گیم آف تھرونز ڈرامہ کے ایک کردار پیٹر بیلیش کا ایک ڈائلاگ ہے کہ

‘بحران ایک گڑھا نہیں بلکہ سیڑھی ہے، کئی لوگ اس پہ چڑھنے کی کوشش میں گر کر ایسا ٹوٹتے ہیں کہ پھر دوبار اوپر آنے کی سعی ہی نہیں کرپاتے، کچھ ایسے ہیں جنھیں اس سیڑھی پہ چڑھنے کا موقع دیا جاتا ہے لیکن وہ سلطنت، مذہب یا محبت کی خاطر منع کردیتے ہیں، یہ سب دھوکے ہیں واحد حقیقت یہ سیڑھی ہی ہے، یہاں صرف چڑھائی ہی اصل ہے۔’

پیٹر کا یہ بیان اس کی اصل نیت کو ظاہر کرتا ہے کہ وہ شاہی خاندان کا تختہ الٹ کر خود حکومت کرنا چاہتا ہے چاہے اس کے لئے اسے کچھ بھی کرنا پڑے۔

آپ بھی سوچ رہے ہونگے کہ اس ڈائیلاگ کی یہاں کیا تک ہے، یہ ڈائیلاگ مجھے اس لئے یاد آیا ہے کہ  بی ایس سی کے دوران ہمارے ڈیپارٹمنٹ میں ایک عدد سٹوڈنٹ سوسائٹی ہوا کرتی تھی جس کے کاموں میں  بائیوٹکنالوجی اور اس سے متعلق تحقیق کے حوالے سے نا صرف ڈیپارٹمنٹ کے سٹوڈنٹس میں بلکہ دیگر لوگوں میں معلومات پہنچانا، نئے آنے والے اور جونئیر سٹوڈنٹس کو یہ موقع دینا کہ وہ اپنے سینئرز سے اس نئی فیلڈ کے بارے میں جان سکیں اور سائنسی میلے وغیرہ  اور بہت سی دیگر سرگرمیاں منقعد کرنا وغیرہ شامل تھے۔

ان سرگرمیوں میں ایک اہم سرگرمی ہر سال نئے طلباء کے لئے بائیوٹکنالوجی کا تعارفی سیمینار کا انعقاد ہوتا جس سے ہر تعلیمی سال کی ابتداء ہوا کرتی تھی۔ جب ہمارے بیچ کے پہلے مہینے کے اختتام پہ یہ سیمینار ہوا تو اسی دن میں نے اس سوسائٹی میں شمولیت اختیار کرلی اور اس کی سرگرمیوں میں بھر پور حصہ لینے لگا۔ اس سوسائٹی کا انتظامی ڈھانچہ کچھ یوں تھا کہ ڈیپارٹمنٹ کی فیکلٹی میں سے ایک استاد اس کے سرپرست ہوا کرتے تھے، آخری سال کے سٹوڈنٹس میں سے اس کی کابینہ بنتی اور ان میں سے ہی ایک عدد سیکرٹری جنرل ہوا کرتا تھا جو کابینہ اور سوسائٹی کو لیڈ کیا کرتا تھا۔ خیر اس سوسائٹی میں شمولیت کے ساتھ ہی میں نے یہ مصمم ارادہ کرلیا تھا کہ وقت آنے پر میں نے اس سوسائٹی کا سیکرٹری جنرل بننا ہے، لیکن اس کے لئے انتظار ضروری تھا۔ خیر اگلے سال سوسائٹی کی کابینہ بدلی اور روٹین کی سرگرمیاں جاری رہیں۔ تیسرے سال اس سوسائٹی میں ایک نہایت دلچسپ موڑ آیا کہ اس کے سرپرست استاد شائد پی ایچ ڈی کرنے باہر چلے گئے جبکہ دوسرا کوئی استاد اس اضافی بیگار کو تیار نہیں تھا، اسی دوران اس وقت کے سینئر ممبران میں سوسائٹی کی سربراہی پہ شدید اختلافات پیدا ہوگئے اور دو متحارب تو نہیں لیکن مخالف دھڑے وجود میں آگئے۔ اس وقت تک ہم اپنے تیسرے سال میں تھے۔ آپ نے تاریخ میں پڑھا ہوگا کہ جب بھی کوئی حکومت کمزور ہوتی ہے تو نئے طالع آزما اس کا دھڑن تختہ کرنے کو آجاتے ہیں۔ تو جناب مجھے بھی یہ نہایت مناسب موقع لگا کہ میں بھی اپنے سینے میں سلگتی اس پرانی خواہش کو عملی جامعہ پہناؤں اور اس سوسائٹی کی قیادت سنبھال لوں۔

