہ اس بات کے لئے قائل نہیں تھا کہ مستقبل میں تحقیق کی بجائے درس وتدریس  کو زیادہ ترجیح دی جائے۔

پی ایچ ڈی کے دوران مجھے کچھ ایسے اساتذہ سے پڑھنے کا موقع ملا کہ جن کا پڑھانے کا انداز میرے لئے کافی متاثر کن تھا۔  کوئی لیکچر بہت اچھا بناتا تھا ، تو کوئی لیکچر کے دوران ایسا دلچسپ انداز اپناتا کے ایک لمحے کو بھی اکتاہٹ نا محسوس ہوتی، کسی کی اسائنمنٹس اچھی ہوتیں، اور کوئی امتحان ایسا بناتا کہ پرچہ دیتے ہوئے واقعۃ مزا آجاتا۔  اسی دوران مجھے کسی نوکری کا ٹیسٹ دینا تھا تو اس کے لئے ایک مضمون کی تیاری کی غرض سے میں یوٹیوب پہ ویڈیو لیکچرز ڈھونڈ رہا تھا کہ مجھے مشہورِ زمانہ امریکی یونیورسیٹی ایم آئی ٹی  کے پورے  کے پورے ریکارڈ شدہ لیکچرز مل گئے۔ مجھے جس مضمون کی تیاری کرنا تھی اس کو پڑھانے والے پروفیسر کا نام ایرک لینڈر تھا اور جس انداز میں وہ موصوف اپنی کلاس کو پڑھا رہے تھے کہ سمجھیں میرا تو  دل ہی آگیا اور نا صرف شعوری بلکہ  لاشعوری دونوں اعتبار سےہی  میں نے اپنی پریزنٹیشنز اور لیکچرز میں اس کی کاپی کرنا شروع کردی بلکہ اپنے سارے ساتھیوں  کو بھی اس بارے میں ایک طرح سے تو تبلیغ ہی کرنا شروع کردی۔

آپ بھی سوچ رہے ہوں گے کہ ایسا بھی کیا تھا ان پروفیسر صاحب کے لیکچر میں؟ لیکچر ان کا ویسا ہی تھا جیسا کوئی بھی استاد جو اپنے شعبہ میں  مناسب مہارت رکھتا ہو، لیکن اصل بات لیکچر کا کانٹینٹ نہیں بلکہ لیکچر دینے کا انداز تھا کہ جس میں استاد  کسی اونچی مسند  متمکن ہو کر  وعظ دینے کی بجائے طلباء کے ساتھ برابر ی کی سطح پہ گفتگو  کررہا  ہو۔ اپنے برابر کے  طلباء کو کچھ بتانے کی بجائے ان کو سوالوں کی مدد سے سوچنے پہ مجبور کردے کہ وہ خود اپنی ذہنی صلاحیتوں کا استعمال کرتے ہوئے اس نتیجے تک پہنچ جائیں جہاں ان کو لانا مقصود ہو۔   یہ سوالات محض رٹے والے ہرگز نہیں تھے کہ اس چیز کا کیا مطلب ہے یا فلاں چیز کی کیا تعریف کتاب میں  لکھی ہوئی ہے، یہ یاداشت کے تو سوال ہو سکتے ہیں لیکن  کسی طالبِ علم کے ذہن کو سوچنے پہ مجبور کرنے والے نہیں۔  نیچے دیئے گئے  لنک پہ آپ ایرک لینڈر کے لیکچر کی ویڈیو دیکھ سکتے ہیں :

Agarose Gel Electrophoresis, DNA Sequencing, PCR, Excerpt 2 | MIT 7.01SC Fundamentals of Biology

