Table of Contents
پہلی قسط یہاں پڑھیں
البیرونی (362-448ھ / 973-1048ء)
ابوالریحان محمد بن احمد البیرونی ایک عظیم مسلم سائنسدان تھے۔ کچھ مغربی علماء نے ان کی تحریروں میں 19ویں صدی کے ارتقائی خیالات تلاش کرنے کی کوشش کی ہے۔ جے زیڈ ویلزنزکی
(J.Z. Wilezynski)
نے ایک مضمون میں یہ دعویٰ کیا کہ البیرونی کے خیالات ارتقائی نظریات سے مماثلت رکھتے ہیں۔
فرانسیسی محقق ڈیٹریکی
(Dieterici)
نے بھی 1878ء میں “دسویں اور گیارہویں صدی میں ڈارون ازم” کے نام سے ایک کتاب لکھی۔
البیرونی نے اپنی کتاب “کتاب الجواہر فی معرفۃ الجواہر“ (قیمتی پتھروں کا علم) میں موجودات کو چار اقسام میں تقسیم کیا:
معدنیات
نباتات
حیوانات
انسان
انہوں نے پودوں اور جانوروں کے مابین فرق کو واضح کیا، لیکن ایک کو دوسرے میں بدلنے کا تصور پیش نہیں کیا۔ وہ حضرت آدمؑ کو تمام انسانوں کا جد امجد مانتے تھے اور انسان کو تمام مخلوقات میں سب سے افضل قرار دیتے تھے۔
ابن سینا (370-428ھ / 980-1037ء)
ابو علی حسین بن عبداللہ ابن سینا، مغرب میں Avicenna کے نام سے مشہور، مخلوقات کے ارتقاء کو تدریجی مدارج
(Gradation of Being)
کی صورت میں بیان کرتے ہیں۔
ان کے مطابق تمام چیزیں چار عناصر (آگ، ہوا، پانی، مٹی) کے امتزاج سے وجود میں آتی ہیں:
جب یہ عناصر کسی درجہ تک پاکیزگی اور توازن حاصل کرتے ہیں، تو معدنی روح ان سے جڑ جاتی ہے، اور معدنیات پیدا ہوتے ہیں۔
مزید تطہیر اور توازن کے بعد نباتاتی روح شامل ہوتی ہے، جو پودوں کو وجود دیتی ہے۔
پودوں میں تغذیہ، نشوونما اور تولید کی طاقتیں ہوتی ہیں۔
مزید ارتقاء سے حیوانی روح شامل ہوتی ہے، جس سے جانور وجود میں آتے ہیں۔
جانوروں میں حرکت اور ادراک کی اضافی صلاحیتیں ہوتی ہیں، جو انہیں پودوں سے ممتاز بناتی ہیں۔
انسان ان سب طاقتوں کو جمع کرتا ہے اور ارتقاء کی سب سے بلند سیڑھی پر کھڑا ہوتا ہے، جو انسان کو باقی تمام زمینی مخلوقات سے ممتاز بناتی ہے۔
ابن باجہ (وفات 533ھ / 1138ء)
ابو بکر محمد ابن باجہ، مغرب میں Avenpace کے نام سے معروف، انسان کی تدریجی ترقی پر یقین رکھتے تھے۔
ڈاکٹر اسٹوکل اپنی کتاب “تاریخِ فلسفہ” میں لکھتے ہیں:
“اندلس کے تین اہم عرب فلاسفہ
ابن باجہ (Avenpace)
، ابن رشد (Averroes)
اور ابن طفیل (Abu Bucer)
ہیں۔ ابن باجہ اور ابن طفیل نے اپنی تحریروں میں انسان کی آزاد اور تدریجی ترقی کے تصور کو بیان کیا۔”
ابن طفیل (1100-1186ء)
ابن باجہ کے شاگرد ابن طفیل، ایک ہمہ جہت مسلمان مفکر تھے۔ انہوں نے “حی بن یقظان“ (زندہ، بیدار کا بیٹا) کے نام سے ایک فلسفیانہ ناول لکھا، جو مغرب میں
“Philosophus Autodidactus”
کے نام سے جانا جاتا ہے۔
یہ کہانی دو جزیروں پر مبنی ہے:
ایک جزیرہ غیر آباد ہے جہاں ایک بچہ یا تو خود بخود وجود میں آتا ہے
(Spontaneous Generation)
یا کسی ڈبے میں بہہ کر دوسرے جزیرے سے آتا ہے۔
ایک غزالہ اس کی پرورش کرتی ہے۔ اس کے مرنے کے بعد بچہ اپنی عقل سے زندگی گزارنے کے طریقے سیکھتا ہے۔
ابن طفیل نے “خمیر زدہ مٹی”، “بلبلاتی چکنی تہہ”، اور سورج کی حرارت کے زیرِ اثر حیاتیاتی ابھار جیسے الفاظ میں کیمیائی ارتقاء (Chemical Evolution) کا بیان کیا۔
اہم ارتقائی عناصر:
وجود کے لیے جدوجہد
