اس موضوع پر لکھنے کے لیے قلم اُٹھایا بلکہ یوں کہئے کہ لیپ ٹاپ کھولا تو کہیں سے آواز آئی:

“کہو کہ میں خدا کو حاضر ناظر جان کے کہتی ہوں کہ سچ کہوں گی سچ کے سوا کچھ نہیں کہوں گی۔”

کیا خود نمائی کے مرض میں تم خود کبھی مبتلا نہیں ہوئیں؟ یہ میری ہمزاد مجھ سے پوچھ رہی تھی۔ میں نے کہا :

“ہر ایک کی فطری خواہش ہوتی ہے کہ وہ نمایاں ہو، اس کی صلاحیتوں، ہنر، فن، محنت و ریاضت کی تصدیق اور تو ثیق ہو، اس کی ایک شناخت بنے۔ یہ خود نمائی تو نہیں؟ یہ تو انسان کی سرشت میں ہے، اس طرح ہمارا حوصلہ بڑھتا ہے، اور کارِ جہاں میں ہم شوق سے شامل رہتے ہیں۔ایک عام آدمی اتنا بے نیاز تو ہو نہیں سکتا وہ یہ کہہ سکے کہ ‘نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پروا ہ’ اور میں بھی اللہ کی ایک عام سی بندی ہوں۔”

“ٹھیک ہے، ٹھیک ہے” میری ہمزاد کچھ مطمئن سی ہو گئی اورکہیں گھومنے چلی گئی۔۔

خود نمائی سے میری پرانی جان پہچان ہے۔ کبھی یہ کالا چشمہ لگائے اونچی ایڑی کا سینڈل پہنے، پرس جُھلاتی خاتون کے روپ میں کسی نام نہاد فلاحی تنظیم کا افتتاح کرتی نظر آتی ہے، تو کبھی شیروانی یا سوٹ پہنے کسی محفل کے مسند ِ صدرات پر متمکن ہوتی ہے، توکبھی جگمگاتے شادی ہالوں میں مہمانوں کا استقبال کرتی ہوئی ملتی ہے۔ کبھی اسے وزیروں، بڑے افسروں مشہور ہستیو ں کے ہمراہ چپکے ہوئے، ریشہ خطمی ہوتے ہوئے لوگوں کی شکل میں دیکھا ہے۔

وہ ہمزاد پھر نمودار ہو گئی بولی :

“اچھا سوال بہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر کوئی خود نمائی کر رہا ہے تو تمھیں کیا پریشانی ہے؟”

میں نے کہا “پریشانی ہے ہمیں، ایک تو ان لوگوں کو دیکھ کر کوفت ہوتی ہے جی جلتا ہے۔”

ہمزاد نے سمجھایا:

“بس مسکرا کر تماشہ دیکھتی رہا کرو خود نمائیوں کا اور غالب کا شعر پڑھا کرو:

بازیچۂ اطفال ہے دنیا مرے آگے
ہوتا ہے شب وروز تماشا میرے آگے۔”

میں نے غصے سے کہا :

“مذاق کی بات نہیں ہے! پریشانی ہمیں ہی نہیں سارے سماج کو ہے۔ یہ خود نمائی کے شکار لوگ اکثر اصل حق داروں کو دھکا دیتے ہوئے آگے بڑھ جاتے ہیں۔ آج کل میڈ یا کا راج ہے اور خود نمائی کی تشہیر ہونے میں بھی کچھ دیر نہیں لگتی۔ اس سے ہماری اعلی ٰ سماجی اور ادبی اقدا رپامال ہو تی رہتی ہیں۔ بچپن سے ہمیں انکساری کاسبق پڑھایا گیا تھا، کیسی کیسی باتیں سکھائی گئی تھیں۔ “کم ظر ف ہے خالی ہے صد ادیتا ہے” یا “ادھ بھر گگری چھلکی جائے” وغیرہ وغیرہ۔ مگر جناب وہ زمانے لد گئے جب کہا جاتا تھاکہ خاموشی سے کام کیے جاؤ کامیابی خود تمہارے پاوں چومے گی، اپنا ڈھول خود پیٹنے کی ضرورت نہیں ہے۔ زمانے نے تومجھے یہ سکھایا ہے کہ اگر آپ زیادہ کسر نفسی سے کام لیں گے تو لوگ آپ کے کندھوں پرپاؤں رکھ کر اپنا قد بڑھا لیں گے۔ آپ کے کام کا کریڈٹ کوئی اپنی خود نمائی کے اوچھے ہنر سے لے بھاگے گا اور آپ منہ تکتے رہ جائیں گے۔”

ہمزاد نے ایک شعر داغا ؎

قد ہر اک بونے کا مجھ سے بھی بڑا ہوجائے گا
جب میرے کاندھوں پہ وہ سیدھا کھڑا جائے گا

“آؤ میرے ساتھ” میں نے ہمزاد کا ہاتھ پکڑ کر کہا “چلو چل کر خود نمائیوں کے ڈرامے دیکھتے ہیں۔”