خیر خدا خدا کر کے پی ایچ ڈی ختم ہوئی اور نوکری کا مرحلہ درپیش آیا ۔ ہائر ایجوکیشن کمیشن (ایچ ای سی)  کا ایک پروگرام ہےآئی پی ایف پی  جس میں کسی بھی پی ایچ ڈی کرنے والے کو ایک سال کے لئے کسی یونیورسیٹی میں تعینات کیا جاتا ہے  اور اس کی تنخواہ بھی ایچ ای سی کی طرف سے دی جاتی ہے ۔ اس پروگرام کا مقصد اپنے اپنے شعبہ میں مہارت  رکھنے والے محققین کو  جلد از جلد یونیورسٹیوں میں درس و تدریس سے منسلک کردیا جائے بجائے کہ وہ یونیورسٹی کی جانب سے نوکری کے اشتہار    کا انتظار کرتے رہیں۔ 2020 میں ایچ ای سی نے اس پروگرام میں کچھ بنیادی تبدیلیاں کیں اور آئی پی ایف پی کے تمام تر درخواست گزاروں کے لئے  ایک مہینے کی ٹریننگ  بین الاقوامی ماہرین کے زیرِ نگرانی  لازمی کردی۔ چار ہفتوں پہ مشتمل اس ٹریننگ میں جہاں تدریس کے جدید رموز و اوقاف کے بارے میں ہمیں سکھایا گیا وہیں اور بھی بہت ساری  بنیادی باتوں  جیسےٹائم مینجمنٹ،  گھر اور دفتر کے درمیان توازن، آرگینائزیشن وغیرہ  جنھیں عموماً نظر انداز کردیا جاتا ہے  کے حوالے سے بھی پروفیشنل طرزِ عمل کے بارے میں بتلایا گیا۔  سب سے مزیدار بات تو یہ تھی کہ اس ٹریننگ کو کرنے کے لئے نا صرف یہ کہ کوئی فیس نہیں تھی بلکہ سونے پہ سہاگہ اس ٹریننگ کے تمام شرکاء کو نہایت مناسب معاوضہ بھی دیا گیا۔   یہ آن لائین  ٹریننگ  اس قدر سخت تھی کہ ہم تمام شرکاء صبح آٹھ بجے سے جو اس میں شریک ہوتے  تو رات گیارہ بارہ سے پہلے کبھی فارغ نا ہوپاتے۔

اس ٹریننگ کے دوران میرا تعارف سکالرشپ آف ٹیچنگ اینڈ لرننگ  اور ایکشن ریسرچ جیسے تصورات سے ہوا۔ ایکشن ریسرچ  کسی بھی کام کے دوران اس میں بہتری لانے کے لیے کی گئی تحقیق کو کہتے ہیں، یعنی آپ جو بھی کام کررہے ہیں اس کوکس طرح  زیادہ موثر اور مفید بنایا جا سکتا ہے ۔ اس طرز عمل کو عموماً یہ سوشل سائنسز اور تدریس میں استعمال کیا جاتا ہے۔  اس کے مقابلے میں سکالرشپ آف ٹیچنگ اینڈ لرننگ   درحقیقت اساتذہ کے طرز عمل ان کے برتاو اور طرز تدریس کو جانچنے کا نام ہے کہ جس میں ایک منظم طریقہ کار کو اختیار کرتے ہوئے دیکھا جاتا ہے کہ کس طرح طلباء کے لئے آسانی پیدا کی جاسکے۔  اسی طرح پروجیکٹ بیسڈ لرننگ  بھی میرے لئے ایک نیا  تصور تھا، اس میں طلباء کو محض کتابی عنوانات رٹوانے کی بجائے انھیں چھوٹے چھوٹے پروجیکٹ کروائے جاتے ہیں کہ وہ کتاب میں دی گئی معلومات کو خود اپنے ہاتھوں سے کر کے سیکھ سکیں۔ یہ پروجیکٹس عموماً لیب میں پریکٹیکل ہی کی طرح ہوتے ہیں لیکن ان میں طلباء کوزیادہ آزادی دی جاتی ہے کہ یہ کام کرنا ہے خود طریقہ ڈھونڈ کر جیسے چاہو کرو۔ اس کے علاوہ مضمون کی ضروریات اور وسائل کی دستیابی کو مدنظر رکھتے ہوئے فیلڈ ویزٹ وغیرہ بھی کروائے جاسکتے ہیں۔

