بات یہ ہے کہ ہم سب اس وقت عام روٹین سے بہت زیادہ کوشش اور محنت کر رہے ہیں۔ لیکن ہم میں سے زیادہ تر لوگوں کی ساری محنت صرف وقت ٹپانے اور کام چلانے تک محدود ہے۔ کوئی بھی آج سے سال دو سال بعد کا نہیں سوچ رہا۔

کچھ عرصے (شاید مہینوں یا سال) میں ادارے کھل جائیں گے اور ہم میں سے اکثریت واپس اپنی روٹین والی کلاس پر آ جائیں گے۔ تب ہماری یہ ساری محنت کی ویلیو صفر ہو جائے گی جو ہم آج کر رہے ہیں۔ صرف اسلئے کہ ہم لانگ ٹرم میں نہیں سوچتے۔

دنیا کا پہلا بڑا آن لائن لرننگ پورٹل خان اکیڈمی کے نام سے دو ہزار آٹھ میں بنا۔ فوربز میگزین نے اس کو ایک ٹرلین ڈالر کا آئیڈیا قرار دیا۔ اس وقت دنیا کی تمام بڑی کمپنیاں بشمول گوگل اور فیس بک اس پورٹل پر زیادہ سے زیادہ معلومات اور دلچسپ انداز میں تعلیم کے لیے پیسہ لٹا رہے ہیں۔

خان اکیڈمی انتہائی مشہور ہوئی لیکن یہ پہلی سے بارہویں جماعت کے لیے ڈیڈیکیٹڈ ہے۔ یونیورسٹی سطح کی تعلیم کے لیے پہلی بڑی ویب سائٹ خان اکیڈمی سے انسپائر ہو کر دو ہزار بارہ میں کورسیرا کے نام سے لانچ ہوئی۔ آج نہ صرف دنیا کی تمام یونیورسٹیاں اس پر دنیا کے تمام مضامین اور متعدد زبانوں میں کورسز کرواتی ہیں بلکہ پاس ہونے والوں کو فیس کے عوض باقاعدہ سرٹیفیکیٹ جاری کرتی ہیں جن کو تمام بڑی یونیورسٹیاں اور گوگل وغیرہ جیسی بڑی کمپنیاں نوکری کے لیے قابل قبول بھی سمجھتی ہیں۔ یوں کورسیرا کی کل مالیت آج ایک ارب ڈالر سے زیادہ ہے (ہم پنجاب کی تمام یونیورسٹیوں پر اتنا خرچ نہیں کر پاتے)۔

پاکستان میں کالج سطح کی آن لائن تعلیم کا پہلا پورٹل مکتب ڈاٹ پی کے اور پھر سکول ایجوکیشن سے کا پہلا پورٹل سبق ڈاٹ پی کے بھی دو ہزار بارہ کے قریب شروع ہوئے۔ آج ان ویب سائٹس پر لاکھوں طلبا ماہانہ تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔ بعد میں سبق اور مکتب نے پنجاب حکومت کے ساتھ ای لرن پنجاب کا پلیٹ فارم لانچ کیا جس میں میرے لیکچر بھی شامل تھے۔ یہاں دیے گئے میرے کئی لکچر سالانہ ہزاروں دفعہ دیکھے جاتے ہیں اور کل ویوز لاکھوں میں ہیں۔

یوٹیوب پر طنز و مزاح کے ساتھ تعلیم و تعلم کا سب سے بڑا چینل شاید کریش کورس ہے۔ یہ بھی دو ہزار بارہ میں شروع ہوا۔ اس وقت اس چینل کے ایک کروڑ سے زیادہ سبسکرائبر ہیں اور اس پر تاریخ سے لے کر فلسفہ اور فلکیات جیسے موضوعات پر مکمل اور انتہائی دلچسپ کورسز دستیاب ہیں۔