یہ دیکھو ایک خاتون ہیں: گھر سے آسودہ حال، ہر محفل میں نمایاں رہنے کے لیے بے حال، گپ مارنے میں باکمال، چلی آرہی ہیں مورنی کی سی چال، پوچھو کہ کہاں سے آ رہی ہیں کہاں جا رہی ہیں؟ وہ کسی فائیو اسٹار ہوٹل میں امریکن اور یوریپین خواتین کے ساتھ کٹی (kitty) پارٹی سے آ رہی ہوں گی اور کسی شہزادی کے ساتھ کسی فلاحی پراجکٹ کی میٹنگ میں جا رہی ہوں گی۔ بہت جلد ان کا انٹرویو ایک انگریزی اخبار کے ایڈیٹر بذاتِ خود لینے والے ہیں۔ یہ اطلاع وہ آپ کو یوں ہی سرسری سے اندا زمیں دیں گی اور پھر اپنے ڈرائیور کو زور سے آوا ز دیں گی کہ بڑی والی نہیں چھوٹی والی گاڑی تیار رکھے، وہ ابھی بال سٹ کرانے جائیں گی۔”

ہمزاد نے کہا “میں روؤں یا ہنسوں؟”

ان سے ملو: ان کی تصویر آپ نے اخباروں میں اکثر دیکھی ہوگی،مشاعروں، غزل کے پروگراموں میں بہت معتبر بنے بیٹھے ہوتے ہیں، گھر میں شاید ہی کوئی اردو کی کتاب ہو۔اردو کا اخبار پڑھنا کسر شان سمجھتے ہیں۔ بس تب ہی اردو کا اخبا ردیکھتے ہیں جب ان کے زیر اہتمام کسی محفل کا ذکر ہو یا وہ کسی محفل کے صدر ہوں۔ اساتذہ کے کلام سے کوئی واقفیت نہیں، کلاسیکی ادب کیا ہے کچھ معلوم نہیں۔ہند و پاک کے بہت سے ادیبوں کے ساتھ تصاویر کھنچو ا کے ضرور رکھ لی ہیں۔ بڑی پوسٹ پر ہیں، ادب کے لیے ریال خرچ کرنے میں کوئی قباحت نہیں۔ کسی محفل کی اگر صدر نہ ہوں تو پوری کوشش ہوگی کہ آگے کی صف میں ہی بیٹھیں۔۔ ان کے ساتھ ہی وہ صاحب بھی کھڑے ہیں جنھوں نے ایک آدھ کتاب، بہت چمکتی جلد کے ساتھ چھپوا لی ہے۔ فرمائشیں کرکے ستائشی مضامین لکھوائے جاتے ہیں، جگہ جگہ شاندار دعوتوں کے ساتھ اس کا اجرأ کرایا جاتا ہے۔

میری ہمزاد نے یاد دلایا:

“پہلے ہوا یہ کرتا تھا کہ کچھ ادبی رسائل ہوتے تھے جن میں صرف معیاری کلام اور تخلیقات ہی شائع کی جاتی تھیں، قاری اور نقاد ان کے ادبی معیار کا تعین کرتے تھے۔ اب تو ہر چیز کاروبار ہو گیا ہے۔ کاروباری رسائل ہیں، بہت سے ٹی وی چینل ہیں۔ ادب، فن اور موسیقی کا بازار گرم ہے جس میں کاتا ا ور لے دوڑی والا معاملہ ہے۔ کہاں کی ریاضت کہاں کی محنت۔۔

اب تو گویا خود اپنی ویب سائٹ بنائی جاتی ہے۔”

 

ان صاحبہ سے ملو: فیشن کے طور پر کئی فلاحی تنطیموں کی ممبر ہیں، فلاح کے نام پر صرف خانہ پُری کرنا، پروگراموں میں افتتاح کے ربن کاٹنا، غریب محلوں میں کبھی کبھار، شفون کی ساری پہن کر جا نا، فوٹو کھنچوانا ان کا مشغلہ ہے۔ اس طرح کے لوگوں کو دیکھ کر ان ہم ان سچے اور بے لوث خدمت گاروں کو بھی شک کی نگاہ سے دیکھنے لگتے ہیں جوخاموشی سے اپنے طورپر فلاحی کام کرتے رہتے ہیں۔

ہمزاد نے مجھے یاد دلایا :

“مال و زر اور خود نمائی کا تو چولی دامن کا ساتھ ہے۔ شادیوں میں اور دوسری تقاریب میں اپنی امارت کا نمائش کے بارے میں کیاخیال ہے؟

میں نے دکھ سے کہا :

“ان کا تو ہم کچھ نہیں کرسکتے ان کا ظرف ہے کہ اپنے مال و زر کا کیسے استعمال کریں مگر مشکل میں وہ لوگ آجاتے ہیں جو امرا ئ کی صف شامل ہونے کے شوق اور مرض ِ خود نمائی میں اپنی حیثیت سے زیادہ خرچ کر نے لگتے ہیں۔ یہ خود نمائی ہی تو ہے جو بہت سی معاشرتی اور سماجی برائیوں کی جڑ ہے۔”

یہ تو سب ٹھیک ہے مگر ہم اس صورتِ حال میں کریں کیا؟۔ ہمزاد نے پوچھا۔۔

میں نے کہا “خود نمائی پر انگشت نمائی کی جائے اور کیا؟