خود کو نقصان سے بچانے کی تدابیر
ماحول کے ساتھ مطابقت
ضروریات کے تحت اعضاء کی تخلیق (جیسا کہ دانت، سینگ، کھر)
ابن طفیل کے خیال میں:
“Hayy نے اپنی کمزوری کو محسوس کرتے ہوئے شاخوں اور پتھروں سے ہتھیار بنائے، جانوروں سے دفاع کیا، رہائش گاہ بنائی اور خوراک ذخیرہ کی۔”
یہ سب اس بات کا اظہار ہے کہ انسانی ذہانت اور اختراعی قوت، ارتقاء میں بقاء کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔
الخازنی (1115–1130ء)
بارہویں صدی میں الخازنی نے کیمیاء اور حیاتیات کے بارے میں لوگوں کے تصورات کو بیان کرتے ہوئے ارتقاء کے متعلق لکھا:
“جب عام لوگ قدرتی فلاسفہ سے یہ سنتے ہیں کہ سونا ایک ایسا جسم ہے جو پختگی اور تکمیل کی آخری حد کو پہنچا ہے،
تو وہ یہ سمجھتے ہیں کہ یہ درجہ کمال آہستہ آہستہ دیگر دھاتوں سے گزر کر حاصل ہوا ہے:
پہلے سیسہ، پھر ٹین، پھر پیتل، پھر چاندی، اور آخر میں سونا۔
جیسے ایک جانور بندر سے، گھوڑے سے، یا گدھے سے ترقی کر کے انسان بن گیا ہو۔
حالانکہ فلاسفہ کا مطلب ایسا نہیں ہوتا۔”
یہ اقتباس یہ ظاہر کرتا ہے کہ عوام اور فلاسفہ کے نظریات میں فرق تھا، لیکن ارتقائی عمل کا عمومی تصور موجود تھا۔
ابن رشد (520–595ھ / 1126–1198ء)
ابوالولید محمد بن احمد ابن رشد، مغرب میں کے نام سے مشہور، تخلیق کے مسلسل عمل پر یقین رکھتے تھے۔
ان کے مطابق، اللہ کی تخلیقی قوت کبھی ختم نہیں ہوتی بلکہ مسلسل جاری رہتی ہے۔
وہ ارسطو سے بہت متاثر تھے اور اس کی تحریروں پر تفصیلی تبصرے لکھے۔
انہوں نے
“Ladder of Nature” (فطرت کی سیڑھی)
کے نظریہ کو اپنایا، جس میں مخلوقات ارتقائی ترتیب میں ایک دوسرے سے جڑی ہوتی ہیں۔
ابن رشد کے نظریات انقلابی تھے اور انہیں مسلمانوں اور عیسائیوں دونوں نے الحاد کا مرتکب قرار دیا،
تاہم ان کی فکر یہودیوں کے ذریعے یورپ میں پھیلی، خاص طور پر اٹلی اور فرانس میں۔
عرودی سمرقندی (500–560ھ)
احمد بن عمر بن علی نظامی عرودی سمرقندی نے گیارہویں صدی کے آخر میں یہ خیال ظاہر کیا کہ:
نباتات بے جان اشیاء سے ارتقائی عمل کے ذریعے پیدا ہوتے ہیں
پھر نباتات بتدریج جانوروں میں تبدیل ہوتے ہیں
ان کے مطابق:
کورل (مرجان) اور کھجور کا درخت پودے اور جانور کے درمیان ایک درمیانی کڑی ہیں
نَسناس (آدھا انسان نما مخلوق) جانور اور انسان کے درمیان ایک عبوری نوع ہے
اخوان الصفا (دسویں صدی)
اخوان الصفا ایک مسلم سائنسدانوں اور فلاسفہ کی انجمن تھی۔ ان کے خیال میں:
مذہب میں داخل “جہالت اور گمراہی” کو یونانی فلسفہ کے ذریعے صاف کیا جا سکتا ہے
انہوں نے پچاس رسائل پر مشتمل ایک دائرۃ المعارف تیار کیا: “رسائلِ اخوان الصفا“
ان کا نظریہ ارتقاء روحانی اور ماورائی بنیاد پر تھا، نہ کہ سائنسی۔
ان کے مطابق معدنیات، نباتات، حیوانات اور انسان سب ارتقائی زنجیر کا حصہ ہیں،
لیکن ہر نوع کی اصل شکل ایک “آسمانی دنیا” میں موجود ہے، اس لیے یہ تبدیل نہیں ہو سکتیں
ان کے مطابق: “افراد تبدیل ہوتے ہیں، لیکن انواع و اجناس قائم رہتی ہیں”
ڈاکٹر حسین نصر کے مطابق:
“اخوان کے نظریات اور جدید سائنس میں فرق یہ ہے کہ اخوان کے مطابق کائنات میں خدا کا ہاتھ ہر لمحہ موجود ہے،
جب کہ جدید نظریہ ارتقاء اسے خارج کر دیتا ہے”