اس ٹریننگ میں اتفاق سے کارکردگی کچھ اچھی  ہوگئی تو اگلے دو بیچوں کے لئے  مجھ سمیت آٹھ دیگر شرکاء کو بھی ان بین الاقوامی ماہرین کے ساتھ پانچویں سوار کی مانند بطور ‘چھوٹے’ شامل کرلیا گیا۔ ہم سب کے لئے یہ ایک بالکل نیا تجربہ تھا ۔ ان ماہریں کے ساتھ کام کرتے ہوئے بہت ساری ایسی چیزیں سیکھنے کو ملیں کہ جن کا ہماری یونیورسٹیوں میں  خیال تک نہیں رکھا جاتا ہے۔  مثال کے طورپہ ایک واقعہ ذکر کرنا چاہوں گا کہ  ٹریننگ کے دوران تقریباً روزانہ ہی اسائنمنٹ دی جاتی تھی۔ تو ٹریننگ کےایک  شریک ان اسائنمنٹ میں نقل کرتے ہوئے پائے گئے، اب ہمارے ہاں اس بارے میں جو عمومی رویہ ہوتا ہے وہ یا تو اس نقل شدہ اسائنمنٹ میں صفر نمبر دے دیئے جاتے ہیں یا پھر سرے سے اس کا نوٹس ہی نہیں لیا جا تاہے اور صرفِ نظر کردیا جاتا ہے۔  لیکن میرے لئے یہ حیرت کا مقام تھا کہ وہ ماہر جن کے ساتھ میں منسلک تھا وہ اس بات پہ پریشان تھیں کہ یہ شخص کیوں نقل کررہا ہے کہیں میرے پڑھانے میں کوئی ایسی بات  ہے یا کوئی مسئلہ  ہے جو یہ صحیح سے کام نہیں کرپا رہا  ہے۔

اس ٹریننگ کے بعد آئی پی ایف پی کے تحت مجھے ایک یونیورسٹی میں تعینات کردیا گیا۔  اس ایک سال کے دوران مجھے موقعہ ملا کہ میں اس ٹریننگ میں سیکھی گئی چیزیں اپنے کلاس روم میں اپلائی کر کے اپنے طلباء پر ان کے نتائج جانچ سکوں۔ اسی حوالے سے ایک مزیدار قصہ بھی سن لیجیئے  یہ کرونا کے دنوں کی بات ہے جب کلاسیں آن لائین ہوگئی تھیں تو اس دوران سیمسٹر کے مڈٹرم امتحان آگئےاب میرے اس مضمون میں کوئی 37-38  پی ایچ ڈی کے طلباء تھے جو سب کے سب اس بات پہ اصرار کر رہے تھے کہ میں مڈٹرم امتحان  کے لئے ان کا پرچہ آن لائین لے لوں اور میں ان کو اس بات پہ قائل کرنا چاہ رہا تھا کہ وہ سب یونیورسٹی آکر ہی پرچہ دیں گے۔ ان مذاکرات کے دوران میں نے اپنی کلاس کو یہ آفر دی کہ وہ یا تو یونیورسٹی آکر  پرچہ دیں یا پھر میں ان کو کوئی اسائنمنٹ دیدیتا ہوں ۔ اس آفر پہ تو تمام کلاس نے با الاجماع اسائنمنٹ کو قبول کرلیا۔ اپنی ٹریننگ کو بروکار لاتے ہوئے اس اسائنمنٹ کی تیاری کے لئے میں نے بطور استاد کوئی دس گیارہ دن لگائے اور اس کو کرنے کے لئے کلاس کو ایک مہینے کی مہلت دیدی۔  ہماری یونیورسٹیوں میں عام طور پہ اسائنمنٹ ایسے دی جاتی ہے کہ فلاں عنوان پہ نوٹ لکھ دیں، یا ان سوالات کے جوابات دیدیں وغیرہ وغیرہ۔  ان اسائنمنٹس کے ساتھ نا تو کوئی ہدایات ہوتی ہیں کہ کام کیسے کرنا  ہے، اس اسائنمنٹ میں کیا کچھ ہونا چاہیئے، اور طلباء کے جواب کو استاد کس بنیاد پہ چیک کرے گا اور نمبر کس بنیاد پہ دے گا۔  خیر جب میرے سٹوڈنٹس کو یہ اسائنمنٹ ملی تو ان کے ہاتھوں طوطے ایک بار تو ضرور  اڑے تھے کہ پوری یونیورسٹی میں وہ جس سے بھی میری شکایت لگا سکتے تھے انھوں نے لگائی کہ یہ کیسی اسائنمنٹ دیدی ہے لیکن کرنا تو پڑی ہی ان کو۔

