پہلی قسط یہاں پڑھیں
پچھلی قسط میں میں نے آپ کو یہ بتایا تھا کے کس طرح میں نے سوسائٹی کے راج سنگھاسن مطلب سیکرٹری جنرل کے عہدے پہ متمکن ہونے کی ناکام کوشش کی۔ اگرچہ منصوبہ اچھا تھا لیکن ایک غلطی سے سارا پلان ہی چوپٹ ہوگیا اور کافی سبکی اٹھانی پڑی۔ خیر اگلے برس ہم ہی نے سینئر بننا تھا اور اس وقت تک اس سوسائٹی کے سیکرٹری جنرل کا میں واحد امیدوار تھا۔ اب کی بار پچھلی غلطیوں سے سیکھتے ہوئے سوسائٹی کے سرپرست نے نئی کابینہ کے انٹرویوز پرانی کابینہ کی موجودگی میں ہی کرنے کا فیصلہ کیا تاکہ کسی اختلاف کی نوبت نا آئے اور پرانی صورتحال سے بچا جاسکے۔
سیکرٹری جنرل بننے کا مجھے اتنا یقین تھا کہ میں نے اگلے پورے ایک سال کے لئے مکمل لائحہ عمل تیار کر رکھا تھا، لیکن اب کی بار پھر ایک انہونی ہوئی اور مجھے کابینہ میں تو شامل کیا گیا لیکن سیکرٹری جنرل نہیں بنایا گیا۔ اس سلسلے تھوڑی ہچر مچر اور تردود کے بعد نامزدگیاں قبول کرلیں گئیں اور سوسائٹی نے اپنا کام شروع کردیا۔ پہلا کام تو جیسا کہ پہلے بھی ذکر ہوچکا، نئے طلباء کے لئے تعارفی سیمینار ہی تھا اب کی بار میں نے اس سیمینار کے انتظامی معاملات سیکرٹری جنرل پہ چھوڑ کو اپنی تمامتر توجہ پریزنٹیشنز اور ان کے کانٹنٹ پہ دی اور ایک کامیاب سیمینار کے مؤثر انعقاد کی ساتھ نئی کابینہ اپنے کام میں مشغول ہو گئی۔ اگرچہ میرے دل سے سیکرٹری جنرل نا بننے کا ملال گیا نہیں تھا لیکن انگریزی مقولے کے مطابق زندگی نے تو ہر حال میں آگے ہی بڑھنا ہوتا ہے۔ میں نے اپنا بنایا ہوا لائحہ عمل کابینہ کو پیش کیا جسے منظور کرلیا گیا اور میں اور سیکرٹری جنرل مل کر اس پہ عمل کرنے لگے۔ اسی اثناء میں یونیورسٹی کی سائنس سوسائٹی کی کابینہ نامزدگیوں کا مرحلہ آگیا اور میں
دل ناامید تو نہیں ناکام ہی تو ہے
کے مصداق وہاں انٹرویو دینے چلاگیا۔ خلافِ توقع مجھے یونیورسٹی کی سوسائٹی کا نائب صدر منتخب کرلیا گیا جو کہ بہرحال ڈیپارٹمنٹ کی سوسائٹی سے بہتر ہی تھا۔ اب میں دونوں سوسائٹیوں سے بیک وقت منسلک تھا۔ اس دوران ہم نے ڈیپارٹمنٹ میں سوسائٹی کی ایک اور اہم سالانہ سرگرمی یعنی سائنسی میلہ منعقد کیا جس میں ڈیپارٹمنٹ کے طلباء نے بھر پور شرکت کی اور اپنے مختلف پراجیکٹس پیش کئے اور ان کو انعامات دئیے گئے۔ اس میلے کے کچھ ہی وقت کے بعد یونیورسٹی کی سطح پہ بھی سائنس میلہ ہونا تھا جس میں ایک بار پھر بطور منتظم میں شامل تھا۔ اس بڑے میلے کے لئے جہاں ایک طرف کئی انتظامی معاملات میرے سپرد تھے مگر وہیں ڈیپارٹمنٹ کی ٹیم تیار کروا کر اسے اس میلے میں لیجانے کی ذمہ داری بھی مجھے ہی سونپی گئی۔ یہ میلہ چونکہ پوری یونیورسٹی کی سطح پر ہورہا تھا اس لئے اس میں نا صرف تمام ڈیپارٹمنٹس کے اساتذہ اور طلباء آیا کرتے تھے بلکہ عام لوگوں کے لئے بھی دعوت عام تھی۔ اس میلے کے دوران مجھے جب بھی موقع ملتا میں اپنے ڈیپارٹمنٹ کے سٹال پہ چلا جاتا اور وہاں آنے والے لوگوں کو طلباء سے ان کی تحقیق وغیرہ کے بارے میں معلومات لیتے اور سوال جواب کرتے دیکھتا رہتا۔ ان پراجیکٹس میں ایک پراجیکٹ میرا بھی تھا جسے میرے ساتھی پریزنٹ کر رہے تھے۔ وہ پروجیکٹ تھا جراثیمی کھاد کے بارے میں۔