اس خواہش کو پورا کرنے اور سینئرز کو بائی پاس کرنے کا میں نے تین مرحلوں پہ مشتمل پلان ترتیب دیا جس کا پہلا مرحلہ ایک ایسے سرپرست کی تلاش تھا جو کہ نیا ہو اور سوسائٹی سے زیادہ واقف نا ہو تاکہ اس کو قائل کرنا آسان ہو، دوسرے مرحلے پہ سینئرز سے بالا بالا سوسائٹی کی روایتی سرگرمیوں کی انجام دہی تھی، اور اس کے بعد سرگرمیوں کے کامیاب انعقاد کی بنیاد پہ سیکرٹری جنرل کی مسند پہ متمکن ہونا تھا۔ الغرض سب سے پہلے تو میں نے  ڈیپارٹمنٹ میں ایک نوارد فیکلٹی ممبر کو اس سوسائٹی کا سرپرست بننے پہ آمادہ کیا تاکہ ان کا واسطہ سینئرز کے ساتھ نا ہو، کچھ دنوں کی تگودو اور اصرار کے بعد آخر کار وہ مان ہی گئے اور ڈیپارٹمنٹ ہیڈ سے اس سوسائٹی کی سرپرستی کی اجازت لے لی۔ پہلے مرحلے کی کامیابی کے بعد اب باری تھی اپنی قائدانہ صلاحیتوں کے اظہار کی اب یہ تعلیمی سال کی ابتداء تھی طلباء کا نیا بیچ آچکا تھا اور سینئرز کے باہمی اختلافات کے باعث ابھی تک سال کی پہلی سرگرمی یعنی تعارفی سیمینار نہیں ہو پایا تھا۔ میں نے اپنی مستقبل کی ممکنہ کابینہ کے اراکین کی مدد سے یہ سیمینار کرنے کی ٹھانی اور ان کو مختلف ذمہ داریاں دے کر اس کے انعقاد میں مصروف ہوگیا۔ میں اس سیمینار کا منتظم تھا اور خود کوئی پریزنٹیشن نہیں دے رہا تھا لیکن اس سیمینار کی تمام پریزنٹیشنز کا کانٹنٹ میرا ہی ترتیب کردہ تھا، کس نے کیا کہنا ہے، کیسے کہنا ہے وغیرہ وغیرہ۔

خیر سیمینار کا دن آپہنچا اور سیمینار شروع ہوا، میرے ساتھی آتے گئے اور اپنی اپنی پریزینٹیشن دیتے گئے۔ پہلی ہی پریزینٹیشن کے دوران ہی مجھے احساس ہونے لگا کہ نئے طلباء کی دلچسپی کم سے کم تر ہوتی جا رہی ہے، یہ نہایت پریشان کن بات تھی سوسائٹی کے لئے بھی اور میرے لئے بھی۔۔۔۔ اگلی پریزینٹیشن کے اختتام تک سٹوڈنٹس بالکل ہی اکتا گئے تھے، تیسرے مقرر نے کچھ سنبھالا دینے کی کوشش کی اور کسی حد تک توجہ دوبارہ حاصل کرلی۔ لیکن اس وقت تک کافی دیر ہوچکی تھی اور اگلی دو پریزنٹیشنز نے تو گویا سیمینار کی ناکامی پہ مہر تصدیق ثبت کر ہی دی۔ اس ناکام سیمینار نے جہاں ایک طرف تو میرے پلان کو کُلی طور پہ چوپٹ کردیا وہیں سینئرز کو بھی ایک طرح سے ہوش کے ناخن لینے پہ مجبور کیا اور ان میں موجود دونوں مخالف دھڑے ایک ‘نیوٹرل’ سیکرٹری جنرل پہ راضی ہوگئے۔

اگرچہ یہ میرے لئے شدید ناکامی تھی لیکن اس دن مجھے اپنے بارے میں ایک نئی بات پتہ چلی کہ مجھ میں قدرتی طور پہ یہ صلاحیت ہے کہ میں ایمانداری کے ساتھ اپنی ناکامیوں کا تجزیہ کرنے کے قابل ہوں۔ اس سیمینار کے انعقاد کے دوران ایک طرف تو چند انتظامی معاملات میں کچھ معمولی غلطیاں ہوئیں لیکن ان سے کہیں زیادہ شدید نوعیت کے مسائل دی جانے والی پریزنٹیشنز میں تھیں کیونکہ وہ خاطر خواہ اثر پیدا کرنے میں ناکام رہیں تھیں۔ ان پریزنٹیشنز میں کوئی غلط بات ہرگز نہیں تھی مثلاً ایک پریزینٹیشن میں ہم نے ان نئے طلباء کو یہ بتانے کی کوشش کی تھی کہ