خیر یہ تو مزاح کی بات تھی لیکن اس پہلےتدریسی  تجربہ میں، میں نے جو جو چیزیں اپنے اساتذہ ، یوٹیوب یا پھر اس ٹریننگ سے سیکھیں ان سب سے بھرپور استفادہ کیا۔ ایک قصہ اس حوالے سے بیان کرنا چاہوں گا کہ کس طرح میں نے اس دوران اپنے پڑھانے کے انداز کو بہتر سے بہتر بنانے کی کوشش کی۔ مجھے جو سب سے پہلا مضمون پڑھانے کو ملا وہ ادویہ سازی کی تحقیقی تکنیکوں پہ مشتمل تھا۔ خیر پہلا کام تو میں نے یہ کیا کہ سب سے پہلے اس کے مضوعات میں نئی تکنیکوں کا اضافہ کروایا اورحتی الوسع اس کو جدید کرنے کی کوشش کی۔  اوپر جس اسائنمنٹ کا ذکر آیا وہ سب سے پہلے میں نے اسی کلاس کوبطور پروجیکٹ کروائی تھی اور اس کا طریقہ کار یہ تھا کہ میں نے ایک تحقیقی مقالہ اپنے طلباء کو دیا کہ اس کو پڑھیں اور اگلی کلاس میں اس پورے مقالے کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا۔ چھوٹی سے چھوٹی بات بھی سمجھائی اور ان کے سوالوں کے جوابات بھی دیئے۔ ایک بار مجھے احساس ہوگیا کہ وہ اب اس طریقہ کار کو اچھی طرح سمجھ چکے ہیں تو پھر ان سب کو ایک ایک پروٹین دیدیا گیا کہ وہ اس کے بارے میں مکمل معلومات ڈھونڈیں اور پروجیکٹ کی ڈیڈلائین تک اپنے نتائج جمع کروائیں۔  ان سب طلباء نے دیا گیا کام کیا اور اچھے طریقے سے کیا لیکن مجھے یوں محسوس ہوا کہ شائد انھوں نے اس طریقہ کار کو تو سمجھ لیا ہے لیکن انھیں اس کام کو کرنے کی منطق شائد صحیح سے سمجھ نہیں آئی ہے۔ خیر اگلے سیمسٹر میں یہی مضمون ایک بار پھر میرے سامنے تھا اور یہی اسائنمنٹ بھی۔  اس دوران مجھے ایچ ای سی کی ایک اور لیکن مختصر سی ٹریننگ  کرنے کا موقع ملا جس میں درس و تدریس کے حوالے سے مزید نئی چیزیں اور تصورات جاننے کو ملیں۔ اس تریننگ کو مدنظر رکھتے ہوئے اب کی بار میں نے اسی اسائنمنٹ کو ایک نئے انداز سے کرنے  کا فیصلہ کیا۔ سب سے پہلے پچھلی دفعہ کی طرح میں نے طلباء کو پہلے والا مقالہ پڑھنے کو دیا اور پھر انھیں اچھی طرح سے سمجھا دیا کہ اس میں محقیقن نے اس میں کیا کام کیا ہے اور کیسے کیا ہے اور ساتھ ہی انھیں اس طریقہ کار کا خلاصہ لکھنے کو کہا جو انھوں نے لکھا۔ اگلے مرحلے میں  ایک اور تحقیقی مقالہ کے ساتھ بھی یہی طرز عمل اختیار کیا اور طلباء کو  دونوں مقالوں میں استعمال کی گئی حکمت عملی کا  تقابی جائزہ لینے کو  کہا، جو کہ انھوں نے کیا۔ تیسرے مرحلے پر طلباء کو کہا گیا کہ اب وہ دونوں حکمت عملیوں اور طرز عمل کو سامنے رکھتے ہوئے  اپنے جائزوں کی مدد سے  اپنے لئے ایک ایسی حکمت عملی وضع کریں جو ان کے خیال میں ان دونوں مقالوں سے بہتر ہو، جو کہ انھوں نے کی۔  اس تین ہفتے کے عمل کے دوران ان تمام طلباء کو نا صرف وہ مقالے بلکہ ان کے طرز عمل اور اس میں رہ جانے والی کمیوں کا بھی بخوبی اندازہ ہوگیا تھا۔ آخری مرحلے پہ انھیں پر ایک عدد پروٹین دیدیا  گیا جس کی انھوں نے مکمل معلومات  کافی محنت سے حاصل کی ۔  یہ در حقیقت ایکشن ریسرچ اور سکالرشپ آف ٹیچنگ اینڈ لرننگ کی ایک مثال ہے کہ جس میں بطور استاد میں نے اپنے طرز تدریس کو زیادہ موثر بنانے کی تگو دو کی تاکہ میرے طلباء زیادہ بہتر انداز میں سیکھ سکیں۔

بات بہت پھیل گئی چلیں اس کو سمیٹتے ہیں، ایک اچھے استاد میں کیا خصوصیات ہونی چاہیئں:

تدریس ایک سکل یا ہنر ہے جو کہ کسی بھی ہنر کی طرح سیکھا جاتا ہے۔ ہمارے ہاں اس کو جہاں پیغمبری پیشہ سمجھا جاتا ہے وہیں یہ تصور کرلیا گیا ہے کہ استاد ی  کوئی عطیہ خداوندی ہے  جو الہامی طور پہ  کسی استاد پہ نازل ہوتا ہے۔ ہرگز نہیں اگر ایسا ہوتا تو میں کبھی بھی استاد نا ہوتا۔ کسی بھی نئے استاد کو مدد حاصل کرنے میں زرا سی بھی ججھک کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیئے۔ چاہے وہ کسی سینئر سے حاصل کی جائے یا انٹرنیٹ سے یا پھر ایچ ای سی کی طرح کے کسی ادارے سے۔  اوپر ذکر کی گئی تمام تر ٹریننگز اور مشاہدوں کے باوجود بھی ایک موقع ایسا آیا جب میں نے اپنی پی ایچ ڈی کی سوپروائزر سے مدد مانگی  کیونکہ مجھے مسئلہ ہو رہا تھا اپنے تحقیق کے شاگردوں  کو سکھانے میں، اور ان کے مشوروں کو بروئے کار لاتےہوئے ہی میں نے نہایت آسانی سے ان طلباء کو تحقیق  کروائی۔ آپ کو جہاں کوئی مسئلہ آئے مدد حاصل کرنے میں شرمانا  ناصرف آپ کا بلکہ آپ کے شاگردوں کے بھی نقصان  کا سبب بنتا ہے۔

اپنے لیکچرز کو دلچسپ اور انٹرایکٹو بنائیں۔  جتنا دلچسپ انداز آپ اختیار کر سکتے ہیں کوشش کریں کہ اس سے زیادہ کریں۔ یہ ہرگز آپ کے طلباء کی ذمہ داری نہیں  ہے کہ وہ پوری توجہ سے آپ کے بھاشن کو سنیں قطعی نہیں۔ بطور استاد یہ آپ کی ذمہ داری ہے کہ آپ ان کی ذہنی سطح پہ آئیں اور ان کی  ذہنی استعداد کے مطابق ان کی رہنمائی کریں۔  آپ سبھی نے اپنے تعلیمی سفر کے دوران ہر قسم کے استاد دیکھے ہونگے،  ان میں کچھ بہت اچھے ہونگے کچھ بہت برے  اور اکثر اوسط۔ اب یہ آپ کے ہاتھ میں ہے کہ آپ کے طلباء آپ کو کیسے یاد کرتے ہیں۔ جتنی محنت آپ اپنے لیکچرز پہ کریں گے اتنا فائدہ آپ کے طلباء کا ہوگا۔

سب سے اہم بات اپنے طلباء کے ساتھ مشفقانہ طرز عمل اپنائیں۔ بطور استاد آپ کا طرز عمل کسی بھی بچے کی زندگی کا رخ متعین کرنے کے قابل ہے۔ آپ کسی  کے لئے زندگی بھر کے لئے رول ماڈل یا پھر ایک ایسے شخص جس کی وہ شکل بھی نا دیکھنا چاہے بن سکتے ہیں  ۔ اگر کسی طالب علم کو اس بات کا احساس ہو کہ اس کا استاد اس  کے بارے میں فکر مند ہے اس کی بھلائی کا خواہاں ہے تو وہ بھی  اپنی تعلیم  میں زیادہ دلچسپی لے گا، اور اگر نا بھی لے تو بھی بطور استاد یہ ہماری ذمہ داری ہے کہ ہم ہر حال میں اپنے طلباء کے لئے اخلاص کا پیکر ہوں۔

طلباء کوئی خالی پیمانہ نہیں ہیں جس کو استاد  بحثیت صراحی بھر دے بلکہ ایک ایسا بھڑکتا پُر تجسس شعلہ  ہیں جن کو ہمیں اپنی کوشش اور محنت سے مزید بھڑکانا ہے  تاکہ کل کو وہ ایک روشن شمع بن سکیں۔

-ختم شد-

Dr. Muhammad Ibrahim Rashid Sherkoti

Hi, I am a Ph.D. in biotechnology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am interested in biotechnology, infectious diseases and entrepreneurship. You can contact me on my Twitter @MIR_Sherkoti.