زمین میں کچھ ایسے جراثیم پائے جاتے ہیں جو قدرتی طور پہ ہوا میں موجود نائٹروجن کو کھاد میں بدل دیتے ہیں۔ آپ نے ٹی وی پہ یوریا وغیرہ کے اشتہار دیکھے ہوں گے یہ نائٹروجن والی کھاد ہوتی ہے جو کہ فصل کی اچھی نشونما اور زیادہ پیداوار کے لئے ضروری درکار نائٹروجن فراہم کرتی ہے، ہماری فضا میں اندازاً ستر فیصد نائیٹروجن موجود ہے لیکن پودےاس نائیٹروجن گیس کو استعمال کرنے سے قاصر ہوتے ہیں جب تک وہ پانی میں حل پذیر حالت میں نا آجائے۔
اس پروجیکٹ میں ہم نے ایسے کچھ جراثیم کو ڈھونڈا اور ان کی مکمل شناخت کرنے کے بعد ان کی نائٹروجن گیس کو کھاد میں بدل دینے والی صلاحیت کو گندم کے پودوں کی نشونما کے تناظر میں دیکھا کہ اس کے کیا کیا ممکنہ اثرات ہوسکتے ہیں۔
اس میلے میں کئی سکولوں کی انتظامیہ بچوں کو بھی لائی ہوئی تھیں، جو اپنے قدرتی تجسس سے مجبور ہر پروجیکٹ اور ہر سٹال پہ زیادہ سے زیادہ جاننے کے کوشش کر رہے تھے۔ اب پانچویں چھٹی کلاس کے بچوں کو کھاد جراثیم کا کتنا علم ہوسکتا ہے اس کا آپ خود ہی اندازہ لگا سکتے ہیں۔ ایسی ہی ایک صورتحال میرے ساتھیوں کو بھی درپیش تھی کہ وہ ٹیکنیکل اصطلاحات سے باہر نکل کر اپنے پراجیکٹ کو سمجھانے سے قاصر تھے۔ اسی شش وپنج میں مجھے خیال آیا کہ ان دنوں ایک صابن کے اشتہارات کارٹونوں کی شکل میں آیا کرتے تھے جن میں کمانڈر صابن مختلف جراثیمی کرداروں سے لڑتا دکھایا جاتا تھا۔ چونکہ یہ کارٹون اردو میں ہوتے تھے اس لئے کافی زیادہ مقبول تھے اور ہر بچہ ہی اس کے بارے میں جانتا تھا۔ اس کارٹون میں جراثیم کا بادشاہ ڈرٹو نامی کردار تھا، میں نے بچوں سے پوچھا کے کس کس کو ڈرٹو کا پتہ ہے اور حسبِ توقع سب کو ہی معلوم تھا۔ یہ وہ نکتہ تھا جس سے میں نے ان بچوں کی ساری توجہ ایک جملے میں اپنی جانب مرکوز کرلی تھی۔ اگلی بات سمجھانا کہ سارے جراثیم ہمارے دشمن نہیں ہوتے چنداں مشکل نہیں تھی اور یوں پورا پراجیکٹ آسانی سے ان کو سمجھ میں آتا گیا اور وہ خوشی خوشی اگلے سٹال کی جانب بڑھتے چلے گئے اور میں کسی انتظام میں لگ گیا۔
اسی طرح سٹال کے اگلے چکر پہ یونیورسٹی کے قریب گاؤں کے کچھ کسان موجود تھے اب کی بار پھر وہی مسئلہ درپیش تھا لیکن اب ان کو نا تو ڈرٹو کا علم تھا اور نا ہی کمانڈر صابن کا۔ لہذا ایک بار پھر میرے ساتھیوں کو مشکل ہو رہی تھی۔ اب کی بار مجھے یاد آیا کہ زرعی بائیوٹیکنالوجی میں پڑھایا گیا ایک ٹاپک کروپ روٹیشن یاد آگیا۔ عموماً کسی کھیت میں لمبے عرصے تک مسلسل ایک ہی فصل اگانے سے اس کھیت کی زرخیزی اور پیداوار میں کمی آجاتی ہے۔ یہ کوئی نئی دریافت نہیں ہے بلکہ ہزار ہا برسوں سے دنیا بھر کے کاشتکار اس کا سامنا کرتے آئے ہیں۔ اس کے باعث ہر بار کسان کو زیادہ سے زیادہ کھاد ڈالنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ پرانے زمانے میں جب کہ مصنوعی کھادیں دستیاب نہیں ہوتی تھی، تو اس پیداور میں کمی کا یہ حل کسانوں نے نکالا کہ وہ ایک فصل لگانے کے بعد کوئی مختلف فصل اس کھیت میں لگا لیتے عموماً یہ دوسری فصل مٹر اور اس کے خاندان میں سے ہوتی تھی۔ اس عمل کو کراپ روٹیشن کہتے ہیں یعنی فصلوں میں ادلابدلی اور ان کو آگے پیچھے روٹیٹ کرنا۔ اب سوال تو یہ پیدا ہونا چاہئیے کہ اس کی کیا وجہ ہے کہ خاص مٹر جیسی فصلیں کیوں لگائی جاتی ہیں؟ تو جناب اگر آپ نے کبھی گھر میں مٹر بویا ہو یا کہیں اس کے پودے لگے دیکھیں ہوں تو ان میں باہر ایسی کوئی خاص چیر نظر نہیں آتی جو اس عمل کا کوئی جواز پیش کر سکے۔