پنجاب حکومت نے مجبور ہو کر اساتذہ کو آن لائن لیکچرز کا حکم دے دیا اور اساتذہ بھی دل و جان سے اپنے طلبا کے مستقبل کی حفاظت کی خاطر معمول سے کئی کئی گھنٹے زیادہ لگا کر لیکچر تیار کر رہے ہیں۔ سب کو حالات کی نزاکت اور مستقبل سے متعلق خدشات لاحق ہیں اسلئے سب ہی ایک قومی جذبہ اور احساس ذمہ داری کے تحت جان لڑا رہے ہیں۔ لیکن مجھے ڈر ہے کہ یہ محنت رائیگاں جائے گی۔ حکم دیا گیا کہ لیکچر زوم پر دیے جائیں تاکہ جس کے چار لیکچر ہیں وہ چار دفعہ ایک ہی بات نشر مقرر کر کے کھپے ضرور۔ جب کہ ہونا یہ چاہیئے تھا کہ وہ استاد محنت سے لیکچر ریکارڈ کرتا اور وہ ریکارڈنگ تمام طلبا کو دستیاب ہوتی۔ یوں توجہ بار بار لیکچر کے بجائے بہتر لیکچر پر مرکوز ہوتی۔ طلبا کو بہتر کوالٹی ملتی۔

پھر اساتذہ کو انفرادی طور پر طلبا کے گروپ اور ریکارڈڈ لیکچر بنانے کا کہا گیا۔ حالانکہ خان کیڈمی اور کورسیرا پلیٹ فارمز کی وجہ سے ب بہت سے مفت آن لائن لرننگ مینجمنٹ ٹولز دستیاب ہیں۔ اگر حکومت یا اداروں کی طرف سے ایک مرکزی ویب سائٹ بنا دی جاتی تو وہاں سب اساتذہ کے لیکچر جمع ہو جاتے، پنجاب کے طلبا بھی وہاں اکٹھے ہو کر ایک دوسرے کی مدد کرتے اور اساتذہ بھی۔ طلبا کو ایک استاد سے سمجھنے میں مشکل ہو تو وہ دوسرے سے وہی بات سن سکتا، لوگوں سے پوچھ سکتا۔ آن لائن ٹیسٹ لیے جاتے جن سے طلبا کے علم میں کمیوں کی نشاندہی ہوتی اور سسٹم خود ان کو متعلقہ لیکچر دوبارہ دیکھنے اور سیکھنے کا پابند بناتا۔ یہ سب سہولیات پہلے سے سسٹمز میں موجود ہیں، صرف استعمال کرنے کی نیت چاہیئے۔ اساتذہ کا کام بار بار لیکچر دوہرانے کے بجائے کمزور طلبا کی رہنمائی کرنا ہوتا۔

اگر حکومت اپنی تمام تر مشکلات کی وجہ سے توجہ نہ بھی دے تو ہمیں مل کر یا تعلیمی اداروں میں وسعت نظر رکھنے والے سربراہان کو میری اس تجویز پر غور کرنا چاہیئے۔ اس پر عمل کرنے سے ہمیں متعدد فائدے ہوں گے۔ طلبا کی حاضری اور پراگریس کی واضح رپورٹس دستیاب ہوں گی، اساتذہ کی توجہ بہتر لیکچر اور ٹیسٹ بنانے پر مرکوز ہو گی، کمزور طلبا پر توجہ دی جا سکے گی، اداروں کے پاس اگلے دس سال کے لیے بہترین ریسورس بن جائے گا، بچوں کو اکیڈمی کلچر سے ہمیشہ کے لیے نجات مل جائے گی۔ اگر ہم مل کر ایسا پلیٹ فارم بنا لیں تو حکومت پر زور دیا جا سکتا ہے کہ وہ اس ویب سائٹ تک رسائی مفت یا سبسڈی کے ذریعے سستی کر دے تاکہ غریب طلبا کا مسئلہ بھی حل ہو جائے۔ یوں تعلیم میں چند دنوں میں انقلاب آ سکتا ہے۔

ہم محنت کر رہے ہیں، لیکن صرف اس کا رخ درست کر کے اور اکٹھے ہو کر کام کرنے سے ہم دہائیوں تک اس محنت کا پھل کھا سکتے ہیں۔

ایسے پلیٹ فارم میں نے اپنی ویب سائٹس www.EasyLearningHome.com اور www.TaleemKahani.com پر بنائے ہوئے ہیں۔ ان ویب سائٹس سے ہزاروں طلبا اور اساتذہ ماہانہ فائدہ اٹھاتے ہیں۔ یہی کالجوں کی یا حکومت کی ویب سائٹ پر بنائے جا سکتے ہیں۔

 

Muhammad Bilal

I am assistant professor of biology at Govt. KRS College, Lahore. I did my BS in Zoology from University of the Punjab, Lahore and M.Phil in Virology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am Administrator at EasyLearningHome.com and CEO at TealTech