جگنو کیسے چمکتا ہے اور سائنسدان کس طرح اس چمکنے والے طریقہ کار کو تمباکو اور دوسرے پودوں  میں ڈال کر ایسے درخت بنانے کی کوشش کر رہے ہیں جو رات کو اندھیرے میں لیمپ کا کام دیں گے۔

ہماری استادی: جگنو اور تمباکو 1

اب یہ بات کوئی ایسی مشکل نہیں کہ آپ کو سمجھ نا آسکے تو پھر اس دن کیوں ان طلباء کو اس کی سمجھ نہیں آئی تھی؟ اس کا سیدھا سا جواب یہ ہے یہ بات میں نے سیدھے سیدھے لفظوں میں بیان کی ہے تاکہ کوئی شخص بھی جس نے بائیوٹکنالوجی یا جینیٹک انجینئرنگ کبھی بھی نا پڑھی ہو وہ بھی سمجھ لے، لیکن اس دن ہم نے ان نئے آنے والے طلباء کو (جن کو تب بائیوٹکنالوجی کی الف بے بھی نہیں پتہ تھی) کو اپنے برابر کا سمجھ کر ضرورت سے زیادہ ٹیکنیکل پریزنٹیشنز دینا شروع کردی تھیں کہ

جگنو میں موجود لوسیفیریز انزائم کی جین کو رسٹریکشن انڈونیوکلی ایز اور لائیگیز انزائموں کی مدد سے ٹوبیکو کے جینوم میں انسرٹ اور لائگیٹ کردیا جائے جس کے بعد جب اس جینیٹیکلی ٹرانسفارمڈ پودے کو پانی میں لوسیفیریز انزائم کا سبسٹریٹ دیا جائے گا تو وہ خودبخود اندھیرے میں لیمپ کی مانند چمکنے لگے گا۔

دونوں عبارتیں آپ کے سامنے ہیں آپ خود ہی اندازہ کر سکتے ہیں اس سیمینار کے ناکام ہونے کی کوئی دوسری وجہ ہو ہی نہیں سکتی تھی۔ جیسا کہ اوپر ذکر ہوا کہ اس سیمینار میں میری کوئی پریزینٹیشن نہیں تھی اور اس کی وجہ میری وہ ججھک تھی کہ میں بچپن سے ہی کم گو اور قدرے شرمیلا واقع ہوا تھا۔

اس ناکام سیمینار کے بعد اگلے سال جب ہم واقعی سینئر ہوگئے تو ایک بار پھر یہی سیمینار ہمارے سامنے ایک پہاڑ کی مانند کھڑا تھا، اس بار پھر پریزنٹیشنز کا کانٹنٹ میں نے ہی ترتیب دیا تھا لیکن اپنے پچھلے تجربے اور اس سے حاصل ہونے والے سبق کو سامنے رکھتے ہوئے حتی المقدور کوشش کی گئی کہ آسان سے آسان تر زبان میں بات کی جائے۔ اس بار میں نے اپنے لئے ایک پریزینٹیشن رکھی تاکہ خود اپنے تجربہ سے استفادہ کرتے ہوئے دلچسپ اور مزیدار انداز میں طلباء کو بائیوٹکنالوجی کی مختلف شاخوں کی آگہی دے سکوں۔ اس سیمینار کے نتیجے کے بارے میں آپ پوچھ سکتے ہیں کہ کیا ہوا ہوگا۔ اس سیمینار کی کامیابی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا لیں کہ اس سیمینار کے آٹھ سال بعد پنجاب یونیورسٹی میں ایک کانفرنس کے دوران میری ملاقات اپنے ایک جونیئر سے ہوئی جو اس سیمینار میں شریک تھا اسے وہ سیمینار اور میری پریزینٹیشن اس وقت بھی یاد تھی۔

(جاری ہے)

Dr. Muhammad Ibrahim Rashid Sherkoti

Hi, I am a Ph.D. in biotechnology from National University of Sciences and Technology, Islamabad. I am interested in biotechnology, infectious diseases and entrepreneurship. You can contact me on my Twitter @MIR_Sherkoti.