لیکن اگر آپ نے کبھی مٹر کے پودے کو اکھاڑ کر دیکھا ہو تو اس کی جڑوں پہ آپ کو دانے دانے سے نظر آئیں گے۔ یہ دانے جراثیم کے لئے رہنے کی جگہ کا کام کرتے ہیں اور ان دانوں میں وہ جراثیم پائے جاتے ہیں جو کہ ہوا میں موجود نائٹروجن کو کھاد میں تبدیل کرتے ہوئے مٹر کے پودے کی نشونما بہتر سے بہتر کرتے ہیں۔ جب مٹر کی فصل پک کر تیار ہو جاتی ہے تو کٹائی کے دوران بیشتر پودوں کی جڑیں ٹوٹ کر زمین میں ہی رہ جاتی ہیں اور ان کے ساتھ کھاد بنانے والے جراثیم بھی جو کہ اگلی فصل (چاہے گندم ہو یا مکئی) کی پیداوار میں اضافے کا باعث بنتے ہیں۔ ہمارا پراجیکٹ یہ تھا کہ ہم نے مٹر والے جراثیم کے ساتھ ساتھ ایسے جراثیم بھی ڈھونڈے جو کے کسی پودے کی جڑ میں نہیں رہتے بلکہ مٹی میں پائے جاتے ہیں اور آسانی سے کسی بھی کھیت میں انھیں شامل کیا جا سکتا ہو۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ کتنی آسانی سے وہ کسان یہ پورا پراجیکٹ سمجھ گئے ہونگے۔
اسی طرح میلے کے آخری دن سوٹ بوٹ میں ملبوس ایک عدد بیوروکریٹ صاحب کھڑے میرے ساتھیوں پہ جزبز ہوتے نظر آئے، خیر میں جس کام میں مصروف تھا وہ کسی جونیئر کے حوالے کر کے ایک بار پھر اپنے ڈیپارٹمنٹ کے سٹال پہ جا پہنچا۔ ان موصوف کا محکمہ تو مجھے یاد نہیں کہ انھوں نے بتایا تھا یا نہیں لیکن بیالوجی اور سائنس سے ان کا آخری واسطہ غالباً میٹرک میں پڑا تھا۔ انھیں پراجیکٹ تو سمجھ آگیا تھا لیکن اس کی افادیت ان کے نزدیک مشکوک تھی۔ اب ان کو سمجھانے کے لئے ایک عدد نئے پینترے کی ضرورت تھی، اب کی بار میں نے معیشت کے تناظر میں بات شروع کی کے جو ہمارے ملک میں بڑی بڑی کھاد بنانے کی فیکٹریاں لگی ہوئی ہیں وہ قدرتی گیس کو استعمال کرتی ہیں کھاد بنانے کے لئے جس کی قیمت ان دنوں کے حساب سے کوئی ایک ارب ڈالر بنتی تھی۔ ان دنوں ملک بھر میں گیس اور بجلی کے شدید بحران درپیش تھے اور تب تک ایل پی جی درآمد شروع نہیں ہوئی تھی۔ روزانہ صبح سویرے لوگ اپنی گاڑیاں لئے دو دو تین تین گھنٹے سی این جی سٹیشنز کے سامنے قطاریں بنا کر انتظار میں کھڑے رہا کرتے تھے۔ ایسے حالات کے تناظر میں اگر جراثیمی کھاد ملکی کھپت کا ایک فیصد بھی فراہم کرنے لگے تو نا صرف یہ کروڑوں کی بچت ہوگی بلکہ اس بچی ہوئی گیس کو دوسرے شعبوں میں استعمال کرکے اور بھی فائدے حاصل کئے جا سکیں گئے۔ الغرض وہ بھی کسی حد تک اطمینان کے ساتھ اگلے سٹال پہ چلے گئے۔
یہ سیمینار اور سائنسی میلہ دونوں ہی میری زندگی کی سمت متعین کرنے والے واقعات ثابت ہوئے اور مجھے اس امر کا احساس ہوا کہ میں اگر اپنے اوپر تھوڑی سی کوشش اور محنت کروں تو ایک استاد بن سکتا ہوں۔
ہمارے معاشرے کا سب سے بڑا مسئلہ نا معیشت ہے نا سیاست نا عدالت، ہمارا اصل اور سب سے بنیادی مسئلہ اچھے اساتذہ کی عدم دستیابی ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ ہمارے ہاں استاد نہیں ہیں بلکہ جس کو کوئی اور نوکری نہیں ملتی وہ درس و تدریس سے منسلک ہوجاتا ہے، بھلے کسی پرائمری سکول میں پڑھائے، کسی کالج میں یا پھر یونیورسٹی میں پروفیسر بن جائے۔ تدریس ایک ہنر ہے جو محنت اور کوشش سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔
(جاری ہے)